سندھ، ذراعت کی تباہی ۔۔۔ ذمہ دار کون؟۔

سندھ میں زرعی شعبے کا بحران گزشتہ کئی برس سے چلا آرہا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا پھر دورِ آمریت سمیت کوئی اورجمہوری حکومت، کسی نے بھی سندھ کے کاشت کاروں کو درپیش دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ ہر سال حکومتِ سندھ کی جانب سے آبادگاروں سے گنے کی خریداری کا جو سرکاری نرخ مقرر کیا جاتا ہے اُس پر شوگر ملز مالکان کی ہٹ دھرمی کی باعث عمل نہیں ہوپاتا۔ ہر بار کاشت کار بے چارے شوگر ملوں کو وقت پر نہ چلائے جانے اور گنے کی فصل کا مناسب معاوضہ نہ ملنے کے خلاف سڑکوں، راستوں اور پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور بدلے میں حکومت کی جانب سے انہیں ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امسال بھی بدقسمتی سے یہی افسوسناک صورت حال دکھائی دیتی ہے کہ شوگر ملز مالکان حکومتِ سندھ کے محکمہ زراعت کی جانب سے مقرر کردہ سرکاری نرخ 182 روپے فی من پر گنے کی خریداری کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے آبادگاروں نے سندھ کے مختلف علاقوں گھوٹکی، اوباڑو، ڈہرکی، خیرپور اور دیگر شہروں میں زبردست احتجاج کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ حالات سے دل برداشتہ اور مایوس ہوکر انہوں نے اپنی گنے کی تیار فصل کو جلانا تک شروع کردیا ہے۔ ایسے میں حکومتِ سندھ کی عمل داری (رٹ) کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔
شوگر ملز کے متعلق موجود قانون ’’شوگر ملز ایکٹ‘‘ کے تحت سندھ میں شوگر ملوں کو 15 اکتوبر سے کرشنگ سیزن کا آغاز کرنا تھا، لیکن ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود تاحال یہ سلسلہ مکمل طور پر شروع نہیں کیا جاسکا ہے، جس کے سبب مختلف اضلاع میں گنے کی کاشت کردہ فصل کو بھی ازحد نقصان پہنچ رہا ہے۔ سندھ آبادگار بورڈ، ایواِن زراعت سندھ اور سندھ آبادگار اتحاد کے مشترکہ اتحاد ’شوگر کین ایکشن کمیٹی‘ کے رہنمائوں کے مطابق حکومت کی جانب سے اپنی رٹ پر عمل درآمد نہ کرانے کی وجہ سے آبادگاروں اور قومی معیشت کو گنے کی مد میں 30 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ جب بھی گنے کی فصل کا سیزن آتا ہے تو بے چارے آبادگاروں اورکاشت کاروں کے چہروں پر بجائے مسرت کے ایک طرح سے گویا مُردنی اور مایوسی پھیل جاتی ہے، کیونکہ وقت پر شوگر ملیں نہ چلنے اور آبادگاروں کو اپنی محنت کا مناسب معاوضہ نہ ملنے کے باعث بھاری خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امسال بھی گندم کی فصل کے بروقت نہ کٹنے اور اس زمین پر گندم اورکپاس کی کاشت نہ ہونے کی وجہ سے سندھ، ملک اور آبادگاروں کو شدید مالی نقصان ہورہا ہے لیکن متعلقہ حکومتی ادارے اور ذمہ داران کسی طرح کا کوئی ایکشن لینے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
