ایم کیو ایم لندن کے رہنما ڈاکٹر حسن ظفر عارف اتوار کی صبح ابراہیم حیدری کے علاقے الیاس گوٹھ کے قریب ایک گاڑی میں مُردہ پائے گئے۔ میت کی ناک اور منہ سے مبینہ طور پر خون بہہ رہا تھا۔ 73 سالہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف جامعہ کراچی میں فلسفے کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔ ایم کیو ایم کے قانونی مشیر عبدالمجید ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہفتے کی شام ان کے ساتھ تھے۔ ظفر عارف کی صاحبزادی کو لندن روانہ ہونا تھا جنھیں خدا حافظ کہنے کے لیے ڈاکٹر صاحب اپنے گھر ڈیفنس فیز VIکی طرف روانہ ہوئے۔ مجید ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی اہلیہ کا انھیں فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب گھر نہیں آئے۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی لاش مل گئی۔ ملیر کے ایس ایس پی رائو انوار نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ مرحوم کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں پایا گیا۔ اتوار کی شام جناح اسپتال کے ایم ایل او ڈاکٹر شیراز خواجہ اور ڈاکٹر سونومل نے ان کا پوسٹ مارٹم کیا۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں حسن ظفر کی موت کی وجہ طبعی قرار دی گئی ہے، پولیس کے مطابق پروفیسر حسن ظفر عارف دل کے مریض تھے۔ ڈاکٹروں کو پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا۔ ماہرینِ قلب کا کہنا ہے کہ دل کے مریض کو کسی کمرے میں بند کردیا جائے تو موت واقع ہوسکتی ہے، اور ڈرانے دھمکانے سے بھی دل ڈوب سکتا ہے۔ سوا دوسال قبل 22 اکتوبر 2016ء کو انھیں رینجرز نے کراچی پریس کلب سے اُس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ ایم کیوایم کے رہنما کنور خالد یونس کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے آرہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو مقدمہ چلائے بغیر 6 ماہ بعد گزشتہ سال اپریل میں رہا کردیا گیا۔ ایس ایس پی رائو انوار کی جانب سے لاش کی دریافت نے معاملے کو انتہائی مشکوک بنادیا ہے اور اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی پرسرار موت ماورائے عدالت قتل کا تسلسل نظر آرہا ہے جو سارے ملک خاص طور سے کراچی اور بلوچستان میں برسوں سے جاری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر کو ایم اے کے بعد لند سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی، واپس وطن واپس آئے اور جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر فرائض سرانجام دینے لگے۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم کے بھی وہ صدر رہے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے انہیں ملازمت سے برطرف کرنے کے علاوہ گرفتار کرلیا گیا۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے پیپلز پارٹی کی طلبہ یونین پی ایس ایف کو کراچی میں منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1990ء کی دہائی میں پروفیسر حسن ظفر عارف مسلم لیگ (ن) کے بھی قریب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ بھٹو کی وطن واپسی اور ان کے رابطے پر ڈاکٹر حسن ظفر دوبارہ سیاست میں سرگرم ہوئے، لیکن مرتضیٰ بھٹو کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کے بعد وہ دوبارہ غیر فعال ہوگئے۔ کئی سال کی سیاسی کنارہ کشی اور خاموشی کے بعد حیرت انگیز طور پر انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ لندن میں شمولیت اختیار کی اور انہیں پاکستان میں تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا، جس کی وجہ سے انہیں ایک بار پھر قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔
