محمد شمیم اختر قاسمی
باب الاسلام سندھ میں دولتِ ہباریہ منصورہ سندھ 247ھ تا416ھ (861ء…20125ء) تقریباً 170سال تک رہی۔ اس خودمختار ریاست کے حکمرانوں نے اپنے اپنے عہد میں اشاعتِ تعلیم پر بڑی توجہ دی۔ وہ بڑے بڑے نامی گرامی علماء کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ اس طرح یہاں کے علمی مزاج میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔ چنانچہ سندھ میں علمی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:
’’چوتھی صدی ہجری میں پورا عالم اسلام علمی و دینی نشاط سے معمور تھا۔ مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کے بلاد و امصار اور شہر و قریات اسلامی علوم و فنون اور دینی رجال و شخصیات کے گہوارے تھے، جن میں اسلامی ثقافت پرورش پارہی تھی۔ یہی پُربہار زمانہ سندھ میں ہباریوں کی حکومت کا دور تھا، اور بغداد و بصرہ کی طرح سندھ و منصورہ اور دیبل وغیرہ بھی اسلامی علوم و فنون کے مرکز تھے۔ جگہ جگہ دینی علوم و فنون کی بساط بچھی ہوئی تھی۔ گھر گھر دارالعلم بنا ہوا تھا اور ایک ایک بستی میں سینکڑوں علماء و فضلاء رہتے تھے۔ اس دور میں سندھ میں اسلامی زندگی اپنے پورے شباب پر تھی۔ ہباری حکمراں بڑے علم دوست اور اہلِ علم کے قدرداں تھے۔ انہوں نے دینی علوم و رجال کی سرپرستی کی۔ علمی خاندانوں سے ان کے تعلقات تھے اور اہلِ علم و فضل ان کے دربار سے وابستہ تھے۔ ان کا مسلک اگرچہ امام دائود ظاہری کا تھا اور وہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے تھے، مگر پورے سندھ میں فقہائِ احناف کی کثرت تھی۔ معتزلہ کی عقلیت پسندی سے نجات تھی۔ عام مسلمانوں کا دینی حال نہایت اچھا تھا۔ مذہبی تعصب، گروہ بندی اور جانب داری کا نام تک نہیں تھا، بلکہ ہر مسلک کے لوگ آزادی اور سکون سے اپنے مسلک پر عمل کرتے تھے۔ حُسنِ اخلاق، سیر چشمی اور انسانیت و مروت سندھ کے مسلمانوں کی امتیازی صفات تھیں۔ بڑے بڑے شہروں کی زبان عربی اور سندھی دونوں تھیں۔ بودوباش اور طرزِ زندگی مرکز عراق سے ملتا جلتا تھا اور ذہن و مزاج کے اعتبار سے وہ سچے مسلمان تھے۔ خاص طور سے بڑے بڑے شہروں میں اسلامی شان و شوکت کا غلبہ تھا۔ الور بہت بڑا شہر تھا اور وہاں مسلمانوں کی بہت زیادہ آبادی تھی۔ نیرون بھی خالص علمی شہر تھا۔ دیبل علماء و فضلاء کا مرکز تھا اور منصورہ تو گویا دارالاسلام والمسلمین بن کر بغداد کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ رسم و رواج عراق سے ملتے جلتے تھے، ساتھ ہی حُسنِ اخلاق اور شرافت میں بھی لوگ مشہور تھے۔‘‘
(مضمون: ’’عہدِ اموی و عباسی کے ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم‘‘۔ ترجمان دارالعلوم۔ اپریل تا جون 2017ء)
بیابہ مجلسِ اِقبال
صبح
اقبال نے خود فرمایا ہے کہ یہ دو شعر شیش محل بھوپال میں لکھے گئے، جہاں وہ نواب صاحب بھوپال کے مہمان کی حیثیت میں بغرضِ علاج ٹھیرے ہوئے تھے۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
1۔ ایک صبح وہ ہے جس سے آنے والی کل اور آج پیدا ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں، یہ صبح جو کبھی آج کی شکل اختیار کرتی ہے اور کبھی آنے والی کل کی، کہاں سے پیدا ہوتی ہے۔
2۔ وہ صبح جس سے وجود کا شبستان لرزتا ہے، جس سے زندگی کے اندھیرے میں اجالا ہوتا ہے، ایمان والے بندے کی اذان سے پیدا ہوتی ہے۔
مراد یہ ہے کہ ایک صبح اس کائنات کی ہے، جسے عرفِ عام میں صبح کہتے ہیں اور وہ سورج کے طلوع سے نمودار ہوتی ہے، اگرچہ اس کی اصلیت کے متعلق کسی کو صحیح علم نہیں۔ یہی صبح کائنات کے اندھیرے کو زائل کرکے ہر جگہ روشنی پھیلاتی ہے۔ دوسری صبح وہ ہے جس سے انسانی زندگی کے اندھیرے میں اجالا ہوتا ہے۔ اس صبح کا سرچشمہ مومن کی اذان ہے۔ یعنی جب مومن کی زبان سے کلمۂ حق بلند ہوتا ہے تو یہ صبح نمودار ہوجاتی ہے۔ افراد و اقوام میں اسی صبح زندگی کی تازہ روح دوڑ جاتی ہے جس طرح ہر صبح کائنات میں ایک حرکتِ عام پیدا کر دیتی ہے۔