پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد جامعہ کراچی کے’’شعبۂ نفسیات‘‘ کے مایہ ناز ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکالوجی‘‘ کے سربراہ ہیں۔ آپ کلینکل سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ ہیں اور گزشتہ 20 سال سے انتظامی امور کے علاوہ کلینکل سائیکالوجی کے شعبے میں محقق کی پیشہ ورانہ تربیت سے وابستہ ہیں۔نفسیات سے متعلق مختلف موضوعات پر آپ کے تحقیقی مقالے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شائع ہوچکے ہیں۔ ذہنی و نفسیاتی مسائل کی تشخیص اور اُن کے علاج پر آپ مہارت رکھتے ہیں۔
آپ پاکستان سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن(PAA) اور پاکستان کونسل آف کلینکل سائیکالوجی (PCCP) کے رکن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ سائیکالوجی سے متعلق مختلف بین الاقوامی اداروں سے بھی منسلک ہیں۔
ڈاکٹر ریاض پاکستان جرنل آف سائیکالوجی اور پاکستان جرنل آف کلینکل سائیکالوجی کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ کئی پی ایچ ڈی اورایم فل اسکالر کے نگران رہے ہیںجو کلینکل سائیکالوجی کے شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ریاض سے ذہنی امراض اور سماجی مسائل سمیت کئی اہم موضوعات پر مفصل گفتگو کی گئی، جو قارئین فرائیڈے اسپیشل کی نذرہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ ہمارے یہاں ذہنی صحت زوال پذیر ہے، اعصابی تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر شخص کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ معاشرے میں ذہنی صحت سے متعلق منفی رجحانات، بیماریوں، ذہنی پریشانیوں، پریشان خیالی اور نسبتاً کم صحت مند رجحانات کی بڑی وجہ خواہشات کا بڑھ جانا اور تعیشاتِ زندگی کے حصول میں مقابلے کے رجحان نے خصوصاً ان حالات میں جب وسائل محدود ہوں، لوگوں میں بے اطمینانی اور تناؤ کو جنم دیا ہے۔ آپس کے تعلقات میں کھنچاؤ اور لاتعلقی در آنے سے افراد میں تنہائی کا احساس بڑھ گیا ہے۔ خوشی کے مواقع اور معاشرتی اور سماجی سپورٹ کی کمی بڑی حد تک انسان کو بے چین اور خوفزدہ کردیتی ہے۔ یہی عوامل جب حد سے بڑھ جائیں تو ذہنی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانی نظام، والدین کے متضاد رویّے، اساتذہ کی اپنے شاگردوں کے بارے میں عدم دلچسپی، غیر منصفانہ نظام اور معاشی تفریق بھی ذہنی پسماندگی کے اسباب ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ ڈاکٹر صاحب اسی پس منظر میں میرا ایک اور سوال ہے کہ ہمارے معاشرے میں ماضی کے مقابلے میں عدم برداشت اور تشدد کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے، آپ کے خیال میں اس کا سدباب کس طرح ممکن ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ روزمرہ کی فرسٹریشنز جن کا کوئی مثبت نکاس نہ ہو، عدم برداشت کو جنم دیتی ہیں۔ عموماً تشدد اس کا انتہائی نتیجہ ہوتا ہے۔ اپنی ذات پر حد سے بڑھا ہوا ارتکاز، اور صرف اپنے بارے میں سوچنا بھی انسان کو عدم برداشت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کا سدباب لوگوں میں مثبت سوچ اور باہمی تعلق کو پروان چڑھا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں جن میں صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینا، جیسا کہ کھیل اور دوسری صحت مند سرگرمیاں، دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے کی بچپن سے عادت ڈالنا، اور بچپن سے ہی تربیت میں جسمانی تشدد یا جھگڑے کی حوصلہ شکنی شامل ہے۔ اچھی اور مثبت مصروفیات انسانی ذہن سے اضطراب اور غصے کی شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ وہم کا علاج تو کہا جاتا ہے کہ لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا، لیکن ہر دوسرا شخص اس بیماری کا شکار ہے، آخر یہ کیوں ہوتا ہے اور اس کا واقعی کوئی علاج نہیں ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ معاشرے میں تواتر کے ساتھ استعمال ہونے والی اس طرح کے اقوال دراصل ان رویوں کے بارے میں ہوتے ہیں جو عام افراد کے بارے میں وضع کیے جاتے ہیں۔ ذہنی امراض سے نبردآزما افراد میں وہم دراصل کچھ خاص ذہنی امراض کا شاخسانہ ہوتا ہے جس کی شدت عام افراد میں پائے جانے والے وہم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسا وہم جو اتنی شدت سے ہو اور جس پر مریض کو مکمل یقین ہو باوجود اس کے مخالف دستیاب ثبوتوں کے، یہ ذہنی امراض کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا علاج یقینا موجود ہے اگرچہ کہ کافی وقت طلب اور محنت طلب ہے۔ دوا کے ساتھ ساتھ سائیکو تھراپی اور کونسلنگ کا استعمال اس میں بہتری لاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ انسان کو غصّہ کیو ں آتا ہے اور یہ کب ایک بیماری کی صورت اختیار کرلیتا ہے؟ اس سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ غصہ آنا فطری عمل ہے۔ یہ ایک انسانی جذبہ ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ غصہ آنے کے اظہار کا ’’طریقہ‘‘ اس کو صحیح اور غلط بناتا ہے۔ جب غصے کو دبایا جاتا ہے یا اسے غیر حقیقی انداز میں برتا جاتا ہے تو انسان مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔ اگر افراد کو یہ سکھادیا جائے کہ غصے کا مثبت انداز میں کیسے اظہار کیا جاسکتا ہے اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے کس طرح اپنا نکتہ نظر دوسرے فرد تک پہنچایا جاسکتا ہے تو فرد اپنے اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنتا۔ بنیادی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں میں Assertive Communication Skillsکی کمی کے باعث غصے کا اظہار ایک منفی رُخ اختیار کرجاتا ہے۔ خود پسندی اور اپنی رائے ہی کو صحیح سمجھنا بھی غصے کے اسباب ہوسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ کیا یکسوئی کا نہ ہونا بھی کوئی ذہنی مرض ہے؟ زندگی میں یکسوئی کس طرح پیدا ہوسکتی ہے ؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ یکسوئی کا نہ ہونا بجائے خودکوئی ذہنی مرض نہیں، مگر یہ مختلف ذہنی امراض یا پریشانیوں کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ اکثر ڈپریشن میں مبتلا مریض یکسوئی سے متعلق مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ یکسوئی ایک صحت مند معمولِ زندگی اور بامقصد زندگی کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اگر آپ کو کوئی کام پسند ہے یا بالفرض آپ اپنی پسندیدہ کتاب پڑھ رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ اس میں کتنا مگن اور یکسو ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کی زندگی کا ایک مقصد ہو جو آپ کی پسند کے مطابق ہو تو یکسوئی کے ساتھ کام کرنا ممکن ہے۔ یعنی عدم دلچسپی، ناکامی کا خوف اور احساسِ کمتری جیسے مسائل یکسوئی میں کمی کا باعث ہوسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ یہ بات عموماً دیکھنے میں آتی ہے کہ پہلوٹھی کے بچے سے والدین ترجیحی برتاؤ کرتے ہیں۔ جب والدین کی طرف سے بڑے بچے کو ترجیح ملتی ہے تو اس کا اثر گھر کے چھوٹے بچوں کی خود اعتمادی پر پڑتا ہے؟ یا اس کے کیا مثبت اور منفی اثرات آپ دیکھتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ پہلا بچہ نہ صرف والدین کی طرف سے ترجیحی سلوک لیتا ہے بلکہ والدین جو ابتدا میں اتنے تجربہ کار نہیں ہوتے، بچے کی تربیت میں بعض اوقات زیادہ سختی یا زیادہ پریشانی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ہر گھر میں بچوں کی پیدائش کی ترتیب یقینا بچوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے، مگر اس کے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو ہوتے ہیں۔ گھر میں چھوٹے بچے اگر کسی لحاظ سے کم ترجیح محسوس کرتے ہیں تو ساتھ ہی بڑے بچے کے مقابلے میں ملنے والی نسبتاً زیادہ آزادی سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ ہر وہ بچہ جسے اپنی جگہ بنانے کے لیے تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے نسبتاً زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ آپ آج کے بچوں میںکس قسم کی ذہنی یا نفسیاتی بیماریاں دیکھ رہے ہیں اور اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم ایک بچے کو کب کہتے ہیں کہ وہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہے یا ہورہا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔آج کل بچوں میں نفسیاتی پریشانیاں نظر آرہی ہیں مثلاً بڑھتی ہوئی بے چینی اور بڑوں کے خلاف ضد اور بڑھتا ہوا غصہ۔ جب آپ دیکھیں کہ ایک بچہ عموماً تنہا رہنا پسند کرتا ہے، صحت مندانہ مصروفیات میں حصہ نہیں لیتا، چڑچڑاپن ظاہر کرتا ہے اور اس کی تعلیمی اور کھیل کی دلچسپی پہلے سے کم ہورہی ہے تو آپ کو اس کے علاج پر توجہ دینی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ علاج سے آپ کی کیا مراد ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ میں بحیثیت ماہرِ نفسیات والدین کو یہاں یہ پیغام دینا اپنی اہم ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ ’’علاج‘‘ کے لیے ہمیشہ ایک ماہر اور مستند ’’کلینکل سائیکالوجسٹ‘‘ سے رجوع کریں جس نے اس شعبے میں ماسٹر کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کم از کم ایک سال ’’ذہنی و جذباتی مسائل کی تشخیص اور طریقہ علاج‘‘ کی خصوصی تربیت ایک ماہر Ph.D, Consultant Clinical Psychologistکی زیر نگرانی کی ہو اور کسی مستند ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہو۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ ذہنی و جذباتی مسائل کی بروقت تشخیص اور صحیح پیمانے پر اس کی جانچ ہی ایک بہتر ’’علاج‘‘ کی ضمانت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی Active Monitoring باڈی نہ ہونے کے باعث اس شعبے میں مخصوص ٹریننگ نہ ہونے کے باوجود کچھ لوگ بآسانی اپنے آپ پر ’’ماہر نفسیات‘‘ کا لیبل لگا کر اس شعبے سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ اور خصوصی تجربہ نہ ہونے کے باعث بہتر انداز اور درست پیمانوں پر علاج مہیا کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتے۔