کردملیشیا اور ترک امریکہ کشیدگی
امریکی وزارتِ دفاع نے داعش سے خالی کرائے جانے والے علاقوں کے دفاع کے لیے 30 ہزار نفری پر مشتمل ایک سرحدی فوج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فوج بنیادی طور پر کردش ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کی دہشت گرد عسکری تنظیموں پیشمرگاو YPG پر مشتمل ہوگی۔ اس ملیشیا کی تشکیل پر شامی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ صدر بشارالاسد نے کہا کہ کرائے کے غنڈوں اور اجرتی قاتلوں کو امریکہ کے جھنڈے تلے شام پر قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ روس نے بھی امریکہ کے اس قدم کو شام پر قبضے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
تاہم سرحدی فوج کے اعلان پر ترکی کے صدر کا ردعمل انتہائی سخت ہے۔ پیر کو رائٹرز سے باتیں کرتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی اس زہریلی کونپل کے پھوٹنے کا انتظار نہیں کرے گا۔ امریکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ملک جسے ہم اپنا اتحادی کہتے ہیں، ہماری سرحدوں پر ایک دہشت گرد فوج بنارہا ہے۔ ان دہشت گردوں کا ہدف ترکی کے سوا اور کون ہے! لوگ کان کھول کر سن لیں، ہم اس فوج کا گلا گھونٹ دیں گے۔
زیرآب جوہری ڈرون
امریکی وزارتِ دفاع کے مطابق روسی بحریہ نے زیر آب جوہری ڈرون کے ’اسکواڈرن‘ تیار کرلیے ہیں جو 10کروڑ ٹن (100 Mega Ton) وزنی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ یہ خوفناک ہتھیار جو Autonomous Underwater Vehicle یا AUVکہلاتا ہے، نومبر 2016ء سے روسی بحریہ کے پاس قابلِ استعمال حالت میں موجود ہے۔ کچھ عسکری ماہرین AUV کو زیرآب جوہری تارپیڈو پکارتے ہیں۔ فضا سے زمین اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے تیزرفتار بین البراعظمی میزائلوں کے ساتھ روسیوں نے بین البراعظمی زیرآب میزائل بھی بنالیے ہیں۔
(بحوالہ نیوز ویک آن لائن)
اسرائیلی وزیراعظم کا غیر روایتی دورۂ بھارت
اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو المعروف بی بی جب اپنی اہلیہ کے ہمراہ دلّی پہنچے تو ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے جگری دوست کو اپنے سینے سے لگالیا اور غیر معمولی گرم جوشی کے مظاہرے کو دیکھ کر اسرائیل کی خاتونِ اول سارہ بھی حیران رہ گئیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کے استقبال کے لیے ہندوستان احمدیہ جماعت کا وفد بھی موجود تھا۔ چھے ماہ پہلے ہندوستانی وزیراعظم کے دورۂ اسرائیل کے موقع پر جماعت احمدیہ اسرائیل کے قائد مودی جی کے استقبال کے لیے ائرپورٹ پر موجود تھے۔ یہ گزشتہ 15 سال کے دوران کسی اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورۂ بھارت ہے۔ اس سے پہلے 2003ء میں ایرل شیرون نے دہلی کا دورہ کیا تھا۔ ایرل شیرون کو قصابِ صابرہ اور شتیلہ کہا جاتا ہے۔ اس دورے کی خاص بات ہندو اور یہودی ریاست کے مابین سفارتی تعلقات کے 25 سال پورے ہونے پر دوستی کا سلور جوبلی جشن ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم 130 رکنی وفد کے ساتھ آئے ہیں ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران بی بی گجرات کے علاوہ ممبئی بھی جائیں گے جہاں وہ بالی ووڈ کے فلم سازوں سے ملاقات کریں گے۔ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کا ایک بڑا منصوبہ شروع کرنے والے ہیں۔ سائبر سیکورٹی، توانائی، زراعت، خلائی تحقیق، اسلحہ سازی، انسداد دہشت گردی، موساد و را (RAW)کے درمیان تعاون اور فلم سازی کے شعبوں میں اہم سمجھوتوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ ان رسمی مذاکرات کے علاوہ دونوں رہنما کشمیر میں جاری مزاحمت اور افغانستان میں طالبان کو کچلنے کے طریقوں پر غور کریں گے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام کا ایک وفد بی بی کے ساتھ آیا ہے۔ یہ ماہرین غزہ و دریائے اردن کے مغربی کنارے پر مظاہروں کو دبانے اور حماس کے خلاف اپنی حکمت عملی اور تجربات سے اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کو آگاہ کریں گے۔(بشکریہ مسعود ابدالی)
بصیرت، حکمت اور اہلیت سے محروم حکمراں
بات تو فقط اتنی سی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی حد درجہ ترقی کرچکی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا اور انتظامیہ کی صلاحیت کو بہتر بنانا حکمرانوں کا فرض ہے، مگر اس فرض کی انجام دہی کے لیے بصیرت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی منظم اور قانون کی حکمرانی والے معاشرے میں جائیں تو جہاں اپنی انتظامیہ کی کرپشن، نااہلی، سردمہری اور ناکامی کا احساس شدت سے ہوتا ہے، وہیں اپنے حکمرانوں کی بصیرت و اہلیت پر بھی رونا آتا ہے۔ جن حکمرانوں میں تبدیلی لانے اور انتظامی مشینری کو بہتر بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ تو چار پانچ برسوں میں ہی یہ کارنامہ انجام دے دیتے ہیں، لیکن جو بصیرت، حکمت اور اہلیت سے محروم ہوتے ہیں، دو تین دہائیوں میں بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ عوام کا دل بہلانے کے لیے دکھاوے کے منصوبے اور سیاسی شعبدے دکھاتے رہتے ہیں، جبکہ لوگوں کے مسائل، دکھ اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نمائشی منصوبوں کا نتیجہ سوائے خزانے کے زیاں کے، کچھ نہیں ہوتا۔
(ڈاکٹر صفدر محمود، جنگ، 16جنوری2018ء)
معاشرتی بگاڑ کی وجوہات
مغرب کی تقلید اور میڈیا سے ڈرنے کے بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرتی بگاڑ کی کیا وجوہات ہیں اور انہیں کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس جب حل کی بات ہوتی ہے تو میڈیا ہمیں مغرب کا سبق پڑھاتا ہے۔ سانحۂ قصور کے بعد فلم و شوبز انڈسٹری کے افراد کے ذریعے قوم کو بتایا گیا کہ قصور جیسے واقعات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ مختلف علاج تجویز کیے گئے، لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس قسم کے جرائم میں بڑھتی فحاشی و عریانی کا کتنا کردار ہے؟ کسی نے یہ نہیں بولا کہ ہماری فلموں، ڈراموں، اشتہاروں اور میڈیا کے ذریعے کس انداز میں جنسی بے راہ روی کے رجحانات پیدا ہورہے ہیں، اور ایسے رجحانات جرائم کا سبب کیسے بنتے ہیں! کسی نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ معاشرے کی اخلاقیات کی تباہی میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ اب موبائل فون معاشرتی خرابیوں، برائیوں کے علاوہ جنسی جرائم کی ایک اہم وجہ بن چکے ہیں!! افسوس کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ فحاشی و عریانی کو روکنے کے لیے میڈیا، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی سخت نگرانی کی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جائے!! کوئی حکومتوں، حکمرانوں اور پارلیمنٹ پر اس بات پر زور کیوں نہیں دیتا کہ سزاو جزا کے اسلامی نظام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کو جنگی بنیادوں پر اصلاح اور افراد کو کردار سازی کی ضرورت ہے تاکہ حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، ثواب اور گناہ، اچھائی اور برائی میں نہ صرف فرق واضح ہو بلکہ معاشرہ حق، سچ، اچھائی اور ثواب کے کاموں کا ساتھ دے اور باطل، جھوٹ، گناہ اور برائی کے کاموں سے دوسروں کو روکے؟
