پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آبادی کی غالب اکثریت دیہات میں آباد ہے، اور ان کی زندگی کا انحصار زراعت پر ہے۔ یوں زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، مگر اس ریڑھ کی ہڈی سے وابستہ کھیت مزدور اس قدر مسائل سے دوچار ہے کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کسان دہرے عذاب سے دوچار ہے۔ فصل اگر اچھی نہ ہو اور پیداوار کم ہو تو اس کا نقصان، اور اگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سازگار موسمی حالات کے باعث فصل بھرپور ہو اور کھیت لہلہاتے دکھائی دیں تب اس کے لیے پریشانی کہ اس کی اچھی اور وافر فصل کا کوئی خریدار دستیاب نہیں ہوتا، اور مختلف مافیا اس کی پیداوار اونے پونے خرید کر ذخیرہ اندوزی کرتے اور پھر غریب آدمی کو من مانی قیمت پر بیچ کر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتے ہیں۔ فصل گندم کی ہو یا چاول کی، گنے کی ہو یا کپاس یا کسی اور جنس کی… خسارہ بہرحال کسان کا مقدر ٹھیرتا ہے۔ ان دنوں گنے کے کاشتکار شوگر ملز مافیا کے ظلم و ستم کا شکار ہیں، اور ستم بالائے ستم یہ کہ جب وہ اس پر احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو انہیں رونے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی اور پولیس تشدد اور لاٹھی چارج ان کا مقدر بنتا ہے۔
بہت زیادہ پرانی بات نہیں جب ملک کے مختلف حصوں میں کسان بیلنے کے ذریعے گنے کا رس نکال کر، پھر اس سے اپنے روایتی طریقے سے گڑ، شکر اور دیسی چینی جو کھانڈ کہلاتی تھی، بناتے دیکھے جاتے تھے جسے وہ مقامی منڈیوں میں بیچ کر نقد آمدن حاصل کرتے تھے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ اس ملک پر شوگر مافیا کا راج ہوگیا جس نے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے کسانوں کو شکر اور گڑ سازی سے روک دیا۔ اس مافیا نے شروع میں بہت سی ترغیبات اور مراعات کے ذریعے کسانوں کو اپنا گنا شوگر ملوں کو فروخت کرنے کی جانب راغب کیا، اور جو کسان ان ترغیبات کے لالچ اور پھندے میں نہیں پھنسے، انہیں سرکاری مشینری کے ذریعے قانوناً سختی سے گڑ اور شکر وغیرہ بنانے سے روک کر گنا شوگر ملوں کو بیچنے پر مجبور کیا۔ جب گنے سے گڑ سازی کی یہ صنعت متروک ہوگئی اور کسانوں نے سرکاری احکام کے تابع اپنی گھریلو ضروریات کے لیے بھی گنا بیلنا ترک کردیا اور دیہات میں بھی کھانڈ، گڑ اور شکر کی جگہ ملوں کی بنی چینی استعمال ہونے لگی تو مل مالکان کی تصویر کا دوسرا ظالمانہ رخ سامنے آنے لگا۔
جو مل مالکان پہلے کسانوں سے گنا خریدنے کے لیے متعدد ترغیبات دیتے تھے اور دوسری صورت میں سرکاری مشینری کے ذریعے جبراً اُن سے گنا خریدتے تھے، اپنی اجارہ داری قائم ہوجانے پر گنے کی خریداری کے لیے من مانی شرائط عائد کرنے لگے اور مختلف حیلوں بہانوں سے کسانوں کو مجبور کرکے ان کا استحصال کرنے لگے۔ ان سے گنا خرید کر رسید دے دی جاتی ہے اور پھر قیمت کی ادائیگی کے لیے مہینوں بلکہ برسوں تک کسانوں کو چکر لگوائے جاتے ہیں۔ کین ایکٹ 1934ء کے تحت اور ماضی کی روایت کے مطابق شوگر ملوں نے گنے کے پیداواری علاقوں میں ’’کنڈے‘‘ لگا رکھے تھے۔ کسان اپنے کھیت کے قریب ان کنڈوں پر اپنی گنے کی فصل کا وزن کرواکر ملوں کے حوالے کردیتے تھے جس کے بعد اس فصل کو ملوں تک لے جانا، خود ملوں کی انتظامیہ کا دردِ سر تھا۔ مگر اب آہستہ آہستہ یہ تمام کنڈے ختم کیے جا چکے ہیں۔ کسان جو اپنی گنے کی فصل کو بیچنے پر مجبور ہے، فصل ٹرکوں اور ٹرالیوں پر لاد کر ملز تک خود پہنچاتا ہے، جس پر لدوائی اور نقل و حمل کی مد میں اس کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ گنے سے لدے ہوئے یہ ٹرک اور ٹرالیاں سات سے دس دن تک اپنی باری کے انتظار میں ملز گیٹ کے باہر لمبی قطاریں بنائے کھڑے رکھے جاتے ہیں، جس سے ان کے بار برداری کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے، اور اتنے دن انتظار کے مراحل میں فصل کے وزن میں بھی خاطر خواہ کمی ہوجاتی ہے۔ یوں کسان کو دہرا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ظلم کی یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ ہوتا یوں ہے کہ جب کسان کی ٹرالی کی باری آتی ہے تو اس کی فصل میں رس کم ہونے کا جواز بناکر یا کوئی دوسرا نقص بتاکر اس کی خریداری سے مل انتظامیہ انکار کردیتی ہے۔ یوں وہ مجبور کسان سو فیصد مل انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جسے اس غریب پر ذرا بھی ترس نہیں آتا اور وہ اس کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ جب انتظامیہ گنا خریدنے سے انکار کردیتی ہے تو بے چارے کسان کی بے بسی اور بے کسی دیدنی ہوتی ہے۔ ایسی بے چارگی کے
وقت میں مل انتظامیہ کے چھوڑے ہوئے ایجنٹ اس سے رابطہ کرتے ہیں اور اس کی فصل مقررہ نرخ سے نصف تک قیمت پر خریدنے کی پیشکش کرتے ہیں، اور فی الحقیقت اس مجبوری کے عالم میں یہ ظالمانہ پیشکش قبول کرنے کے سوا اس غریب کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
یہ تو روایتی ہتھکنڈے ہیں جو ملز مالکان کسانوں کے استحصال کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ اسی میں آگے چل کر اس کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے کہ کسان کو اس کے گنے کی فصل کی قیمت کے طور پر جو چیک دیا جاتا ہے، بینک یہ کہہ کر ان کی ادائیگی سے انکار کردیتے ہیں کہ اس اکائونٹ میں رقم ہی موجود نہیں۔ اب پھر رقم کی وصولی کے لیے کسان شوگر ملز کے دفاتر کے چکر لگانا شروع کردیتا ہے جہاں سے اسے طفل تسلیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہاں پھر ملز انتظامیہ کے ایجنٹ سامنے آتے ہیں اور کسان سے دو لاکھ روپے کا چیک ایک لاکھ اسّی ہزار روپے میں خرید لیتے ہیں۔ یوں اس آخری مرحلے پر بھی غریب کسان کو بیس ہزار یا دس فیصد تک کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اب ذرا گنے کی قیمت کا بھی جائزہ لے لیجیے۔ گزشتہ چار پانچ سال سے گنے کے پیداواری اخراجات کا تخمینہ سرکاری طور پر لگوانے کے بعد حکومت نے خود 180 روپے فی من کی قیمت کا تعین کررکھا ہے۔ ان چار پانچ برس میں ہر طرح کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود گنے کی قیمت میں حکومت نے اضافہ نہیں کیا، مگر ظلم کی حد یہ ہے کہ ملز مالکان یہ قیمت بھی دینے پر تیار نہیں ا،ور قانون کے مطابق مقرر کردہ نرخوں کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کھلم کھلا 120 روپے سے 140 روپے فی من کی قیمت میں گنا خریدا جا رہا ہے۔ کوئی ہے جو ان ارب پتی شوگر ملز مالکان سے پوچھ سکے کہ جہاں جلانے کی سوکھی لکڑی 400 روپے فی من فروخت ہورہی ہے وہاں گنے جیسی رس سے بھری قیمتی فصل ایک تہائی قیمت پر خریدنا کیا ظلم نہیں… جس کے رس ہی سے صرف چینی نہیں بنتی بلکہ گنے کے پھوک سے بھی ملز مالکان کروڑوں روپے کی آمدن حاصل کرتے ہیں۔ اس پھوک سے وہ ون بورڈ، چپ بورڈ اور دیگر مختلف مصنوعات تیار کرتے ہیں، جب کہ ’’راب‘‘ سے بھی اسپرٹ وغیرہ تیار کرکے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتے ہیں۔