گو کہ ذہنی و جذباتی مسائل کے حل کے لیے سائیکوتھراپی/کاؤنسلنگ کے علاوہ ضرورتاً ادویات کا استعمال بھی کارگر ہوتا ہے، لیکن پندرہ سال یا اس سے کم عمر بچوں کے جذباتی رویوں اور ذہنی مسائل کے حل کے لیے ادویات سے زیادہ سائیکوتھراپی اور متبادل طریقۂ علاج زیادہ سودمند ثابت ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں “Parenting Counseling” انتہائی اہمیت کی حامل ہے جہاں بچوں کے مسائل سے نبردآزما ہونے کے درست طریقے اور ان کے مناسب حل کے لیے والدین کو مخصوص ٹریننگ دی جاتی ہے جس کے تحت وہ اپنی مدد آپ کے تحت بچوں اور خصوصاً نوجوانوں کو بروقت اور صحیح انداز میں سپورٹ فراہم کرسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ بعض بچے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں، ان کے زیادہ جذباتی رویّے کو کس طرح جانچا جاسکتا ہے کہ پیچیدہ ذہنی مرض نہ بن جائے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ بچوں کے جذباتی مسائل زیادہ تر والدین کے آپس کے تعلقات اور بچوں سے متعلق رویوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ بچے کے زیادہ جذباتی پن یا ٹھیراؤ کی کمی بھی اس کے خاندان سے متعلقہ بزرگ یا افراد یا اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کی اپنی جذباتی کیفیات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بہرحال اگر بچہ اپنے معمول کے رویّے سے کچھ ہٹ کر رویہ اپنا رہا ہے تو بہتر ہے کہ اُس سے اس سلسلے میں بات چیت کی جائے اور گھر کے ماحول کو پُرسکون بنانے کی کوشش کی جائے۔ بچوں اور والدین میں بڑھتے ہوئے فاصلے یا خوف کی فضا کی وجہ سے بچے بعض اوقات اپنے مسائل بڑوں کو بتا نہیں پاتے۔ بات چیت کی فضا اور بچوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ان میں اعتماد پیدا ہوتا ہے، اور آپ بروقت ان کی مدد کرسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ موبائل فون کے کثرتِ استعمال کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا یہ انسان کی ذہنی صحت کے لیے کسی خطرے کی علامت ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ موبائل فون کا کثرت سے استعمال چھوٹے اور بڑھتے ہوئے بچوں کی ذہنی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس سے ان کی ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ بڑوں کے لیے بھی صحت کے مختلف مسائل اس کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ ذہنی صحت کے لحاظ سے موبائل فون کا استعمال اگر زیادہ ہو تو یہ فرد کے تنہائی کا شکار ہونے، اپنے آس پاس کے لوگوں سے کٹ جانے، باہمی ربط و ضبط میں خرابی اور بڑھتی ہوئی بے چینی کا باعث ہوسکتا ہے۔ خصوصاً موبائل فون پر سماجی میڈیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی لمحۂ فکریہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ ۔کہا جاتا ہے کہ شاعری اور دماغ کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ کیا سائنس دانوں، شاعروں، ادیبوں یا دوسرے تخلیق کاروں کی دماغی صلاحیتیں دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد:۔ دنیا میں ہر شعبے میں دماغی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ چاہے کوئی سائنس دان ہو، شاعر ہو یا ادیب یا کوئی حساب دان… ہر شعبے کے لیے کچھ خاص قسم کی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اکثر لوگ اپنی خاص صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف شعبوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلاً کسی بچے میں اگر موسیقی سے متعلق غیر معمولی صلاحیتیں ہیں تو شاید اسے حساب سمجھنے میں دشواری ہو، اسی طرح کوئی بچہ سائنس میں اچھا ہو تو ضروری نہیں کہ ادب بھی اس کو بہت اچھی طرح سمجھ میں آتا ہو۔ غرض یہ کہ متفرق صلاحیتیں بہرحال دماغ سے تعلق رکھتی ہیں، وہ کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں۔ اگر زیادہ ہوں اور محنت بھی ہو تو فرد اپنے منتخب کردہ شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، ورنہ اوسط درجے پر رہتا ہے۔