شش ماہی تحقیقی مجلّہ تحقیق

نام مجلہ : شش ماہی تحقیقی مجلہ’’تحقیق‘‘ جام شورو
شمارہ 31
مدیر : ڈاکٹر سید جاوید اقبال
پروفیسر شعبہ اردو، ڈین فیکلٹی آف آرٹس
سندھ یونیورسٹی جام شورو
صفحات : 192 قیمت 400 روپے
بیرونِ ملک 35 ڈالر علاوہ ڈاک
ناشر : شعبہ اردو، آرٹس فیکلٹی۔ سندھ یونیورسٹی
علامہ آئی آئی قاضی کیمپس
جام شورو76080
موبائل : 0301-3510520
ای میل : urdusindh@yahoo.com
ویب سائٹ : www.usindh.edu.pk
شعبہ جاتی تحقیقی مجلہ ’’تحقیق‘‘ کا شمارہ نمبر 31 پانچ مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ پانچوں مقالات سندھ کی جامعات میں لکھے گئے پی ایچ ڈی کے غیرمطبوعہ مقالات سے مستفاد ہیں۔
پہلا مقالہ ڈاکٹر فدا حسین انصاری، وزیٹنگ پروفیسر شعبہ اردو وفاقی اردو یونیورسٹی مولوی عبدالحق کیمپس کراچی کی تحقیق ہے، جو ’’محبت خان محبت کی مثنوی اسرارِ محبت‘‘ سے متعلق ہے۔ اس مثنوی میں سسی پنوں کی داستانِ محبت نظم کی گئی ہے۔
ڈاکٹر سید جاوید اقبال تحریر فرماتے ہیں:
’’نواب محبت خان نے مذکورہ مثنوی 1782ء میں لکھنؤ کے ریزیڈنٹ مسٹر جانسن کی فرمائش پر تحریر کی جو اُس دور میں بہت معروف ہوئی۔ اس کے بعد سسی پنوں کا یہ قصہ اردو کے علاوہ سندھی، پنجابی، بلوچی اور کچھی بولی میں متعدد بار نظم کیا گیا، جبکہ انگریزی میں لیفٹیننٹ برٹن اور مسٹر لوسٹن نے بھی اس قصے کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ البتہ ایف جے گولڈ اسمتھ نے جو ترجمہ کیا وہ 1863ء میں لندن سے شائع ہوا۔‘‘
دوسرا مقالہ ’’بلوچوں میں اردو گوئی کا آغاز: اجمالی جائزہ‘‘۔ ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج برائے ایلی منٹری ٹیچر ڈیرہ غازی خان کی تحقیق ہے جو 1444ء سے 2000ء کے دورانیے پر مشتمل ہے۔ بہت ہی معلومات افزا مقالہ ہے۔
تیسرامقالہ ہے ’’ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے دیباچوں کا تجزیاتی مطالعہ‘‘۔ یہ جناب محمد اعجاز صابر، پی ایچ ڈی اسکالر شعبۂ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو، صدر شعبہ اردو بلوچستان ریزیڈنشل کالج خضدار اور مدیر مجلہ تحقیق سید جاوید اقبال کی مشترکہ تحقیق ہے۔ لکھتے ہیں ’’دیباچہ اردو زبان میں لفظ ’’دیبا‘‘ کی تصغیر ہے۔ دیبا سے مراد ریشمی قسم کا کپڑا ہے جس پر موتی ٹنکے ہوں، اور ’’دیباچہ‘‘ سے مراد رخسار، پیشانی، آغاز نما اور مقدمہ کتاب کے ہیں۔ فیروزاللغات میں دیباچہ کے معنی کتاب کا مقدمہ، پیش لفظ، تمہید اور آراستہ لکھے ہیں‘‘۔ جامع مقالہ ہے۔
چوتھا مقالہ کا عنوان ہے ’’امیر مینائی کی اردو نثری تصانیف‘‘۔ یہ مقالہ پی ایچ ڈی اسکالر صدف تبسم، شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی کے قلم سے ہے۔
