فرائیڈے اسپیشل: یہ بتائیے کہ جنوب ایشیا میں افغانستان کے حالات اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے لیے مسلسل خطرات کے ماحول میں امریکی صدر کے ٹوئٹ نے اس خطے میں کن نئے خطرات کی بنیاد رکھ دی ہے؟
قوسین فیصل ملک: امریکی صدر ٹرمپ کے 2018ء کے پہلے ٹوئٹ سے یہ اندازہ تو اچھی طرح ہوگیا کہ اِس سال پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کیا رہے گی۔ امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال کی وجہ سے صدر ٹرمپ خاصے دباؤ میں ہیں۔ ان کے اُس فیصلے کا بھی منفی اثر ہوا ہے جو اُنہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس مُنتقل کرنے کے بارے میں کیا تھا، اِس مسئلے پر اُنہیں دنیا کے کسی ملک کی حمایت نہیں ملی، جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش ہونے سے پہلے اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نے بہت سے ملکوں کو خط لکھے کہ وہ اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ نہ دیں بصورتِ دیگر اُن کی امداد بند کردی جائے گی، لیکن اس کے باوجود 128 ملکوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، مخالفت میں صرف 9 ووٹ پڑے جن میں امریکہ اور اسرائیل کے سوا باقی ممالک وہ تھے جن کے نام بھی زیادہ معروف نہیں ہیں، اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے اس مسئلے پر امریکہ کی حمایت نہیں کی، دھمکی بھی کارگر نہیں ہوئی تو صدر ٹرمپ نے اِن خطوط پر سوچنا شروع کردیا کہ امریکہ سے امداد لینے والے ممالک بھی اس کی پالیسیوں کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟ چنانچہ اُنہیں وہ 33 ارب ڈالر یاد آگئے جو امریکہ نے پاکستان کو 15 سال کے عرصے میں دیئے، لیکن اُنہیں پاکستان کا وہ کردار یاد نہ رہا جو اس نے سوویت یونین کو افغانستان سے واپس بھیجنے میں ادا کیا۔ سوویت یونین کی فوجیں جب افغانستان میں ایک سرد رات کو داخل ہوئیں تو ساری مغربی دنیا پر لرزہ طاری تھا، اُن کے سامنے سوویت یونین کی کشور کشائی کی پوری تاریخ تھی، کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین جہاں بھی گیا وہاں سے کبھی واپس نہیں لوٹا۔ افغانستان میں روسی فوجوں کے قدم رکھتے ہی یہ حقیقت تسلیم کرلی گئی تھی کہ اب اگر روس آگے بڑھنا چاہے تو اُسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ لیکن اُس وقت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ روسی فوجوں کو نہ صرف آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا بلکہ ایسی حکمت عملی بھی اختیار کی جائے گی کہ روس کو واپس جانا پڑے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ ماضی ہے، ہمیں حال اور مستقبل کی بات کرنی ہے۔
قوسین فیصل ملک: ماضی کو سمجھے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پاکستان کے لیے امداد روکنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، امریکہ کے صدر کارٹر نے پاکستان کو جس امداد کی پیش کش کی تھی، صدر جنرل ضیاء الحق نے اسے ’’مونگ پھلی‘‘ کہہ کر مسترد کردیا تھا، اور اب بھی ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ آئو اور آڈٹ کرلو، اور حساب کتاب کرلیتے ہیں کہ اس خطے میں امن کے لیے پاکستان نے کیا کچھ کیا۔ اسلام آباد کے اس جواب کے بعد امریکہ کو چپ لگ گئی ہے۔ ماضی میں صدر کارٹر رخصت ہوگئے اور اُن کی جگہ صدر ریگن نے منصب سنبھالا، اگر روسی قیادت ایسا غلط فیصلہ نہ کرتی تو شاید سوویت یونین اب تک متحد رہتا اور امریکہ واحد سپر پاور بھی نہ بنتا۔ امریکہ نے جتنی بھی لڑائیاں لڑیں اپنی سرزمین سے باہر لڑیں، سب سے خوفناک جنگ ویت نام کی تھی جس میں 58 ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ ویت نام نے بے سروسامانی کے باوجود ایک سپر طاقت کا غرور خاک میں ملا دیا۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا اب بھی حالات ماضی سے ہی جڑے ہوئے ہیں؟
