وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے اندرونی شکوے شکایات اور مخالف سرگرمیوں پر خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ ان کے ناقدین موقع کی تلاش میں تھے۔ وہ لمحہ آیا تو اپنا دائو بڑی مہارت سے کھیلا۔ 2 جنوری2018ء کو نواب زہری کے خلاف بلوچستان اسمبلی کے14ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع کرادی، جس پر مسلم لیگ (ق) کے میر عبدالقدوس بزنجو، میر عبدالکریم نوشیروانی، میر امان اللہ نوتیزئی، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل، بی این پی کے حمل کلمتی، نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو، مجلسِ وحدت المسلمین کے آغا سید رضا، اے این پی کے انجینئر زمرک اچکزئی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے خلیل الرحمان دمڑ، عبدالمالک کاکڑ، حسن بانو، شاہدہ رؤف اور آزاد بینچوں پر بیٹھے رکن اسمبلی نواب زادہ طارق مگسی نے دستخط کیے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل136کے تحت جمع کرائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی سے استدعا کی گئی کہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے۔ آئین میں وزیراعلیٰ کی صوبائی اسمبلی کے سامنے جوابدہی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب وزیراعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو تو وہ اقتدار میں رہے گا، اور جب وہ اس اعتماد سے محروم ہوجائے گا تو اسے ہٹادیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل136کے مطابق سب سے پہلے صوبائی اسمبلی کے کُل اراکین کے بیس فیصد یعنی1/5اراکین وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پاس کریں گے، جس دن یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کی جائے گی اس کے تین یوم بعد اور سات ایام گزرنے سے قبل اس قرارداد پر اسمبلی کا ووٹ لیا جائے گا۔ اگر صوبائی اسمبلی کے کُل اراکین کی اکثریت قرارداد کے حق میں ووٹ دے تو وزیراعلیٰ اپنے عہدے سے محروم ہوجائے گا۔ اگر کُل اراکین کی اکثریت اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دے تو وزیراعلیٰ بدستور اپنے منصب پر برقرار رہے گا۔ عدم اعتماد کی تحریک منظور کرنے کے لیے اسمبلی میں موجود اراکین کی اکثریت کافی نہیں بلکہ کُل اراکین کی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ تو ہے عدم اعتماد کی تحریک کا آئینی طریقہ کار۔ اب بلوچستان اسمبلی میں اراکین اور جماعتوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ کس جماعت کے کتنے اراکین اور کون کون ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 10 امیدوار کامیاب ہوئے تھے جن میں نواب ثناء اللہ زہری، طاہر محمود، سردار در محمد ناصر، نواب جنگیز مری، میر جان محمد جمالی، محترمہ راحت جمالی، عبدالغفور لہڑی، میر اظہار حسین کھوسہ اور اکبر آسکانی شامل ہیں (عبدالغفور لہڑی کے نااہل ہونے کے بعد اس نشست پر نون لیگ کے محمد خان لہڑی کامیاب ہوئے)۔ میر سرفراز بگٹی، میر عامر رند، میر سرفراز چاکر، عاصم کرد گیلو، سردار صالح بھوتانی، عبدالماجد ابڑو، پرنس احمد علی اور غلام دستگیر بادینی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے جو بعد ازاں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر راحیلہ درانی، کشور جتک اور ثمینہ خان، جبکہ اقلیت کی مخصوص نشست پر سنتوش کمار کامیاب ہوئے۔ مسلسل غیر حاضری پر ان کی نشست خالی قرار دی گئی تو اس نشست پر نون لیگ کی انیتا عرفان منتخب ہوئیں۔ اس طرح نون لیگ کے ارکان کی کُل تعداد21 ہوگئی۔ دوسری بڑی جماعت پشتون خوا میپ کے عبدالرحیم زیارتوال، نواب ایاز جوگیزئی، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، عبدالمجید خان اچکزئی، سردار مصطفی ترین، لیاقت آغا، منظور احمد کاکڑ، عبیداللہ بابت، نصر اللہ زیرے، سردار رضا محمد بریچ عام نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اقلیتی نشست پر ولیم برکت اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر سپوزمئی اچکزئی، عارفہ صدیق اور معصومہ حیات منتخب ہوئیں۔ اس طرح اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد14ہوگئی۔ نیشنل پارٹی کے عام نشستوں پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، رحمت بلوچ، میر خالد لانگو، نواب محمد خان شاہوانی، سردار اسلم بزنجو، فتح بلیدی، حاجی اسلام منتخب ہوئے۔ مجیب الرحمان محمد حسنی آزاد حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد نیشنل پارٹی کا حصہ بنے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر ڈاکٹر شمع اسحاق اور یاسمین لہڑی اور اقلیتی نشست پر گھنشام داس منتخب ہوئے۔اس طرح نیشنل پارٹی کے ارکان کی تعداد11ہوگئی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کُل آٹھ ارکان اسمبلی ہیں۔ مولانا عبدالواسع، عبدالمالک کاکڑ، مفتی گلاب، سردار عبدالرحمان کھیتران، مفتی معاذ اللہ اور خلیل الرحمان دمڑ عام نشستوں پر، جبکہ شاہدہ رؤف اور حسن بانو خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں۔ مسلم لیگ (ق) کے شیخ جعفر خان مندوخیل، امان اللہ نوتیزئی، عبدالکریم نوشیروانی اور عبدالقدوس بزنجو عام نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اس جماعت کی رقیہ ہاشمی خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں۔ مسلم لیگ (ق) کے کُل ارکان پانچ ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل اور حمل کلمتی کامیاب ہوئے، یعنی اسمبلی میں اس کے محض دو ارکان ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے صرف میر ظفر اللہ زہری کامیاب ہوئے۔ مجلسِ وحدت المسلمین کا ایک رکن آغا سید رضا اور اے این پی کا بھی ایک رکن زمرک اچکزئی اسمبلی پہنچ سکے۔ نواب زادہ طارق مگسی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی حزبِ اختلاف کی بینچوں پر بیٹھ گئیں، جبکہ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین نے حکومت بنائی۔ یہ حکومت ڈھائی ڈھائی سال کے فارمولے پر بنائی گئی۔ پہلے ڈھائی سال کے لیے ڈاکٹر عبدالمالک اور اس کے بعد نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بن گئے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو مخلوط حکومت کی تعمیر کی بنیادوں میں خرابی تھی نیشنل پارٹی پانچ سال کے لیے وزیراعلیٰ کا منصب لیتی، ڈھائی سال پر قناعت نہ کی جاتی، کیونکہ ان ڈھائی برسوں میں نیشنل پارٹی اپنے منشور کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی ہے، الٹا بدنامی حصے میں آئی۔ قوم رست عسکریت پسندوں کی دشمنی الگ مصیبت ہے جو گلے پڑ گئی ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری کے لیے مشکلات مارچ2015ء کے سینیٹ الیکشن کے بعد پیدا ہونا شروع ہوگئی تھیں جس میں انہوں نے پارٹی ٹکٹ اپنے بھائی نعمت اللہ زہری اور برادرِ نسبتی آغا شہباز درانی مرحوم کو دیا جو کامیاب ہوگئے۔آغا شہباز درانی کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے بھائی آغا شاہ زیب درانی سینیٹر منتخب ہوئے۔ نون لیگ کے اندر کے اختلافات کی وجہ سے میاں نوازشریف کے قریبی اور مشکل دنوں کے ساتھی یعقوب ناصر سینیٹ الیکشن میں ناکام ہوئے۔ حالانکہ21 ارکان کے ہوتے ہوئے سردار یعقوب ناصر کو ناکام نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وجہ یہ تھی کہ لیگیوں نے ووٹ نہیں دیا۔ جان محمد جمالی نے تو صاف صاف اپنا ووٹ مرضی کے مطابق استعمال کیا۔ وہ اپنی بیٹی کے لیے مہم چلا رہے تھے۔
تحریک عدم اعتماد میں مسلم لیگ (ق) پوری کی پوری اور مسلم لیگ(ن) کے ارکان بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ اس تحریک میں مرکزی کردار عبدالقدوس بزنجو اور سرفراز بگٹی کا ہے۔ اجلاس سعید احمد ہاشمی کے گھر بھی ہوئے۔ چنانچہ عدم اعتماد کی تحریک کو نون لیگ کے سردار صالح محمد بھوتانی، جان محمد جمالی، سرفراز بگٹی، سرفراز چاکر ڈومکی، راحت فائق جمالی، ماجد ابڑو، پرنس احمد علی، میر عامر رند، غلام دستگیر بادینی کی حمایت حاصل ہے۔ اس تحریک کی جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، مجلسِ وحدت المسلمین، بی این پی عوامی اور آزاد رکن نواب زادہ طارق مگسی کی حمایت حاصل ہے۔ معلوم نہیںکہ جے یو آئی کیوں مخالفت میں گئی، حالانکہ یہ جماعت نواب زہری کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ اس کا سارا نزلہ پشتون خوامیپ اور نیشنل پارٹی پر اترتا ہے۔ ایسا ہی عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک اچکزئی کا رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے آنے والے الیکشن میں اپنا وزیراعلیٰ لانے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے، اس لیے شاید مقتدرہ کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوئم، جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی بالخصوص پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے بغض میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح بی این پی کے دونوں دھڑے، نیشنل پارٹی کے سیاسی حریف ہیں۔ سردار اختر مینگل نواب زہری کو بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کے درمیان سیاسی اختلاف اور قبائلی رنجش بھی موجود ہے۔ اسی طرح یہ دونوں جماعتیں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی سے سیاسی ونظریاتی اختلاف بھی رکھتی ہیں۔ گویا یہ جماعتیں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتیں۔ چنانچہ تحریک عدم اعتماد کی ان جماعتوں کی طرف سے حمایت یعنی حزبِ اختلاف کو سیاسی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ جمہوریت اور آئین میں عدم اعتماد ارکان کا استحقاق ہے۔ یہاں محلاتی سازش کے لیے آئین اور جمہوری روایات کا استعمال ہوا ہے، اور جمعیت علمائے اسلام، بی این پی اور عوامی نیشنل پارٹی نے نادیدہ لوگوں کی چال کا داغ اپنے دامن پر لگایا ہے۔ ویسے یہ مکافاتِ عمل بھی ہے۔ نواب رئیسانی کے دورِ حکومت میں نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ، اسی طرح جے یو آئی اے این پی اور بی این پی عوامی کے خلاف ہاتھ دھو کر پڑی تھی۔ غرض طبل جنگ بج چکا ہے، جس کاآغاز بلوچستان سے کردیاگیا۔ قدوس بزنجو اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ نواب زہری نے ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔ وجہ ترقیاتی منصوبوں اور حلقوں کے لیے فنڈاور نوکریوں سے محروم رکھنا بھی بتائی گئی۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے نواب زہری کا ساتھ دینے کا عہد کیا ہے۔ اس ذیل میں محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت کے ایک سینیٹر عثمان کاکڑ نے سنگین الزام یہ بھی لگایا ہے کہ ان کے ارکان اسمبلی کو نامعلوم نمبر سے دھمکی آمیز کالیں موصول ہوئی ہیں۔ انہیں نواب زہری کی حمایت سے دست بردار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے (6جنوری2018ء)۔ 9 جنوری کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے جس میں مسودہ پیش کیا جانا تھا، تاہم ثناء اللہ زہری نے اپنا استعفیٰ گورنر کو پیش کر دیا جنہوں نے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا۔
نواب ثناء اللہ زہری کی پریس کانفرنس
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، دو ہفتے سے صوبے میں سیاسی حالات میں بہت تیزی آئی ہے جس میں خاص طور پر چند ساتھیوں کی جانب سے میرے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کے تحفظات کو دور کریں اور ہمارے ساتھیوں نے بھی بھرپور کوشش کی۔ ہماری پارٹی کی مرکزی قیادت وزیراعظم پاکستان بھی کل کوئٹہ تشریف لائے، مگر بدقسمتی سے ہم کامیاب نہ ہوسکے۔ میں نے پچھلے دو سال کے عرصے کے دوران ہر ممکن کوشش کی کہ نہ صرف تمام اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلوں بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی ہمیشہ آن بورڈ رکھوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اکثر سرکاری تقاریب میں اپوزیشن لیڈر بھی میرے ساتھ ہوا کرتے تھے، جس پر میڈیا کو خوشگوار حیرت ہوا کرتی تھی۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ اس دوران ہم نے بھرپور کوشش کی کہ صوبے میں حکومتی عمل داری قائم کریں اور امن و امان بحال کریں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج صوبے میں امن و امان کی حالت بہت بہتر ہے، اس کی گواہی آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا۔ میں تمام متعلقہ اداروں خاص طور پر بلوچستان پولیس، لیویز، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے دن رات محنت کی اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو بچایا۔ ہم نے پہلی دفعہ اپنے ترقیاتی پروگراموں میں اپنے شہروں خاص طور پر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز پر خصوصی توجہ دی اور اس کے لیے خطیر رقم مختص کی۔ اور اپنے سیاسی دوستوں کی ترجیحات کے بجائے متعلقہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کو اس رقم کا ذمہ دار مقرر کیا تاکہ ہم پر اور ہمارے سیاسی دوستوں پر الزام نہ آئے کہ ہم ترقی کے مخالف ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ان دو برسوں میں صوبے کے ہر ضلع میں ترقیاتی عمل نظر آرہا ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، آپ متعلقہ اداروں سے اس دور کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل معلوم کرسکتے ہیں۔ یقینا مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا، اگرچہ ہم اکثریتی جماعت تھے مگر پھر بھی ہم نے کوشش کی کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ میں خاص طور پر اپنے تمام اتحادیوں کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ سیاست میں آپ کی طاقت آپ کے ساتھی ہوتے ہیں، اگر وہ ساتھ چھوڑ دیں تو پھر زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنا مناسب نہیں ہوتا۔ مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دیا ہے، مجھے محسوس ہورہا ہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے ارکان میری قیادت سے مطمئن نہیں، اس لیے میں ان پر زبردستی مسلط ہونا نہیں چاہتا۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں عوام کی خدمت جاری رکھوں گا۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے صوبے کی سیاست خراب ہو، اس لیے میں وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہورہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ صوبے میں سیاسی عمل جاری رہے اور صوبہ آگے بڑھے۔ آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