پانچواں مقالہ ہے ’’اردو فرہنگ نگاری تشکیل و تحقیق، ایک جائزہ‘‘۔ ڈاکٹر سید جاوید اقبال کے بقول یہ اردو میں پہلا مقالہ ہے جو فرہنگ نگاری Glossary سے متعلق ہے۔ مقالہ نگار کی فرہنگ نگاری سے مراد شعرا اور ادبا کی تخلیقات کی فرہنگ ہے جس کے لیے انگریزی زبان میں گلاسری کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
مجلہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔
………
نام مجلہ : شش ماہی تحقیقی مجلہ تحقیق۔ جام شورو(شمارہ32 )
مدیر : ڈاکٹر سید جاوید اقبال
صفحات : 274 قیمت فی شمارہ 400 روپے
ناشر : شعبۂ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو 76080
شعبہ جاتی تحقیقی مجلہ ’’تحقیق‘‘ کا یہ بتیسواں شمارہ ہے، اس میں اشاعت کے لیے 6 مقالات منتخب کیے گئے ہیں۔ ان کا تعارف جناب مدیر نے عمدگی کے ساتھ کرایا ہے، ہم اسے درج کرتے ہیں:
’’اس شمارے میں درج ذیل 6 مقالات شامل کیے گئے ہیں:
-1 ’’تحریکِ اتحادِ اسلامی‘‘ ایک اہم تحریک تھی جس کا مقصد مسلمان ممالک کو انحطاط سے نکالنا تھا۔ اس کے روحِ رواں جمال الدین افغانی اور سلطنت ِعثمانیہ تھی۔ اس تحریک میں برصغیر کے علماء، ادبا، شعرا، سیاست دانوں، صحافیوں اور عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خالد امین صاحب نے اس مقالے میں مذکورہ تحریک سے وابستہ اردو شعرا کی تحریکی خدمات کو نہایت عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔
-2 ’’قائم خانی بولی کے گیت: تہذیبی و سماجی مطالعہ‘‘ ایک لحاظ سے گم شدہ تہذیب کا مطالعہ ہے، جو سامنے ہوتے ہوئے بھی نظروں سے اوجھل تھی… کرم چند چوہان کا تعلق راجستھان سے تھا۔ اس نے 1351ء سے 1352ء کے درمیانی عرصے میں سید نصیر الدین شاہ چراغ دہلویؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ مرشد نے اسلامی نام ’’قائم‘‘ رکھا۔ فیروز شاہ تغلق جو ’’قائم‘‘ کی بہادری سے بہت متاثر تھا، اُس نے قائم کو ’’خان‘‘ کا خطاب دیا اور علاقہ ’’حصار‘‘ کا صوبے دار بھی بنادیا۔ اس کے بعد اُس کا نام نواب قائم خان ہوگیا۔ بعد کی تاریخی کتابوں میں اس کا یہی نام ملتا ہے اور وہ اپنی برادری میں بھی اسی نام سے معروف ہے۔ اس کے نام ہی کی مناسبت سے اس کی نسل قائم خانی کہلائی۔
قیام پاکستان کے بعد قائم خانی برادری کی ایک بہت بڑی تعداد نے پاکستان ہجرت کی۔ خصوصاً سندھ کے مختلف علاقوں کو اپنا مسکن بنایا۔ قائم خانی، راجستھان سے جو مادری بولی بولتے ہوئے آئے تھے وہ قیام پاکستان کے بعد انہی سے منسوب ہوکر بطور شناخت ’’قائم خانی بولی‘‘ کہلائی۔ اس وقت پاکستان میں چار لاکھ سے زائد خاندانوں کی مادری بولی قائم خانی بولی ہے۔