قوسین فیصل ملک: افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ ہی واحد سپر طاقت رہ گئی۔ اس کے تمام تر منفی اثرات پاکستان اور اس کے معاشرے پر پڑے۔ اب صدر ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں وہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن اُن قربانیوں کو بھول جاتے ہیں جو دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان نے دیں۔ اس جنگ میں پاکستانی فوجیوں اور شہریوں نے ستّر ہزار جانیں قربان کیں۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ ابھی رُکا نہیں ہے۔ کسی نہ کسی انداز میں ہمارے کڑیل جوان فوجی افسر شہید ہورہے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ جس انداز میں امریکی امداد کا ذکر کرنے لگے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ کو بے وقوف بناتا رہا، یہ بہت افسوس ناک ہے۔ امریکی امداد کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت کو 125 ارب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا، جانی نقصان کی قدر و قیمت کا تو کوئی شمار و قطار ہی نہیں۔ امریکہ کی حکومتیں اور سابق صدور ان قربانیوں کا اعتراف کرتے رہے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو جو اطلاعات دی جارہی ہیں اُن کی بنیاد پر وہ غلط رائے قائم کررہے ہیں اور اسی طرح ایسے فیصلے کررہے ہیں، جو بالآخر امریکہ کے خلاف جائیں گے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اونچ نیچ تو ہوتی رہتی ہے لیکن ماضی میں شاید ایسا وقت کبھی نہیں آیا جب بدگمانیوں کا سلسلہ اس حد تک دراز ہوگیا ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں جس کامیابی کی اُمید لگائے بیٹھے تھے اُس کا خواب چکناچور ہوچکا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے پورے عہد میں تعلقات ایسی ہی سردمہری کا شکار رہیں گے۔ تعلقات میں مزید خرابی تو ممکن ہے، بہتری کے کوئی آثار نہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس خطے کے اہم ملک ایران میں اچانک حالات خراب ہوئے اور کہا جارہا ہے کہ وہاں کوئی تبدیلی آرہی ہے؟
قوسین فیصل ملک: یہ بھی اہم موضوع ہے، اس پر بات ہونی چاہیے۔ ایران کے حالات کے بارے میں جن حلقوں نے یہ گمان کرلیا تھا کہ ایران میں سات روزہ مظاہروں کے بعد حکومت گھٹنے ٹیک دے گی اور 1979ء کے انقلاب کی طرح کا کوئی جوابی انقلاب آجائے گا، وہ غالباً ان نعروں سے متاثر ہوگئے تھے جو ایران کے بہت سے شہروں میں سپریم لیڈر آیت العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے خلاف لگ رہے تھے۔ پانچ دن تک تو حکومت مخالف نعروں کا زور رہا لیکن اب مخالفین کا زور ٹوٹ گیا اور حکومت کے حامیوں کے مظاہرے مخالفین پر حاوی ہوگئے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ حکومت موجودہ تحریک پر آسانی سے قابو نہیں پاسکے گی، کیونکہ یہ تحریک 2009ء کی اُس تحریک سے مختلف ہے جو ’’سبز تحریک‘‘ کے نام سے چلائی گئی تھی اور جو تہران اور ایک دو دوسرے شہروں تک محدود رہی تھی۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ تحریک ہے کیا؟
قوسین فیصل ملک: بنیادی طور پر ’’سبز تحریک‘‘ اُن رہنماؤں کی حمایت سے چلائی گئی تھی جو اُس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد کے مقابلے میں انتخاب ہار گئے تھے اور انہوں نے منتخب صدر پر انتخابی دھاندلی کا الزام لگایا تھا، تھوڑے بہت مظاہرے قم میں بھی ہوئے ہیں۔ لیکن جنہوں نے قم کے مظاہروں سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ حکومت کے خلاف بغاوت ہوگئی ہے، انہوں نے پوری تحریک کو اس کے درست پس منظر میں نہیں دیکھا۔
فرائیڈے اسپیشل: حقائق کیا ہیں؟
