ائیرمارشل اصغر خان عسکری اور سیاسی تاریخ کا اہم کردار

’’فاشسٹ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دیں گے‘‘۔ اس جرأت مندانہ نعرے سے شہرت پانے والے ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان بھی 5 جنوری 2018ء کو راہیٔ ملکِ عدم ہوگئے۔ موت کے وقت ان کی عمر 97 سال تھی، اور ان کی 98 ویں سالگرہ میں صرف 12 دن باقی تھے جب انہوں نے راولپنڈی کے فوجی اسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں پوری کیں۔ وہ اس ملک کی سب سے بڑی عوامی تحریک ’’تحریکِ نظامِ مصطفی‘‘ کے قائدین میں شامل تھے اور پاکستان قومی اتحاد کے 9ستاروں میں سب سے نمایاں اور درخشندہ ستارہ تھے۔ بہت سے لوگ انہیں ہی پی این اے کا ستارہ گردانتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ 1977ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی شخصی آمریت کے خلاف بننے والے ملک گیر سیاسی اتحاد ’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے ساتویں ستارے ہیں جو اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں۔ اس وقت نو میں سے صرف دو ستارے سردار شیربازخان مزاری اور سردار سکندر حیات بقیدِ حیات ہیں، جبکہ خود ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے تمام ساتھی بھی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔
’’رہے نام اللہ کا‘‘
ایئرمارشل اصغر خان پاکستان کی عسکری اور سیاسی تاریخ کا ایک لازمی کردار ہیں۔ وہ پاک فضائیہ کے پہلے پاکستانی سربراہ، دنیا کے کم عمر ترین پائلٹ، ملک کے پہلے ایئر مارشل، پاکستان جسٹس پارٹی کے سربراہ اور تحریک استقلال جیسی بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین رہے۔ وہ ایک جرأت مند، بااصول اور صاف ستھرے انسان، ضوابط کے پابند سپاہی اور آمریتوں سے ٹکرا جانے والے اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے والے سیاست دان تھے۔ ان کی ذاتی اور شخصی خوبیوں کا شمار ممکن نہیں۔ ان کی سیاسی کامیابیوں کی بھی ایک طویل قطار ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فضائیہ جیسے نظم و ضبط کے پابند ادارے اور سیاست کے بے رحم خارزار دونوں میں وہ زیادہ تر متنازع رہے۔ سیاست کے میدان میں ان کی ناکامیاں زیادہ ہیں، لیکن کامیابیاں بھی کم ہونے کے باوجود بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ محنت ان کی گھٹی میں شامل تھی اور حوصلہ پیدائش سے موت تک اُن کے توانا کندھے کے ساتھ جڑا رہا۔
17 جنوری 1921ء کو جموں میں پیدا ہونے والے اصغر خان کا خاندان درخشاں فوجی روایات کا حامل خاندان سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اصغر خان نے 1936ء میں رائل انڈین ملٹری کالج دہرہ دون میں داخلہ لیا۔ 1940ء میں یہاں سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد وہ نویں رائل دکن ہائوس میں کمیشن آفیسر مقرر ہوگئے۔ 1941ء میں انڈین ایئرفورس میں چلے گئے اور انبالہ اور سکندر آباد میں ہوابازی کی تربیت حاصل کی۔ 1944ء میں بطور فلائٹ لیفٹیننٹ انہوں نے جنگِ برما میں حصہ لیا جہاں انہیں جاپانی فوجی ٹھکانوں پر ہوائی حملوں کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ وہ رائل انڈین ایئر فورس کے پہلے پائلٹ تھے جس نے سانگھڑ کے علاقے گوٹھ جام نواز علی پر پرواز کرتے ہوئے حر پناہ گزینوں کے نہتے قافلے پر بمباری نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نہتے لوگ ہیں دہشت گرد نہیں۔ تاہم اس حکم عدولی پر انہیں اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا سامنا کرنا پڑا۔ 1947ء میں وہ فلائنگ ٹریننگ اسکول انبالہ کے چیف فلائنگ انسٹرکٹر تھے جب انہوں نے نئی مملکت پاکستان کی ایئرفورس کے لیے آپٹ کیا۔ انہیں پاکستان ایئر فورس اکیڈمی کا بانی کمانڈنٹ مقرر کیا گیا۔ مئی 2017ء میں اس اکیڈمی کا نام اُن کے نام پر رکھ دیا گیا۔ وہ ایئر اسٹاف کالج اور کالج آف ایرو ناٹیکل انجینئرز کے بھی بانی تھے۔ وہ صرف 36 سال کی عمر میں وائس ایئر مارشل اور37 سال کی عمر میں ایئر مارشل ہوگئے۔
وہ ملک کے عسکری اور سیاسی حلقوں میں پہلی بار اُس وقت متنازع ہوئے جب انہوں نے اپریل 1965ء میں بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو فون کیا اور دونوں ممالک کی ایئرفورسز کو رن آف کچھ کے تنازعے سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے اس اقدام سے پاک فضائیہ کے مورال پر منفی اثرات پڑے، اور جولائی 1965ء میں آنے والے نئے ایئر چیف ایئر وائس مارشل نورخان نے نہ صرف اس پر شدید تنقید کی بلکہ فوری طور پر فضائیہ کو الرٹ پر ڈال کر کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں پروازیں شروع کردیں۔ اپنی فوجی سروس کے دوران انہیں ہلالِ قائداعظم اور ہلالِ پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا، مگر اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران انہوں نے یہ دونوں اعزازات واپس کردیے۔
1965ء میں پاک فضائیہ کی سربراہی سے سبکدوشی کے بعد صدر ایوب خان نے انہیں قومی ایئرلائن پی آئی اے کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کردیا۔ اس دوران وہ سینٹو کے فوجی مشیر بھی رہے۔ 1965ء سے 1968ء تک کا اُن کا تین سالہ دور پی آئی اے کا سنہری دور کہلاتا ہے۔
اصغر خان 1965ء کی جنگ کو پاکستان کی عظیم الشان فتح نہیں مانتے تھے۔ وہ شاید پہلے سیاست دان اور فوجی تھے جنہوں نے کہا کہ ہم نے یہ جنگ نہیں جیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور عزیز احمد کے ٹولے نے ہمیں اس جنگ کے تالاب میں دھکا دیا۔ ان کے اس مؤقف پر خاصی تنقید بھی ہوئی لیکن انہوں نے اس کی پروا کیے بغیر 2011ء میں ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا کہ 1948ء کی جنگِ کشمیر سے 1999ء کی کارگل لڑائی تک ماسوائے 1971ء کی جنگ کے، جتنی بھی پاک بھارت جنگیں ہوئیں ان سب میں پہل پاکستان کی طرف سے ہوئی۔
1968ء میں جب ایئر مارشل اصغر خان پی آئی اے کی سربراہی سے سبکدوش ہوئے، ملک میں ایوبی آمریت کے خلاف تحریک شروع ہوچکی تھی۔ طلبہ، وکلا اور مزدور اس تحریک کا ہراول دستہ تھے، اور سیاسی جماعتیں ان کی پشتی بان۔ 1969ء میں جب تحریک اپنے عروج پر تھی دو شخصیات نے سیاست میں آنے اور حکومت مخالف تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کیا، جس کی پورے ملک میں بڑے پیمانے پر پذیرائی ہوئی۔ یہ دو شخصیات مشرقی پاکستان کے جسٹس مرشد، اور مغربی پاکستان کے ایئر مارشل اصغر خان تھے۔ اصغر خان کی آمد سے تحریک میں نئی جان پڑگئی۔ اس دوران انہیں مختلف جماعتوں میں شمولیت کی پیشکش بھی ہوئی، مگر انہوں نے اپنی جماعت ’پاکستان جسٹس پارٹی‘ قائم کرلی۔ مارچ 1969ء میں ایوب خان کے اقتدار سے علیحدہ ہونے پر ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ نئے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل یحییٰ خان نے پہلے نومبر اور پھر دسمبر 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کا اعلان کیا تو ملک بھر میں سیاسی و انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا۔ اصغر خان ابھی سیاست میں نووارد تھے۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو بڑی سیاسی قوت بن کر ابھر رہے تھے۔ ایسے میں نواب زادہ نصراللہ خان کے ذہنِ رسا نے اصغر خان کو چار سیاسی جماعتوں کے انضمام میں شامل ہونے پر رضامند کرلیا۔ چنانچہ نواب زادہ نصراللہ خان کی 8 نکاتی عوامی لیگ، مولوی فرید کی نظام اسلام پارٹی، نورالامین کا قومی جمہوری محاذ اور اصغر خان کی جسٹس پارٹی کے انضمام سے پاکستان جمہوری پارٹی (پی ڈی پی) وجود میں آگئی۔ نئی جماعت کا صدر نورالامین اور سیکریٹری ایک غیر معروف سیاست دان نسیم حسن ایڈووکیٹ کو بنادیا گیا۔ مغربی پاکستان کی صدارت نواب زادہ نصراللہ خان نے سنبھال لی، اور مرکزی نائب صدر کا غیر اہم عہدہ اصغر خان کو دے دیا گیا، حالانکہ اُس وقت سب سے پُرکشش سیاسی شخصیت، بھٹو کے بعد اصغر خان کی تھی۔ واقف کاروں کا کہنا ہے کہ اصغر خان کی عوامی پذیرائی، جرأت اورصلاحیت کو دیکھتے ہوئے یہ اہتمام محترم نواب زادہ نصراللہ خان نے انتہائی خوبصورتی سے کیا تھا۔ اصغر خان نے چند ماہ اس پارٹی میں گزارے اور پھر مایوس ہوکر سیاست ہی سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کردیا۔ لیکن دسمبر 1970ء کے انتخابات سے قبل ایک بار پھر متحرک ہوگئے اور راولپنڈی کے شہری حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتر آئے۔ یہ انتخاب وہ پیپلزپارٹی کے خورشید حسن میر سے ہار گئے، مگر آزاد سیاست دان کی حیثیت سے متحرک رہے۔ جلد ہی انہوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت ’تحریک استقلال‘ قائم کرلی۔ نئی جماعت کے اعلان کے لیے بلائی گئی پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ نواب زادہ نصراللہ خان زیرک سیاست دان ہیں، انہوں نے آپ کو پی ڈی پی میں چلنے نہیں دیا، وہ اب بھی آپ کو چلنے نہیں دیں گے، آپ نے اس کا کیا بندوبست کیا ہے؟ جس پر اصغر خان نے کہا کہ نواب زادہ کی سیاست کیا ہے! 70 فیصد اشعار، 20 فیصد سازشیں اور 10 فیصد حقہ۔ نواب زادہ کو یہ طنز بہت کھلا، چنانچہ انہوں نے اگلے ہی دن ایک تقریب میں اس کا جواب اس طرح دیا کہ ہمارے ایک دوست نے جن کے مزاج میں استقلال نام کی کوئی شے نہیں ہے، تحریک استقلال نام کی ایک پارٹی بنائی ہے۔ اُن کی مثال دلّی کی گوہر نامی اُس طوائف کی ہے جس نے اکبر الٰہ آبادی سے اپنے بارے میں ایک شعر کہنے کی درخواست کی تو حضرت اکبر الٰہ آبادی نے فی البدیہہ یہ شعر کہا ؎
کون خوش بخت ہے اس شہر میں گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
یہ شعر پڑھ کر نواب زادہ نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ جناب ہمارے اس دوست کو بھی اللہ نے استقلال کے سوا ہر چیز دے رکھی ہے۔
انتخابات میں ناکامی:
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے بعد اصغر خان نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور ملک بچانے کے لیے بعض تجاویز دیں۔ 16 دسمبر کو ملک دولخت ہوا تو اصغر خان واحد سیاست دان تھے جنہوں نے کہا کہ پاکستان توڑنے کے ذمے دار ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ جو اُس وقت نائب صدر اور وزیر خارجہ تھے، اور جلد ہی بچے کھچے پاکستان کا مکمل اقتدار اُن کے ہاتھ میں آنے والا تھا۔ شاید اسی طرح کے بیانات سے مشتعل ہوکر بھٹو صاحب نے انہیں ’’آلو خان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کیا۔ 1970ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی تھی لیکن شاید یہ واحد نظیر ہو کہ 1970ء کی اسمبلی میں ان کی پارٹی کو دو نشستیں مل گئی تھیں۔ بھٹو دور کے وزیر خارجہ محمود علی قصوری اور بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی احمد رضا قصوری نے یکے بعد دیگرے پارٹی سے بغاوت کی تو ان دونوں افراد نے تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کرلی۔ پورے بھٹو دور میں اصغر خان اسمبلی میں نہ ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کی توانا آواز رہے، چنانچہ ایک وقت آیا جب محمود علی قصوری، احمد رضا قصوری، مشیر احمد پیش امام، عابدہ حسین، سید فخر امام، جاوید ہاشمی، اکبر بگٹی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، آصف وردگ، چودھری اعتزاز احسن، خورشید قصوری اور ان جیسے درجنوں سیاستدان تحریک استقلال میں تھے۔ اصغر خان کے بقول نوازشریف بھی تحریک استقلال کے ٹکٹ کے لیے ان کے پاس آئے تھے۔ پورے بھٹو دور میں شاید وہ اپوزیشن کے سب سے ٹاورنگ لیڈر تھے۔ 1977ء کے انتخابات میں پی این اے کے ٹکٹ پر وہ کراچی سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ اپنی انتخابی مہم کے لیے کراچی پہنچے تو کراچی کی سڑکیں عوام سے بھر گئیں۔ ان کا استقبالی جلوس کراچی ائیرپورڈ سے برنس روڈ 9 گھنٹے بعد پہنچ سکا جو ان کے حلقۂ انتخاب میں واقع تھا۔ ان کی یہ مقبولیت حکومتِ وقت کے ساتھ ساتھ کئی اپوزیشن رہنمائوں کے لیے پریشانی کا باعث تھی۔ ان انتخابات میں حکمران جماعت کی کھلی اور منظم دھاندلی کے خلاف پی این اے نے احتجاجی تحریک شروع کی تو اس تحریک کے سب سے نمایاں اور مقبول لیڈر اصغر خان ہی تھے۔ اُس وقت یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اگر دوبارہ انتخابات کے نتیجے میں پی این اے جیت گئی تو اصغر خان لازمی طور وزیراعظم ہوں گے۔ لیکن شاید پارلیمنٹ کا دروازہ عبور کرنا ان کی قسمت میں نہیں لکھا تھا۔ وہ کراچی سے کامیاب ہوگئے لیکن انہوں نے پی این اے کے دیگر 37 منتخب ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف لینے سے انکار کردیا۔ تحریک نظام مصطفی کے دوران جب ملک کے چار شہروں میں جزوی مارشل لا لگادیاگیا اور اطلاعات کے مطابق فوج کو مظاہرین پر گولیاں چلانے کی ہدایت کی گئی تو فوج کے تین بریگیڈیئرز نے یہ کام کرنے کے بجائے استعفے دے دیے۔ کہا جاتا ہے کہ ان تینوں افراد کو استعفوں کے لیے اصغر خان نے ہی تیار کیا تھا۔