قائم خانی (برادری) راجستھان کے جن علاقوں میں رہا کرتے تھے وہاں مارواڑی بولی جاتی تھی، اس کی وجہ سے قائم خانی بولی پر اس کے اثرات ہیں، اس حوالے سے قائم خانی بولی کو اس کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس بولی کو مارواڑی کی ذیلی بولی (Sub-Dialect) یا علاقائی تحتی بولی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا کوئی علیحدہ رسم الخط ہے نہ ادبی حیثیت۔ لیکن اس میں قابل قدر لوک ادب موجود ہے جس میں لوریاں، شادی کے گیت، موسموں کے گیت، بچوں کی پیدائش کے موقع پر ہونے والی رسموں میں گائے جانے والے گیت، اس کے علاوہ کہانیاں، کہاوتیں اور محاورات وغیرہ شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بولی سے متعلق جو ادبی ذخیرہ ملتا ہے اس کی خالق زیادہ تر اسی برادری کی ان پڑھ خواتین ہیں۔ لیکن اس سے قطع نظر یہ لوک ادب بہت قیمتی ہے۔ مطالعے سے اس کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
-3 اس مقالے میں ’’ہندوستان پر ترک قبائل کے لسانی اثرات کا مطالعہ‘‘ پیش کیا گیا ہے۔ گو کہ ڈاکٹر امتیاز کے اس مقالے میں تشنگی ہے لیکن پھر بھی تحقیق کے کئی نئے در واہوتے ہیں۔
-4 ڈاکٹر فوزیہ اسلم نے ’’انگریزی آمیزی کا رجحان اور انگریزی اخبارات: روزنامہ ایکسپریس کے حوالے سے‘‘ مقالہ تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اس مقالے میں اردو اخبارات میں استعمال ہونے والے ’’انگریزی الفاظ، مرکبات، فقرہ جات اور محاورات‘‘ کو اپنا موضوع بنایا ہے، جس کے ’’اردو مترادفات روزمرہ بول چال کا جزو ہونے کے باوجود استعمال نہیں کیے جارہے‘‘۔ جب کہ مقالے کے آخر میں رقم طراز ہیں کہ: ’’زیرنظر مقالے میں انگریزی کے ان الفاظ کو موضوع نہیں بنایا گیا جو اردو میں دقیق الفاظ کا درجہ پاچکے ہیں۔ یہاں فقط مستعار الفاظ پر تحقیق کی گئی ہے‘‘۔ یہی نہیں، وہ تحقیقی نتائج کے بعد یہ بھی مشورہ دیتی ہیں کہ: ’’اگر دوسروں کی رہنمائی کے لیے اردو اخبارات اپنی تحریروں میں انگریزی الفاظ کے استعمال پر نظرثانی کرلیں تو اس سے اردو کی وسعت، تجربات اور پاکستان کی اردو میں ایک نئے رجحان کا اضافہ ہوگا‘‘۔ اس کے بعد اس خدشے کا بھی اظہار کرتی ہیں کہ: ’’ورنہ ہم آہستہ آہستہ اپنی اردو سے دور ہوتے جائیں گے۔‘‘
ڈاکٹر فوزیہ کا یہ مقالہ موضوع، مواد، تحقیقی طریقہ کار اور نتائجِ تحقیق کے اعتبار سے معیاری ہے۔ اردو سے فوزیہ صاحبہ کی بے لوث محبت، دراصل پاکستان اور پاکستان سے محبت کا اظہار ہے۔
-5 حکیم محمد سعید(1920ء) کا شمار پاکستان کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، مصنف، مفکر، منتظم، ماہر تعلیم، صنعت کار، سماجی کارکن اور دنیا میں پاکستان کی پہچان تھے۔
حکیم محمد سعید کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ کم عمری ہی میں انہوں نے ایک مضمون تحریر کیا تھا جو شائع بھی ہوا۔ یوں رفتہ رفتہ شوق بڑھتا گیا اور شہادت (1998ء) تک انہوں نے جو کچھ لکھا اور شائع ہوا اُس کی فہرست بہت طویل ہے۔ اسی فہرست میں اُن کے 56 سفرنامے بھی شامل ہیں جسے پیش نظر رکھتے ہوئے ’’حکیم محمد سعید کی سفرنامہ نگاری کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ پیش کیا گیا ہے۔