ظلم کی حد یہ ہے کہ خود اربوں روپے شوگر ملز سے کمانے والے ملز مالکان غریب کسان کا حق دینے پر تیار نہیں ہوتے اور اونے پونے داموں خریدے ہوئے گنے کی قیمت کی ادائیگی کے لیے بھی کسانوں کو سالہا سال تک چکر لگواتے ہیں۔ صرف ایک برادرز شوگر مل، جس کے مالک شریف برادران کے حقیقی کزن میاں ادریس بشیر ہیں، اس کے ذمے گنے کے دس ہزار کاشتکاروں کے 98 کروڑ روپے کے واجبات ہیں، مگر وہ ان کی ادائیگی کے بجائے مسلسل بہانہ سازی سے کام لے رہے ہیں۔ شوگر مافیا کے ظلم کا سب سے بڑا سبب ہی یہی ہے کہ اکثر شوگر ملیں یا تو سندھ اور پنجاب کے حکمران خاندانوں کی ہیں، یا ان کے عزیز و اقارب کی، جنہیں معلوم ہے کہ وہ جتنا چاہیں ظلم کرلیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف خود کو بڑے فخر سے خادم اعلیٰ پنجاب کہلواتے اور لکھواتے ہیں، اور صوبے میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے، مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ صوبے میں گنے کے کاشتکاروں کا استحصال کرنے والی شوگر ملوں کی اکثریت اُن کے اپنے خاندان یا اُن کے رشتے داروں کی ملکیت ہے۔ ابھی چند روز قبل جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی کہ ان کی ذاتی رمضان شوگر ملز میں گنے کے کسانوں سے 180 روپے فی من کے مقررہ سرکاری نرخ کے بجائے 120 سے 140 روپے فی من کے حساب سے خریداری کی جا رہی ہے، تو اس پر میاں صاحب نے شرمندہ ہونے کے بجائے نہایت ڈھٹائی سے یہ فرمایا کہ میری شوگر مل بھی کسانوں سے کم قیمت پر گنا خریدے تو متعلقہ افسران اس کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ یوں وہ ذرائع ابلاغ میں خود کو ہیرو ثابت کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیئے کہ افسروں کو اپنی مل کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کردی۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کارروائی کرے گا کون؟ کیا متعلقہ افسران کو صوبے میں ملازمت نہیں کرنی؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جب مل آپ کی ہے اور آپ قانون پسند حکمران ہیں تو آپ کی مل میں یہ لاقانونیت ہوئی ہی کیوں؟ کیا مل ملازمین آپ کی مرضی کے بغیر ہی کسانوں پر یہ ظلم ڈھا رہے ہیں اور اس کم ادائیگی کے نتیجے میں حاصل ہونے والا بھاری منافع آپ کی تجوری میں جائے گا یا کسی اور کی؟ آپ افسروں کو کارروائی کرنے کا کہنے کے بجائے اپنے مل ملازمین کو سختی سے ہدایت کیوں نہیں کرتے کہ کسانوں کو پوری قیمت ادا کی جائے اور آپ کی بدنامی کا سامان نہ کیا جائے؟
چینی کے کارخانہ مالکان نے پہلے تو گنے کی خریداری شروع کرنے میں تاخیر کی اور پھر جب اعلیٰ عدالتوں کے حکم پر وہ مجبوراً اپنے کارخانے چلانے اور گنے کی خریداری شروع کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں تو ناپ تول میں کمی، قیمتوں میں ہیر پھیر اور ادائیگیوں میں تاخیر وغیرہ کے ذریعے کسانوں کو پریشان کررہے ہیں، جس کا جواز وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ان کے پاس گزشتہ برس کی تیار شدہ چینی بھاری مقدار میں ذخائر میں موجود ہے، اس لیے وہ مزید گنا خرید کر اپنے ذخائر میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے۔ اس ضمن میں بھی جب صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو جو حقائق سامنے آتے ہیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت کی غلط حکمت عملی ہی اس کی بھی ذمے دار ہے۔ چند ماہ پہلے تک عالمی منڈی میں چینی کی قیمت ستّر روپے فی کلو گرام تک تھی مگر حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت نہیں دی۔ اس وقت جب کہ عالمی منڈی میں چینی کی قیمت 40 روپے فی کلو گرام کی سطح تک گر چکی ہے تو حکومت نے محدود مقدار میں برآمد کی اجازت دے دی ہے، مگر سیدھی سی بات ہے کہ مل مالکان جو اندرون ملک ساٹھ روپے کلو چینی فروخت کررہے ہیں، خسارے پر برآمد کیوں کریں گے؟
اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ حکومت برآمد کی جانے والی چینی پر سرکاری خزانے سے دس روپے ستّر پیسے فی کلو سبسڈی مل مالکان کو دے گی۔ یوں اربوں روپے کی اس ادائیگی کا بوجھ بھی عوام ہی کو برداشت کرنا پڑے گا، حالانکہ اس غلط حکمت عملی کی سو فیصد ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔
حکومت اور شوگر ملز مالکان کے اس کسان دشمن رویّے کے خلاف کسان مسلسل سراپا احتجاج ہیں مگر حکومت مسلسل وعدوں پر ٹرخا رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ پنچاب حکومت کے اپنے تشکیل دیے ہوئے ’’زرعی کمیشن‘‘ کے ارکان بھی بے بسی کا اظہار ہی نہیں کررہے بلکہ احتجاج پر بھی مجبور ہیں کہ حکومت اور شوگر ملز مالکان باہم گٹھ جوڑ کیے ہوئے ہیں اور کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے مذاکرات کے نام پر مسئلے کو طول دے رہے ہیں اور مذاکرات کی آڑ میں کسانوں کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں، اور کسی کو غریب عوام کی تکلیف اور پریشانیوں کا احساس نہیں۔ حکومت نے خود گنے کی 180 روپے فی من قیمت کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، مگر ریاست کے اس قانون کو شوگر ملز مالکان پر لاگو کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدام پر حکومت تیار نہیں۔
جماعت اسلامی پنجاب کے امیر میاں مقصود احمد نے اس مشکل صورتِ حال میں کسانوں کی آواز میں آواز ملائی ہے اور ان کے مسائل کے حل کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کسان بورڈ پاکستان، پاکستان کسان اتحاد اور کسانوں کی دیگر نمائندہ تنظیموں کو متحد کرکے زوردار مشترکہ احتجاج کا اہتمام کیا ہے کہ شاید اس طرح مظلوموں کی صدا حکمرانوں کے کانوں تک پہنچ سکے، تو دوسری طرف انہوں نے کسانوں کو انصاف دلانے کے لیے عدالتِ عالیہ لاہور کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے، جس کے جسٹس ساجد محمود بھٹی ان کی درخواست کی سماعت کررہے ہیں۔ میاں مقصود کو عدالتِ عالیہ سے مظلوم کاشت کاروں کے حق میں کسی بڑے فیصلے کی توقع ہے۔ عدالتِ عالیہ میں 9 جنوری کی سماعت کے دوران اسسٹنٹ کین کمشنر نے بتایا کہ حکومتِ پنجاب نے تمام شوگر ملیں کھولنے سے متعلق بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرا دیا ہے، پنجاب حکومت کاشتکاروں کو 180 روپے فی من گنے کی قیمت ادا کررہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ عدالتی حکم کے باوجود شوگر ملز مالکان نے دسمبر ختم ہونے کے باوجود شوگر ملیں نہیں چلائیں، شوگر ملیں نہ چلنے سے گنے کے کاشتکاروں اور غریب کسانوں کا شدید نقصان ہورہا ہے، رواں سیزن کی کرشنگ شروع نہ ہونے سے صرف جنوبی پنجاب میں 40 ارب سے زائد رقم ڈوبنے کا خدشہ ہے، گنے کی فصل بروقت نہ کاٹنے سے گندم کی بوائی تاخیر کا شکار ہونے سے خوراک کی قلت کا سامنا ہونے اور غریب کسانوں کی مالی مشکلات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ عدالت نے شوگر ملز نہ چلانے والے مالکان کے خلاف مقدمات درج نہ کرانے پر کین کمشنر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو توہینِ عدالت کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی اور سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی۔
یہاں یہ تذکرہ کرنا بھی شاید نامناسب نہ ہوگا کہ عدالتِ عظمیٰ سے نااہل قرار پانے کے بعد سابق وزیراعظم غریب عوام کو انصاف دلانے کے لیے ’’تحریکِ عدل‘‘ برپا کرنے کے اعلانات کررہے ہیں، بلکہ اب تو انہوں نے شیخ مجیب کی طرح بغاوت کی دھمکیاں بھی دینا شروع کردی ہیں، مگر کاش وہ دو وقت کی روٹی کو ترستے غریب اور مظلوم کسانوں کا دکھ بھی محسوس کرسکیں جو گزشتہ چار سال اُن کی اپنی، اور اب اُن کی جماعت کی حکمرانی میں انصاف اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ کاش میاں نوازشریف انہیں بھی انصاف دلا سکیں…!!!