دریں اثناء ہر راستہ بند ہوتا دیکھ کر جب اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے سندھ کے آبادگاروں نے بروز پیر 13 دسمبر کو کراچی میں احتجاج کیا اور بلاول ہائوس جانے کی کوشش کی تو بوٹ بیسن کے مقام پر ان مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس نے انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف لاٹھی چارج، واٹر کینن اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ہاری خواتین کے دوپٹے تک اُن کے سروں سے چھین کر اُن پر لاٹھیاں برسائی گئیں، جس کی وجہ سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر تصاویر اور خبریں سامنے آنے پر پیپلز پارٹی کی ’’جمہوری حکومت‘‘ کو جب حد درجہ جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا تو ’’بے خبر‘‘ پی پی چیئرمین بلاول زرداری نے اس تشدد پر ’’اظہارِ برہمی‘‘ کرتے ہوئے گرفتار مظاہرین کی فوری رہائی کا حکم نامہ صادر فرمایا، یعنی ’’وہی قتل کرے ہے اور وہی لے ثواب الٹا‘‘ کی سی صورت حال ہوگئی۔
شوگر ملز مالکان کی تنظیم ’’پاسما‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ شوگر ملز کے پاس کیونکہ پہلے ہی پانچ لاکھ ٹن چینی کا ذخیرہ موجود ہے اس لیے وہ حکومت کے مقرر کردہ نرخ پر گنے کی خریداری کرنے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ آبادگاروں نے حیدرآباد میں بھی احتجاجی دھرنے کا پروگرام تشکیل دیا تھا لیکن سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے گنے کی قیمت کے معاملے پر عبوری حکم نامہ صادر ہونے کے بعد آبادگاروں نے اپنا مذکورہ دھرنا ملتوی کردیا ہے۔ اس حکم نامہ کے مطابق شوگر ملز کی جانب سے گنے کی خریداری کا نرخ 172 روپے مع 10 روپے فی من سیکورٹی مقرر کیا جائے۔ تاہم شوگر ملز مالکان نے تاحال اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا ہے۔ سندھ کی 34 میں سے گھوٹکی کی 5 اور خیرپور کی 2 شوگر ملیں تو چل رہی ہیں لیکن 27 کو بند کردیا گیا ہے۔ شوگر ملز کے باہر پہنچنے والی ٹرالیوں کی بڑی تعداد قطاروں میں کھڑی دکھائی دیتی ہے جن پر موجود گنا خراب ہورہا ہے لیکن حکومتِ سندھ بااثر مل مالکان کے سامنے دم سادھے ہوئے بیٹھی ہے جس کی وجہ سے ساڑھے سات لاکھ ایکڑ پر محیط گنے کی فصل تباہ ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ان بااثر مل مالکان کا بھی اصل قصہ یہ ہے کہ سندھ شاید واحد صوبہ ہے جس میں نصف سے زائد شوگر ملز ایک بڑی سیاسی شخصیت کی ہیں اور مبینہ طور پر سابق صدر زرداری 34 میں سے 19 شوگر ملز کے مالک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان شوگر ملز کے معاملات میں اتنی بڑی بڑی سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کو دخل حاصل ہے کہ سندھ حکومت کے بااختیار ترین ذمہ داران بھی ان کے سامنے دم مارنے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ شوگر ملز مالکان یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ اگر وہ سرکاری نرخ 182 روپے فی من کے حساب سے گنا خریدیں گے تو انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، لیکن واقفانِ حال کے مطابق اصل حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی شوگر ملز مالکان کو وفاقی حکومت اور حکومتِ سندھ نے اپنی اپنی طرف سے زرِ تلافی سے نوازا ہے۔ ماہ نومبر 2017ء میں حکومتِ پاکستان نے چینی کی فی کلو قیمت پر 10 روپے 70 پیسے سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے جس میں سے نصف حکومتِ سندھ کو ادا کرنے تھے۔ اس پر مستزاد مل مالکان پر ’’عنایتِ خسروانہ‘‘ کرتے ہوئے انہیں مزید ساڑھے 9 روپے بطور زرِتلافی حکومتِ سندھ نے دینا منظور کرلیا ہے۔ یعنی مل مالکان کے لیے ’’چپڑی اور دودو‘‘ کے مصداق ہر طرف سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس طرح سے مل مالکان کو کُل ملا کر 30 ارب روپے کا فائدہ حاصل ہوسکے گا، لیکن اس کے باوجود مل مالکان مطمئن ہونے کا نام تک نہیں لے رہے ہیں، اور شاید قبر کی مٹی ہی ہوسِ زر میں مبتلا ان مل مالکان کا آخری مداوا کرپائے گی۔ ملک کے شوگر مل مالکان نہ صرف چینی کو فروخت کرکے بلکہ گنے کی پھوگ سے بجلی پیدا کرکے اور پھر اسے نیشنل گرڈ کو اپنی من پسند قیمت پر بیچ کر بھی بھاری منافع کماتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے نقصان کا رونا رونے میں لگے رہتے ہیں۔ اگر یہ اتنا ہی گھاٹے کا کاروبار ہے تو پھر ہر سال چینی کی پیداوار میں اضافہ کیوں کر ہوجاتا ہے اور تقریباً80 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار کس طرح سے ممکن ہوجاتی ہے؟ ہے کوئی جو اس خفتہ راز کو آشکار کرسکے؟ شوگر مل مالکان ہر سال بے چارے گنے کے آبادگاروں کو بلیک میل کرتے ہیں ،اور میڈیا کے دبائو پر بڑی تاخیر کے بعد جب ملرز خریداری کرتے بھی ہیں تو اُس وقت جب انہیں وفاقی اور سندھ حکومت زرِتلافی سے مستفید کرچکی ہوتی ہے۔ اور آبادگار گنے کی خریداری میں تاخیرکے بعد ’’نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘‘ کی صورت حال سے دوچار ہوکر مایوسی کے عالم میں مل مالکان کی منشاء کے مطابق انہیں گنا فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ نہ صرف گنا بلکہ چاول، کپاس اور گندم کی فصلیں تیار ہونے کے مواقع پر بھی ہاریوں سے اسی طرح کا ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہر تیار فصل کے موقع پر ہاریوں کے ساتھ استحصالی رویہ اپنانے والے حکمران، سرمایہ دار اور کاروباری افراد پر مشتمل مافیا پہلے ہی سے اس بات کا تہیہ کیے ہوتا ہے کہ آبادگاروں کو کسی بھی طور سے ان کی محنت سے کاشت کردہ فصلوں کا معاوضہ ادا نہیں کرنا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہر فصل کے لیے جو بھی سرکاری نرخِ خریداری مقررکیا جاتا ہے اس پر کبھی خریداری نہیں کی جاتی، لیکن مجال ہے کہ حکومتِ سندھ اور متعلقہ ذمہ داران کبھی ایسی صورت حال پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کہیں کسی بھی سطح پر دکھائی دے جائیں۔ اور تو اور، گندم کی فصل تیار ہونے کے موقع پر کاشت کاروں کو باردانہ تک میسر نہیں آیا، اور وہ جوٹ کے تھیلوں (بار دانہ) کے لیے ہر برس سرگرداں اور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ ہر تیار ہونے والی فصل کو اوپر بیان کردہ استحصالی مافیا مجبور ہاریوں سے اپنی مرضی کے دام پر خریدنے کے بعد اسے فرضی ناموں سے آگے حکومتِ سندھ کو سرکاری نرخ پر بیچ کر اپنے دام کھرے اور تجوریاں بھرلیتا ہے۔ اسی وجہ سے سندھ کا بے چارہ کسان باوجود سخت محنت کے ایک عرصے سے پہلے ہی کی طرح ویسا کا ویسا خستہ حال اور بدحال ہے۔ سندھ کی زراعت کو تباہی سے دوچار کرنے میں کوئی ’’وفاق‘‘، ’’دھاریا‘‘،’’بیرونی ہاتھ‘‘ یا ’’سامراج‘‘ نہیں بلکہ اپنے ہی ہاتھ ملوث ہیں، جنہیں روکنا اور تھامنا اب ناگزیر ہوچلا ہے۔ لیکن یہ کام کرے گا کون؟