-6 سید طارق حسین رضوی کا مقالہ ’’سندھ سے شائع ہونے والے ادبی اصناف و موضوعات سے متعلق رسائل‘‘ کے حوالے سے اس مقالے میں انہوں نے ایسے ادبی رسائل کی نشاندہی کی ہے جو ایک؍دو صنفِ ادب تک محدود ہیں، مثلاً ’’نعت رنگ‘‘ ،’’سفیرِ نعت‘‘، ’’نعت نیوز‘‘، ’’حمد و نعت‘‘، ’’انوارِ حرم‘‘، ’’جہانِ حمد‘‘، ’’ارمغانِ حمد‘‘، ’’تعلیم‘‘، ’’نمک دان‘‘، ’’چونچ‘‘، ’’پھلجڑی‘‘،’’پنج‘‘، ’’کارٹونسٹ‘‘، ’’ظرافت‘‘، ’’خاکے‘‘، ’’کارٹون‘‘، ’’زیرلب‘‘، اور ’’مزاح پلس‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
اس مطالعے میں طارق صاحب نے ’’نعت‘‘،’’حمدو نعت‘‘، اور طنزیہ و مزاحیہ ادب سے متعلق رسائل کا ایک ایسا دلچسپ مطالعہ پیش کیا ہے جو تحقیق کے نئے موضوعات کی جانب متوجہ کرتا ہے۔
اس شمارے میں شامل مقالات ہی کے حوالے سے:
قارئین کی طرف سے موصول ہونے والے مقالات میں سے معیاری مقالات کا انتخاب ہمارے لیے بھی امتحان ہوتا ہے اور ماہرین کے لیے بھی۔ جیسا کہ اس شمارے کے لیے اچھے خاصے مقالات آئے تھے لیکن اس میں سے صرف چھے مقالات منتخب کیے جاسکے، جو پیش تو کردیے گئے ہیں، اب دیکھیں کہ قارئین کے معیار پر بھی پورے اترتے ہیں یا نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ جو مقالات اشاعت کے لیے آتے ہیں وہ زیادہ تر پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علموں کے ہوتے ہیں جو نگرانِ مقالہ کی نگرانی میں لکھے جاتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ معیاری نہیں ہوتے؟‘‘
اس شمارے میں جو مقالات طبع کیے گئے ہیں ان کے مصنفین کے اسمائے گرامی مفصلاً یوں ہیں:
ڈاکٹر فوزیہ اسلم۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد
فرید الدین۔ پی ایچ ڈی اسکالر، شعبۂ اردو سندھ یونیورسٹی، جام شورو سندھ۔ اسسٹنٹ پروفیسر، جناح گورنمنٹ کالج، ناظم آباد، کراچی
ڈاکٹر محمد امتیاز۔ لیکچرر اردو، گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ مینجمنٹ سائنسز۔II نوشہرہ
ڈاکٹر خالد امین۔ پی ایچ ڈی اسکالر، شعبۂ اردو کراچی یونیورسٹی۔ لیکچرر اردو گورنمنٹ ڈگری سائنس اینڈ کامرس کالج، اورنگی ٹائون، کراچی
ساجدہ پروین۔ پی ایچ ڈی اسکالر شعبۂ اردو، سندھ یونیورسٹی، جام شورو، سندھ۔ لیکچرر گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، ٹنڈو محمد خان، سندھ
سید طارق حسین رضوی۔ لیکچررشعبۂ اردو، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیرپور میرس، سندھ
سید جاوید اقبال۔ پروفیسر شعبۂ اردو، سندھ یونیورسٹی، جام شورو، سندھ
مجلہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