پروفیسر ڈاکٹر محمد امین
سانحۂ قصور کی ہر کوئی مذمت کررہا ہے جو اچھی بات ہے کہ یہ واقعہ ہے ہی قابلِ مذمت، اور اس طرح کی صورتِ حال کو کسی مسلم معاشرے میں برداشت نہیں کیا جاسکتا اور نہیں کیا جانا چاہیے- لیکن مذمت کے آگے بھی کچھ انتہائی ضروری باتیں سوچنے کی ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ ہر کوئی اس واقعے کی مذمت کررہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ یہ واقعہ کیوں رونما ہوا اور اس طرح کے واقعات پاکستانی معاشرے میں کثرت سے کیوں رونما ہونے لگے ہیں؟
اوّل: ہماری رائے میں اس کے اسباب یہ ہیں:
1۔ اس کا بڑا ذمہ دار الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہے جس نے عریانی، فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے کی حد کردی ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز اس کے ذمہ دار ہیں۔ نوجوان کثرت سے سوشل میڈیا پر اخلاق باختہ فلمیں دیکھتے ہیں لیکن اس کے تدارک کی کسی کو فکر نہیں۔
2۔ مغرب زدہ تعلیم نے نسلِ نو کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ پہلے مخلوط تعلیم اور انگریزی زبان (اور انگریزی کلچر) کا راج یونیورسٹیوں تک محدود تھا، اب وہ اسکول کی سطح تک پہنچ گیا ہے۔
3۔ معاشرے میں مغربی اقدار کو فروغ حاصل ہورہا ہے اور اسلامی اقدار پیچھے دھکیل دی گئی ہیں۔
4۔ یہ صورتِ حال نہ اچانک پیدا ہوئی ہے اور نہ خودبخود پیدا ہوگئی ہے، بلکہ اس کے پیدا کرنے والے اور پاکستان میں لبرل ازم اور سیکولرازم پھیلانے والے ہمارے حکمران ہیں، عدلیہ ہے، فوج ہے، بیوروکریسی ہے۔ یہ سب مغرب زدہ ہیں، مغرب (خصوصاً امریکہ) سے مرعوب ہیں، اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور جو امریکہ چاہتا ہے وہ ان سے کراتا ہے، اور یہ خوشی سے کرتے ہیں، بلکہ ان میں مسابقت ہے کہ کون بڑھ چڑھ کر امریکی غلامی کرتا ہے۔
5۔ اس کے ذمہ دار ہمارے دانشور، صحافی اور پروفیسر تو ہیں ہی، ہمارے علماء کرام بھی اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں جنہیں اس بدترین صورتِ حال کی اصلاح کی کوئی فکر نہیں، اور وہ دوسرے بہت سے غیر اہم کاموں میں مصروف ہیں مثلاً مسلک پرستی، فرقہ واریت، غیر مناسب تعلیم، غیر موثر سیاسی جدوجہد وغیرہ۔
6۔ اس کے ذمہ دار معاشرے کے سارے دین دار لوگ ہیں بلکہ اس کا ذمہ دار سارا معاشرہ ہے جو اس صورتِ حال کو، ظلم وستم کو اور بے دینی کے طوفان کو بے حسی سے برداشت کرتا رہتا ہے اور اس کے خلاف اٹھ کھڑا نہیں ہوتا اور ان کی مزاحمت نہیں کرتا۔
دوم: زینب کے روح فرسا قتل پر قصور شہر میں اور دوسرے شہروں میں جو عوامی ردعمل سامنے آیا اور احتجاج ہوا وہ اسلامی لحاظ سے بہت حوصلہ افزا ہے۔ اس میں ہمارے سیکولر، لبرل اور مغرب زدہ سیاست دانوں، عدلیہ، فوج، بیوروکریسی، میڈیا اور اُن سب لوگوں کے لیے جو مغرب کے فکری غلام ہیں اور پاکستانی معاشرے میں مغربی اصول و اقدار پھیلانا چاہتے ہیں، یہ سبق ہے کہ وہ اپنے رویے سے باز آجائیں۔ یہ قوم کبھی اور کسی حال میں مغربی فکر و تہذیب کو قبول نہیں کرے گی۔ اور اسے اسلامی اصول و اقدار سے منحرف کرنا اور دور کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، لہٰذا وہ اپنی فکر و عمل سے باز آجائیں۔
سوم: اس میں سبق ہے دینی قوتوں کے لیے۔ وہ سوچیں کہ عوام آج بھی اسلامی اصول و اقدار کو چاہتے ہیں۔ دینی قوتوں میں اگر فراست ہوتی تو وہ اس واقعہ کو پاکستان میں اسلام پر عمل کی اور بے دینی کے خلاف جدوجہد کی تحریک بنادیتے، اور یہ آج بھی ممکن ہے لیکن وہ بصیرت، اتحاد اور قوتِ عمل سے محروم ہیں۔ کچھ کو پارلیمنٹ میں چند نشستوں اور چند وزارتوں کی فکر ہے (یہ سوچے بغیر کہ اگر انہیں یہ چند نشستیں اور چند وزارتیں مل بھی گئیں تو اس کا اسلام اور مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوگا؟) اور کچھ لوگ اپنے اپنے مسلک اور فرقے کے مدرسے اور مسجدیں چلارہے ہیں۔ وہ اپنی اس فرقہ واریت پر خوش اور مطمئن ہیں کہ انہوں نے کچھ طالب علموں اور کچھ مقتدیوں کے لیے نیکی کا ایک جزیرہ بنا رکھا ہے۔ وہ کیوں نہیں سوچتے بلکہ انہیں کیوں نظر نہیں آتا کہ مغربیت کا سیلاب سب کچھ بہائے لیے چلا جارہا ہے اور قرائن سے واضح ہے کہ ان کی مسلکی نیکیوں کے اس جزیرے کو بھی وہ جلد بہالے جائے گا۔ کاش وہ اپنی مسلک پرستی سے نکلیں، دین، اور شریعت پر متحد ہوجائیں۔ وہ موجودہ واقعے کو ایک تحریک بنادیں اور اس دوران ان کا تھنک ٹینک خاموشی سے پیچھے بیٹھ کر پلاننگ کرے کہ کس طرح تدریج سے عوام کو اسلام پر عمل کی کال دی جائے اور مغربی فکروتہذیب کی الحاد اور بے دینی اور اس کی علم بردار قوتوں کے غلبے سے جان چھڑائی جائے، تاکہ لوگ دین پر عمل کرنے لگیں، معاشرے کی اصلاح ہوجائے اور ریاست بھی دینی تقاضوں پر عمل پیرا ہوجائے۔
کاش ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہمارے دانشور اور ہمارے علماء کرام ان گزارشات پر غور کریں اور عمل کریں۔