5جولائی1977ء کو بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا تو اصغر خان سمیت پی این اے کی پوری قیادت نے سُکھ کا سانس لیا۔ عوام نے حلوے کی دیگیں بانٹیں۔ کچھ عرصے بعد صدر جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر پی این اے کی قیادت نے اپنے وزرا وفاقی کابینہ میں بھیجے تو اصغر خان اور مولاناشاہ احمد نورانی نے اس سے معذرت کرلی۔ اس عرصے میں اصغر خان نے افغانستان اور ایران کے دورے کیے۔ افغانستان وہ وہاں کی حکمران قیادت کو یہ سمجھانے کے لیے گئے تھے کہ روس کے ساتھ جھگڑے سے گریز کیا جائے۔ لیکن دورۂ ایران کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ اُس وقت شاہ ایران رضا شاہ پہلوی اس خطے میں امریکی مفادات کے محافظ تھے، اس لیے اصغر خان پاکستان میں اپنے لیے اُن سے کلیئرنس یا سفارش لینے گئے تھے۔
1981ء میں ضیاء حکومت کے خلاف ایم آرڈی بنی تو اصغر خان کی پارٹی اس اتحاد میں شامل ہوگئی۔ اسے ان کی زندگی کا سب سے بڑا یوٹرن کہا جاتا ہے کہ جس بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے لیے وہ تن من دھن سے لگے ہوئے تھے اسی بھٹو کی بیٹی کے ساتھ مل کر اس پارٹی کی اقتدار میں واپسی کے لیے سرگرم ہوگئے۔ 1988ء میں بے نظیر بھٹو نے ایم آر ڈی کو انتخابی اتحاد میں بدلنے سے انکار کرکے ساری ایم آر ڈی کو مایوس کیا۔ اصغر خان دوسری جماعتوں کی طرح ان انتخابات میں اپنی پارٹی کے لیے کوئی نشست نہ جیت سکے، لیکن
1990ء میں جب سیاسی فضا بے نظیر کے خلاف ہوچکی تھی، بے نظیر نے انہیں دو نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی پیشکش کی۔ لاہورکی نشست پر اصغر خان اور ایبٹ آباد پر ان کے بیٹے عمر اصغر خان کھڑے ہوئے اور توقع کے مطابق ناکام رہے۔ اس دوران اُن کی پارٹی بھی بکھرتی چلی گئی۔ اس عرصے میں ان کے بیٹے عمر اصغر خان کو پنجاب یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے مشاہد حسین سید کی طرح اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کردیے اور این جی او سیکٹر میں جائے پناہ تلاش کرلی۔ چنانچہ پرویز مشرف نے اپنی کابینہ میں انہیں بلدیاتی و دیہی ترقی کا وفاقی وزیر بنادیا۔ بطور وزیر ہی وہ کراچی میں اپنے سسرالی گھر میں مُردہ پائے گئے۔ اصغر خان کو جوان اور ذہین بیٹے کی موت نے اندر سے توڑ دیا لیکن وہ حوصلے سے کھڑے رہے۔ اس دوران وہ مہران بینک اسکینڈل کو لے کر سپریم کورٹ میں چلے گئے۔ اس کیس کے فیصلے نے بہت سے سیاسی لوگوں کے چہروں سے نقاب الٹ دیے۔ اس کام کا سہرا اصغر خان ہی کے سر بندھتا ہے۔ چند سال قبل وہ حالات سے اس قدر مایوس ہوئے کہ انہوں نے اپنی پوری جماعت تحریک استقلال تحریک انصاف میں ضم کردی۔ اس فیصلے کو ان کے بعض جانثاروں نے قبول نہیں کیا اور سید منظور حسین گیلانی کی قیادت میں تحریک استقلال کو نام کی حد تک بحال رکھا۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف نے اصغر خان کے نام اور صلاحیت کو استعمال نہیں کیا۔ اس جماعت میں ایک عام کارکن سے زیادہ اُن کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اُن کی موت پر پارٹی نے اس گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا جس کے وہ ہر طرح مستحق تھے۔ البتہ ان کے بنیادی ادارے پاک فضائیہ نے ان کی میت کو قومی پرچم میں لپیٹ کر پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ ان کی نماز جنازہ میں وزیراعظم، آرمی چیف، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور دیگر اہم شخصیات کی شرکت اس شعر کے مصداق تھی ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گئے اعزاز کے ساتھ