پاکستان امریکہ تناؤ اور داخلی سیاست

شریف خاندان کی سعودی حکام سے بات چیت، امریکی صدر کی ٹوئٹ پر پاکستان کا ردعمل، اور بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد، چکوال کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی ملکی سیاسی منظرنامے کے اہم موضوع ہیں۔
سب سے پہلے نوازشریف کے دورۂ سعودی اور اس کے سیاسی اثرات پر بات کرلیتے ہیں۔ اس دورے میں دو اہم فیصلے ہوئے، نوازشریف سے کہا گیا کہ وہ عدلیہ کا فیصلہ تسلیم کریں اور فوج کے بارے میں اپنے تحفظات ختم کریں۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو بطور سیاسی جماعت حصہ لینے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا۔ اسے توڑنے، منصوبہ بندی سے شکست دینے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جائیں گی۔ شریف فیملی نے ایک بار پھر ڈیل کرلی ہے اور اب مسلم لیگ (ن) اسی ڈیل کے تحت ملک میں سیاسی عمل میں شریک ہوگی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) مائنس نوازشریف پر راضی ہوچکی ہے اور نوازشریف نے قربانی دے کر مسلم لیگ(ن) کو ٹوٹنے، بکھرنے سے بچا لیا ہے۔ چکوال کے ضمنی انتخاب کے نتائج اس ڈیل کی پہلی شہادت اور ثبوت ہیں، اور تجزیہ یہ ہے کہ ان انتخابی نتائج کے بعد نوازشریف کے لہجے میں مزید تیزی آجائے گی۔ یہ تلخی عدلیہ کے فیصلے تک محدود رہے گی۔ مسلم لیگ(ن) کے نہایت ذمے دار رہنمائوں کا خیال ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کسی بھی عوامی نمائندگی کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیے جانے کے بعد نوازشریف نے پہلی بار ایک قدم آگے بڑھ کر سخت جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے، وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ راز کھول دوں گا۔ ان کے اس بیانیے پر ملک کی سیاسی جماعتوں نے بھی ردعمل دیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ وہ راز کھولنے کے لیے میدان میں آہی جائیں۔ یہ کون سے راز ہیں جو نوازشریف کھولنا چاہتے ہیں؟ یہ راز نوازشریف اور عدلیہ تک ہی محدود رہیں گے۔ نوازشریف کا یہ رویہ سیاسی نظام کے لیے عدم استحکام کا خوف ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ گزشتہ ایک سال سے مسلم لیگ(ن) جس طرح ننگے پائوں تپتے صحرائوں میں چل رہی ہے ملک کی پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتیں ان سیاسی حقائق سے خوب واقف ہیں، تاہم کوئی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بجائے مفاہمت کی دیوار کھڑی کرنے لگ گیا ہے، اور کسی کے صحن میں قومی اسمبلی کے مضبوط امیدوار گھاس کی طرح اگنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ تبدیلی کیوں اور کیسے پیدا ہوئی، یہی راز نوازشریف کھولنا چاہتے ہیں، لیکن وہ فی الحال جلد بازی نہیں کریں گے اور اپنی انتخابی مہم تک اسی بیانیے کو لے کر چلیں گے۔ ان کے لہجے میں تلخی ان کی سیاسی حکمت عملی اور مسلم لیگ(ن) کو انتخابات سے قبل بکھرنے سے بچانے کی کوشش ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب نظر آرہے ہیں۔ اس وقت جو سیاسی امکانی نقشہ ہمارے سامنے ہے، وہ بتارہا ہے کہ انتخابات میں دو بڑی سیاسی قوتیں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی اور سیاسی معرکے کا اصل میدان بھی پنجاب ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں کوئی پریشانی پیدا نہیں کریں گی۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں کا فیصلہ یہی ہے کہ پہلے اپنا اپنا مورچہ بچالیا جائے اور پھر انتخابی جنگ کے بعد سیاسی حریفوں سے نمٹا جائے۔ دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ کے مابین اس خاموش اتحاد کی وجہ سے ہی پنجاب میں متعدد سیاسی خاندان گِدھوں کی طرح ووٹرز پر جھپٹنے کے لیے اپنی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کہ اسی سال امریکی سینیٹ اور اگلے سال بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ کچھ عرصے سے امریکی انتخابات میں پاکستان، اور پاکستان کے انتخابات میں مغربی اور امریکی مفادات ایک دوسرے سے متعلق بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے پتّے ذہن میں رکھ کر انتخابی میدان میں اترتی ہیں۔ امریکی صدر کے ٹوئٹ کے بعد اگرچہ پاک امریکہ تعلقات میں اس وقت تنائو کی کیفیت ہے تاہم بیک ڈور چینل سے رابطے بھی موجود ہیں۔ افغانستان کے لیے امریکہ کسی بھی قیمت پر پاکستان کو نظرانداز کرسکتا ہے اور نہ اس کا خطرہ مول لینا چاہے گا۔ حالیہ تنائو کے پیچھے اسلحہ ساز کمپنیاں ہیں جو ٹرمپ کو اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہیں۔ امریکی صدر کے ردعمل میں پاکستان نے متعدد فیصلے تو کیے ہیں لیکن بہت سے راستے ابھی بھی کھلے رکھے ہیں کہ اپنی فضائی حدود میں امریکی پروازوں پر پابندی لگائی ہے اور نہ زمینی راستے سے فوجی سازو سامان کی ترسیل روکی ہے۔ یہ امر امریکہ کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈائون کرے۔ پاکستان نے کھل کر جواب دیا ہے کہ جو گڈ گورننس کابل میں امریکہ نے پیدا کی ہے وہ بھی طالبان کے آگے بند نہیں باندھ سکی تو یہ کام پاکستان اپنے محدود وسائل کے ساتھ کیسے انجام دے سکتا ہے! لہٰذا امریکہ اور کابل انتظامیہ، اپنی نااہلی چھپانے کے لیے پاکستان کو الزام نہ دیں، مفروضوں پر مبنی رپورٹوں پر ٹرمپ انتظامیہ بڑے بڑے فیصلے نہ کرے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہمارے ہاں حقانی نیٹ کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور نہ ہم نے طالبان کو پناہ دے رکھی ہے۔ امورِ خارجہ کے ذمے دار پالیسی سازوں نے فیصلہ کرلیا ہے، اور اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس اور فوجی تعاون معطل کردیا ہے۔ ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بعد امریکہ کو تاحال فضائی اور زمینی راہداری سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں، اگر تعلقات میں بہتری نہ آئی تو بندش کا آپشن بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ افغانستان میں کھربوں ڈالر خرچ کرکے بھی امریکہ جنگ ہار رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے خود تسلیم کیا کہ امریکہ، افغانستان میں کامیاب نہیں ہو پارہا، لاکھوں فوجیوں کے باوجود بھی امریکہ صرف 40 فیصد افغانستان پر کنٹرول حاصل کرسکا، امریکہ کو زمینی و فضائی راہداری اور فوجی اڈے دینا پرویزمشرف دور کا سیاہ باب ہے۔ پاکستان ہی امریکہ کے لیے واحد راہداری باقی بچتی ہے۔ حقائق سمجھ میں آجانے کے بعد امریکی انتظامیہ پاکستان کو منانے کی کوششں کررہی ہے، اس سلسلے میں 10 روز میں متعدد امریکی وفود اسلام آباد آئے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں مشترکہ کوششوں سے متفقہ اہداف کے تعین پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ رواں ماہ بھی اعلیٰ امریکی حکام کے وفودکے دوروں کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جن کے، تعلقات میں بہتری کے لیے سیاسی، سفارتی اورعسکری سطح پر رابطے ہوئے ہیں۔ ماضی کے برعکس اِس بار پاکستان نے بھی اس حوالے سے اپنے تین مطالبات سامنے رکھ دئیے جن میں افغان مہاجرین کی جلدازجلد واپسی اور افغان حدود میں حکومتی عملداری یقینی بنانا شامل ہے۔ پالیسی سازوں کا فیصلہ ہے کہ پاکستان اور چین اتحادی ہیں، جبکہ خطے میں ایران، چین اور روس کی اہمیت بھی اتنی ہے جتنی امریکہ کی، مسائل صرف بھارت کی جانب سے ہیں، وہ پاکستان کے خلاف کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹران کا اعتراف کرچکا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس حوالے سے متعدد بار پاکستان کے مؤقف کی تائید کرچکے ہیں۔ حال ہی میں ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بعد امریکی میڈیا نے ہی واشنگٹن کو احساس دلایا کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ لے جائے جائیں ورنہ پاکستان کسی بھی لمحے امریکہ کی افغانستان تک رسائی روک سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی پینٹاگون جی ایچ کیو سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوا تاکہ سامان کی ترسیل میں رکاوٹ نہ بنے۔ اب دونوں جانب سے خاموش مذاکرات ہوں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کو 1.1 بلین ڈالر سیکورٹی امداد حافظ سعید جیسے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود سینیٹر پال بہت جلد سینیٹ میں ایک بل متعارف کرا رہے ہیں جس میں پاکستان کی امداد بند کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
واشنگٹن میں یہ پیش رفت اس لیے بھی ہورہی ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ چین سی پیک کی چھتری تلے یہاں قدم جمائے۔ بلوچستان میں جیونی کے ساحلی مقام پر ایک بحری بیس (Naval Base) کی مستقبل میں تعمیر پر بھی امریکہ کے لیے تشویش ناک ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اگر چین کو یہ اجازت مل گئی تو یہ چین کا سمندر پار پہلا اہم بحری بیس ہوگا جو بھارت کی راہ روک سکتا ہے۔ فی الحال اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے تاہم اگر یہ تعمیر ہوجائے تو یہ نیا بیس انصرامی بیس نہیں ہوگا بلکہ مکمل عسکری بیس ہوگا۔ اس میں چین کی چھوٹی میزائل کشتیوں سے لے کر طیارہ بردار بحری جنگی جہاز تک آ جا سکیں گے۔ اس کا اسکوپ کیا ہوگا یعنی کتنے بڑے جہازوں کو یہاں رکھ سکے گا، پاکستان کو کہاں کہاں اور کس کس طرح کی رسائی اور سپورٹ اس مستقر سے مل سکے گی، اور اس طرح کے لاتعداد پہلو ہوں گے جن پر پاکستان کو اجازت دینے سے پہلے سوچنا پڑے گا۔ دفاعی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں اس نوع کی چینی بیس کی اشد ضرورت تھی اور ہے، اس لیے کہ مشرق وسطیٰ، نیز برصغیر میں طاقت کا توازن تبدیل ہورہا ہے۔ بھارت، امریکہ اور افغانستان ایک ہورہے ہیں۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران تو افغانستان سے رختِ سفر باندھنے کے اوباما ڈاکٹرن کو سپورٹ کرتے رہے، لیکن جب خود عنانِ اقتدار سنبھالی تو ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے تیز تر ہوگئے اور نوبت یہاں تک آئی کہ ہر قسم کی امداد روک دی گئی، 33 ارب ڈالر کی ادائیگی کا طعنہ دیا گیا اور اپنے آپ کو بے وقوف اور احمق قرار دیا گیا۔ یہ دھمکی اور ٹوئٹ اسی لیے آیا کہ امریکی سمجھتے ہیں کہ چین اور پاکستان جیونی میں ایک بحری مستقر کے قیام پر بات چیت کررہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے جب گوادر پورٹ کی تعمیر ابتدائی مراحل میں تھی تو شمالی بحیرۂ عرب میں بھارتی آبدوزوں کی موجودگی اور ان کی حصولِ انٹیلی جنس کی کوششوں کو عالمی برادری تک نے دیکھا تھا۔
چند روز قبل پاک فضائیہ نے ایک نیا ایئربیس جنوبی سندھ میں قائم کیا ہے جو بھولاری کے مقام پر ہے۔ اس میں ایف 16 کا نمبر 19 اسکواڈرن اسٹیشن قائم کیا جائے گا۔ بھولاری، ضلع جام شورو میں ہے اور ٹھٹہ کے نزدیک ہے۔ اس بیس کا افتتاح ایئر چیف مارشل سہیل امان نے کیا تھا اور سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ بھی بطور مہمانِ خصوصی اس افتتاحی تقریب میں شریک تھے۔ ایئرچیف نے اپنی مختصر تقریر میں کہا تھا کہ پاک فضائیہ کے اس بھولاری بیس کی اہمیت اسٹرے ٹیجک نوعیت کی ہے جو پاک فضائیہ کو زمین اور سمندر پر آپریشنل سطح کی اہلیت عطا کرے گا۔ یہ ایئربیس پاک فضائیہ، پاک آرمی اور پاک بحریہ کے زمینی آپریشنوں کو زیادہ بہتر طریقے سے سپورٹ کرسکے گا، پاک فضائیہ کا یہ بیس پاک بحریہ کی طرف سے بروئے کار لائے جانے والے سمندری آپریشنوں کو تحفظ دے گا اور سی پیک منصوبے کو تحفظ دینے میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کرے گا۔