(کالم: انصار عباسی، جنگ16جنوری، 2018ء)
طلبہ انجمن اور سیاسی شعور
طلبہ یونین ہوتی تھی۔ ملکی سیاست میں تقریباً تمام نمایاں نام انہی طلبہ یونینز کی پیداوار تھے۔ طلبہ میں سیاسی شعور بھی تھا اور سیاسی بیداری بھی۔ پھر ضیاء الحق کے زمانے میں طلبہ یونینز پر پابندی لگ گئی۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ کُل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات سے لے کر جلوسوں تک اور الیکشن کے جلسوں سے لے کر ہفتۂ تقریبات تک، آہستہ آہستہ طلبہ یہ سب کچھ بالکل ہی بھول گئے۔ کل ایمرسن کالج کے لڑکوں کو قصور کے واقعے پر سڑک پر دیکھا تو ایک خوشگوار حیرانی ہوئی۔ میں نے یہ منظر تقریباً چار عشروں کے بعد دیکھا۔
(خالد مسعود، دنیا، 16جنوری2018ء)
میڈیا میں ریٹنگ اور سنسنی خیزی
۔Mediumکا ذکر اگرچہ ذریعہ جسے Toolبھی کہا جاسکتا ہے، پر زیادہ فوکس کرتا رہا۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ تحقیقTVکے امکانات کے بارے میں ہوئی۔ استادوں نے بالآخر اسے Idiot Box کہا، جس کے ذریعے کوئی خبر تو Breakکی جاسکتی ہے مگر کسی پیچیدہ موضوع کو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں۔ ٹی وی روزمرہ زندگی میں مصروف لوگوں کی توجہ کو چند لمحوں کے لیے اپنی جانب مبذول رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس دھندے کو چلانے کے لیے Ratings درکار ہیں اور Ratings سنسنی خیزی کا تقاضا کرتی ہیں۔
ہر ذریعہ ابلاغ کے لیے مختص ہوئی حدود کا ذکر کرتے ہوئے ٹی وی صحافت کی بھد اُڑانا میرا مقصد نہیں۔ میرے اپنے رزق کا بیشتر حصہ اسی میڈیم کے طفیل نصیب ہوتا ہے اور اپنے پیٹ پر کوئی لات نہیں مارا کرتا۔
اصل مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے ہاں 24/7چینل متعارف ہونے کے بعد پرنٹ میڈیا اپنے امکانات کے وسیع تر میدان میں کھیلنے کی لگن کھوبیٹھا۔ ٹی وی صحافت کی نقالی میں مصروف ہوگیا۔ کوّے نے ہنس کی چال چلنا چاہی اور بات نہیں بن پائی۔ٹی وی Hypeکا محتاج ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے کا Hype قصور میں ایک بچی کے ساتھ ہوئی زیادتی تک محدود رہا۔ اس کے نتیجے میں بہت ساری اہم خبریں نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔
(نصرت جاوید، 16جنوری،2018ء)
کھویا ہوا ہنر
ایک زمانہ تھا جب چینی پاکستان آتے تھے اور ہماری ترقی پہ حیران ہوتے تھے۔ لی لان کنگ (Li Lan Qing) چین کے ایک نائب وزیراعظم رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب وہ جونیئر افسر کے طور پر ایک وفدکے ہمراہ کراچی کے دورے پر آئے تو آئی آئی چندریگر روڈ پہ حبیب بینک بلڈنگ کو دیکھ کر چینی وفد حیران رہ گیا کہ پاکستان اتنی بلند عمارتیں بنا سکتا ہے۔ کراچی بندرگاہ دیکھی تو اس کے نظارے اور ایڈمنسٹریشن سے بھی حیران ہوئے اور یہ کہتے سنے گئے کہ کاش شنگھائی کراچی جیسا ہوسکے۔ اُنہیں ایک بریفنگ دی گئی اور وہ اکنامک افیئرز ڈویژن کے افسر راحت العین کی گفتگو سے اتنے متاثر ہوئے کہ جب واپس بیجنگ میں پاکستان کے دورے کے بارے میں انہوں نے تفصیلی رپورٹ پیش کی تو چینی حکومت نے اُسی راحت العین کو بیجنگ آنے کی دعوت دی۔ وہ جب چین گئے تو چینی حکومت کے سینئر ترین عہدیداروں نے اُن کی باتیں سنیں۔ یہ تب کی بات ہے، اور اب ہم پتا نہیں کہاں پہنچے ہوئے ہیں۔
اب ہمارا وقت چینیوں سے سیکھنے کا ہے۔ لیکن ہم تب ہی کچھ سیکھ سکتے ہیں جب شعبدہ بازی اور فنکاری کو ایک طرف رکھیں۔ دیانت داری سے کام کرنے کا کھویا ہوا ہنر پھر سے ڈھونڈ نکالیں۔
(کالم، ایاز میر، دنیا، 17جنوری 2108ء)