یہ بات سمجھ میں نہیں آئی

(کتاب : یہ بات سمجھ میں آئی نہیں (بچوں کی نظموں کا مجموعہ
مصنف و شاعر : احمد حاطب صدیقی
مرتب : اعظم طارق کوہستانی
قیمت: 200روپے
ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ، 105۔ ایف، سلیم ایونیو، بلاک 13 بی، گلشن اقبال، کراچی
ٹیلی فون: 34982343، 34976468
بچوں کا ادب لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے، آسان اور عام فہم الفاظ اور صوتی اعتبار سے بچوں کے لیے قابلِ قبول اور ان کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے شوخ و شنگ اور کھٹی میٹھی نظمیں لکھنا اور وہ بھی مختلف موضوعات پر جو بچوں کو پسند آئیں اور بڑوں میں بھی بچوں کے ادب کے طور پر ان کو پذیرائی ملے، کارِدارد ہے۔ احمد حاطب صدیقی ایک کہنہ مشق لکھاری ہیں جو نظم و نثر دونوں میں قلم کاری کے جوہر دکھاتے آئے ہیں۔ پروفیسر محمد اسحاق جلالپوری مرحوم نے ’’حاطب کی نٹ کھٹ نظمیں‘‘ کے عنوان سے نظموں کے اس مجموعے کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ نٹ کھٹ نظمیں، اپنا تعارف خود ہیں۔ ہلکے پھلکے الفاظ، رواں بحریں، مترنم زبان، سادہ و سلیس بیانی، دلچسپ اور مؤثر ہلکے پھلکے قافیوں اور سہل ردیفوں نے ان نظموں کو خاصے کی چیزبنادیا ہے۔ متنوع موضوعات پر سہل ممتنع میں چھوٹی اور رواں بحروں میں طبع آزمائی کرکے بچوں کے لیے شوخ اور سنجیدہ دونوں قسم کا ادب پیش کیا ہے جو نہ صرف بچوں کو خوش کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ ان کے ذہنوں کو جِلا بخشنے اور ان میں غور و فکر کی عادت ڈالنے میں بھی معاونت کرتا ہے۔ بچوں کے لیے تصنیف کردہ حضرت اسماعیل میرٹھی اور علامہ اقبال کی مقبول اور عام فہم نظموں کی خوبی یہ تھی کہ وہ رواں بحروں کی وجہ سے جلد یاد ہوجاتی ہیں اور اپنے نفسِ مضمون اور مرکزی خیال کی وجہ سے سبق آموز اور غور و فکر کی دعوت دیتی رہی ہیں۔ ماہنامہ ساتھی کے مدیر اور ادارہ مطبوعاتِ طلبہ کے فعال رکن جناب اعظم طارق کوہستانی اس شعری مجموعے کے دیباچے میں لکھتے ہیں
’’جب ہم چھوٹے بچے تھے اُس وقت سے اب تک ہم حاطب صاحب کو پڑھتے آئے ہیں اور خوب محظوظ ہوتے آئے ہیں۔ کہانیاں پڑھیں تو ایک سے ایک، اور نظمیں پڑھیں تو ہر مصرعے پر اچھل اچھل کر داد دینے کو دل کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے اس مجموعے کی ایک خاص خوبی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’حاطب صاحب نے کچھ نظمیں صرف لڑکیوں کے لیے لکھی ہیں۔‘‘
احمد حاطب صدیقی کے زیرنظر مجموعے میں شامل سہل ممتنع کی خوبی کی حامل شاعری نہ صرف تاثیر کی قوت رکھتی ہے بلکہ تادیر حیات بخش ہے۔ احمد حاطب کی شوخ اور نٹ کھٹ نظمیں اس معیار اور مزاح کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ مزاح کی تعریف کرتے ہوئے انگریزی کا معروف ادیب اسٹیفن لی لاک (Stephen Le Lock) کہتا ہے کہ ’’زندگی کی مضحکہ خیز صورتِ حال یا ناہمواریوں کا ادراک یا مشاہدہ کرکے فنکارانہ اظہار کرنا مزاح ہے‘‘۔ مزاح میں طنز کے برخلاف چھپا ہوا نشتر، میٹھا زہر، کسی کی تضحیک، دل شکنی یا تحریف نہیں کرتا۔ اردو ادب میں خالص مزاح لکھنے والوں میں نمایاں نام مرزا غالب، پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی اور دیگر کے ہیں۔