قوسین فیصل ملک: تحریک بنیادی طور پر تو مہنگائی، اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بے روزگاری کے خلاف شروع کی گئی ہے، حکومت نے بجٹ میں بعض غیر مقبول اقدامات کیے تھے جس کی وجہ سے پہلے سے بڑھی ہوئی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان پیدا ہوگیا تھا، اس لیے مظاہرے جلد ہی ملک بھر میں پھیل گئے اور ان میں لگائے جانے والے نعروں کا رخ سید علی خامنہ ای کی طرف مڑ گیا، حالانکہ سپریم لیڈر کی حیثیت آئین اور نظام کے محافظ کی ہے۔ حکومت کے روزمرہ امور کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایران میں صدر براہِ راست عام لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، البتہ ایک مجلسِ خبرگان ہے جو منتخب ادارہ ہے، جو ہر امیدوار کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتی ہے کہ وہ صدارتی منصب کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ جب بھی انتخاب کا وقت آتا ہے سوا سو، ڈیڑھ سو کے لگ بھگ امیدوار میدان میں ہوتے ہیں اور مجلسِ خبرگان کی چھلنی میں چھن کر زیادہ سے زیادہ چار پانچ امیدوار ہی مقابلے میں رہ جاتے ہیں، اور اُن میں سے بھی مقابلہ براہِ راست دو امیدواروں میں ہوتا ہے۔ اس طرح انتخاب ایک سنجیدہ عمل بنتا ہے۔ ایران میں ایک صدر زیادہ سے زیادہ دو مدت کے لیے منتخب ہوسکتا ہے۔ عام طور پر ہر صدر دوبار عہدے پر رہ کرسبکدوش ہوتا ہے۔ موجودہ صدر حسن روحانی کی دوسری مدت جاری ہے اور وہ ایک ایسے امیدوار کو شکست دے کر دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیں جسے سپریم لیڈر کی حمایت حاصل تھی۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ صدر سپریم لیڈر کے حمایت یافتہ امیدوار نہیں تھے، وجہ اس کی یہ تھی کہ ایران کا امریکہ اور پانچ دوسرے ملکوں کے ساتھ جو جوہری معاہدہ 2015ء میں ہوا تھا، حسن روحانی اس معاہدے کے حامی تھے، اور معاہدے کے بعد اُن کی حمایت میں ملک گیر مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ معاہدہ ایرانی عوام میں مقبول نہیں تھا؟
قوسین فیصل ملک: حکومت اور عام ایرانیوں کا خیال تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران پر پابندیاں ختم ہوں گی تو مہنگائی ختم ہوگی اور افراطِ زر قابو میں آ جائے گا جس نے ایرانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ البتہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا خیال تھا کہ ایران کو اس معاہدے کا فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ نیک نیتی سے معاہدہ نہیں کررہا۔ اب صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد اگرچہ یہ بات درست ثابت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، تاہم امرِ واقع تو یہی ہے کہ علی خامنہ ای کی مخالفت کے باوجود ایرانی حکومت نے معاہدے پر دستخط کردیئے تھے۔ اس کا صاف مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ آیت اللہ العظمیٰ کا اختیار ایک خاص حد سے زیادہ نہیں ہے، وہ معاہدے کی مخالفت ضرور کرتے رہے، اُن کی حمایت میں بھی مظاہرے ہوئے لیکن وہ حکومت کو معاہدے سے باز نہ رکھ سکے، اِس لیے سوال یہ ہے کہ اگر ایرانی عوام مہنگائی سے تنگ تھے اور وہ حسن روحانی کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے تو نعروں کا رخ علی خامنہ ای کی طرف کیوں تھا؟ مہنگائی اگر حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہورہی ہے تو پھر علی خامنہ ای کو نہیں، حسن روحانی کو ہٹانے کا مطالبہ ہونا چاہیے تھا، لیکن جن بیرونی عناصر نے ان مظاہروں سے یہ اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ اس کی وجہ سے علی خامنہ ای رخصت ہوجائیں گے یا ایرانی انقلاب کے جواب میں کوئی نیا انقلاب آجائے گا وہ ایران کے نظام سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ ایرانی انقلاب اتنا مستحکم ہوچکا ہے کہ چند روزہ مظاہروں کے جھٹکے اس کی مضبوط بنیادوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ حکومت نے مظاہرین کا کوئی مطالبہ نہیں مانا جو یہ چاہتے تھے کہ علی خامنہ ای رخصت ہوجائیں۔