بچوں کے لیے لکھی جانے والی نظموں کے اس مجموعے میں احمد حاطب کی کچھ پرانی اور شروع کی نظمیں بھی شامل ہیں جو انہوں نے بیسویں صدی کے آخری عشروں میں لکھی تھیں۔ اس خوبصورت گیٹ اپ میں اور رنگا رنگ کارٹونوں اور تصویروں سے سجے مجموعے میں کُل چوبیس چھوٹی بڑی دلچسپ، شوخ، مزے دار اور فکر انگیز نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں کے موضوعات اہم اور متنوع ہیں، جن کی وجہ سے اس مجموعے کی افادیت اور سِوا ہوگئی ہے۔ بچوں کے لیے نظمیں لکھنے والوں کے لیے یہ ایک عمدہ راہِ عمل اور باعثِ تقلید ہے۔ بلاشبہ اس کو مرتب کرنے اور سجانے پر بہت محنت کی گئی ہے اور اچھے آرٹ پیپر پر اس کی اشاعت بھی ایک مہنگا کام ہے جو خوش اسلوبی سے کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ادارہ مطبوعاتِ طلبہ قابلِ صد مبارک باد ہے جو اس سے پہلے بھی اچھی، معیاری اور مفید کہانیاں، مضامین اور کتابیں شائع کرتا رہا ہے۔ یوں تو اس مجموعے میں شامل سبھی نظمیں اچھی، پڑھنے کے قابل اور دلچسپ ہیں لیکن اللہ کی نعمتیں، بدھو سی اک بچی، یہ بڑے مزے کا قصہ ہے، اچھا بچہ، میں کچھ بھی کہہ نہ پایا، یہ بات سمجھ میں آئی نہیں، سو شکریہ تمہارا اے میری پیاری گائے، دو پیڑ تھے بیچارے، اور بال گندے نہ رکھ جوئیں نہ پال دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کا نظم و نثر میں اچھا اور دلچسپ ادب لکھنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، جو احمد حاطب صدیقی اپنے دوسرے نثری جواہر پاروں کی طرح انتہائی کامیابی سے لائے جارہے ہیں۔
’’بڑے مزے کا قصہ ہے‘‘ سے کچھ اقتباسات آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور محظوظ ہوں

شمامہ بلی سے کہتی ہے
میں روز تمہیں نہلاتی ہوں
پیالے میں دودھ پلاتی ہوں
یا تازہ چھیچھڑے منگوا کر
خوب اچھی طرح سے دھلوا کر
دیتی ہوں تم کو کھانے کو
کھا پی کر بھوک مٹانے کو
پھر چوہے تم کیوں کھاتی ہو؟
کیوں منہ کو خون لگاتی ہو
سب چوہے گندے ہوتے ہیں
گندے نالے میں سوتے ہیں
بلی جواب میں کہتی ہے
یہ بات شمامہ کی سُن کر
مانو نے کہا: باجی بہتر
پَر آپ مجھے سمجھاتی ہیں
خود الّم غلّم کھاتی ہیں
’’چنگم‘‘ دن رات چباتی ہیں
یا لالی پاپ اڑاتی ہیں
قلفی فالودہ دہی بڑے
بازار کے چھولے گلے سڑے
پھر پیٹ پکڑ کر روتی ہیں
اور درد سے بے کَل ہوتی ہیں
٭……٭……٭
اب ہو کہ شمامہ شرمندہ
بولی کہ چلو بس آئندہ
ہم مل کے ارادہ کرتے ہیں
یہ پکا وعدہ کرتے ہیں
بس اچھی چیزیں کھائیں گے
اور کھا کر جان بنائیں گے