شہید بابری مسجد اور اللہ کے گھر

فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ؎
شرے بر انگیزد عدو کہ خیرِ ما دراں باشد
ایودھیا میں 1528-29ء میں تعمیر ہونے والی تاریخی مسجد المعروف بابری مسجد برصغیر میں اہلِ اسلام کے لیے ایک عظیم مرکز تھا۔ 1992ء میں متعصب، تنگ نظر اور اسلام دشمن ہندوؤں نے اسے شہید کردیا۔ اس کے تناظر میں راقم نے مضمون لکھا تھا اور پھرایک رات سخت غم و اندوہ کے ماحول میں بابری مسجد کے نام سے ایک افسانہ بھی تحریر کیا تھا جو افسانوں کے مجموعے ’’سربکف، سربلند‘‘ میں شامل ہے۔ میں نے اپنے افسانے میں ایک تخیلاتی تصویر کھینچی تھی جس میں امت کو امید دلائی گئی تھی کہ اگر وہ بیدار ہوجائے تو کھوئی ہوئی عظمت بھی بحال ہوسکتی ہے اور مقدسات کا تحفظ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ بابری مسجد پر یہ افسانہ کتابچے کی صورت میں بھی چھپا اور مقبول ہوا۔ کئی سال بعد اب ایک ایمان افروز خبر نے دل میں عجیب جوت جگا دی ہے۔ بابری مسجد ہو یا قبلۂ اوّل، اندلس میں ہمارے قدیم مقدسات ہوں یا وسطی ایشیا کے مدارس و مساجد… سب اللہ رب العالمین کے فضل و کرم سے اپنے برکات و فیوض سے امت کو امید کی کرن دکھاتے رہیں گے۔
اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ قرآنِ عظیم الشان میں اللہ کا ارشاد ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر جو کوئی بھی دوسرا نظامِ زندگی اختیار کرے گا وہ اللہ کے نزدیک مردود اور مسترد ہوگا۔ اسلام اپنی ذات میں عظیم قوت اور شوکت رکھتا ہے۔ اسلام کا دعویٰ کرنے والے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ حقیقی اسلام ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور موجود رہے گا۔ حقیقی اسلام دلوں کو فتح کرتا ہے، اس کی جملہ اقدار اتنی مؤثر ہیں کہ وہ بھی اندھیروں میں روشنی بکھیرتی ہیں۔ قرآن بھی ایک زندہ معجزہ ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات تو مرکزِ معجزات تھی۔ آپؐ کے چہرۂ مبارک کو دیکھ کر اور آپؐ کی گفتگو سن کر بے شمار لوگ کفر کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آئے۔ سب سے اہم واقعہ حضرت عبداللہ بن سلّامؓ کے قبولِ اسلام کا ہے، جو یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کے معروف علماء میں سے تھے۔
عبداللہ بن سلّامؓ خود بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور پر میری پہلی نظر پڑی تو میں نے کہا: لیس الوجہ بوجہ کذّاب۔ یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی وحیِ ربّانی کی تو اپنی ہی شان ہے۔ ظاہر ہے کہ خالق بے مثل ہے تو اس کا کلام بھی اسی کی طرح بے مثل ہے۔ جس قلبِ مصفّٰی پر یہ کلام نازل کرنے کا فیصلہ ہوا، وہ بھی ساری مخلوق میں یکتا ہے۔ اس کا کوئی مثیل اور ثانی نہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے نکلے ہوئے کلمات بھی اپنی تاثیر میں بے نظیر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپؐ سے جو سب سے پہلا کلام سنا وہ اتنا جامع اور دل میں اتر جانے والا تھا کہ سبحان اللہ! وہ معجزہ نما کلام یہ تھا: ’’اے لوگو! آپس میں سلام کو عام کرو، (مستحقین، مہمانان اور احباب کو) کھانے کھلایا کرو، صِلہ رحمی کیا کرو، راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو اٹھ کر (تہجد کی) نماز پڑھا کرو، تم اس کے نتیجے میں سلامتی وعافیت کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔‘‘ (ترمذی، مسنداحمد)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓکو جب اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپؐ کی شدید توہین بھی کی ہے اور آپؐ پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے تو وہ سیدھے دارالندوہ پہنچے اور ابوجہل کے سر پر اپنی کمان سے ایسی ضرب لگائی کہ وہ لہولہان ہوگیا، پھر فرمایا: تم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہاتھ اٹھاتے ہو۔ میں دیکھ لوں گا کہ آئندہ کون یہ حرکت کرتا ہے۔ بنو مخزوم کے لوگ حضرت حمزہؓ کی طرف بڑھے تو انھوں نے کہا: آجاؤ تم بھی پنجہ آزمائی کرلو۔ اس پر ابوجہل نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو یہ کہہ کر پیچھے ہٹادیا کہ دراصل آج میں نے بھی حمزہ کے بھتیجے کے ساتھ کافی زیادتی کی ہے۔ حضرت حمزہؓ وہاں سے نکلنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور کہا: بھتیجے خوش ہوجاؤ، میں نے ابوجہل سے تمھارا بدلہ لے لیا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا: چچا جان مجھے اس بات سے کوئی خوشی نہیں ہوئی، البتہ مجھے بہت زیادہ خوشی ہوگی اگر آپ اسلام قبول کرلیں۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ نے اسلام قبول کرلیا۔
میں تصور میں دیکھتا ہوں کہ بابری مسجد اپنی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ سے فریاد کررہی ہوگی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی حضورِ حق میں پیش کرتی ہوگی کہ اے مولائے کریم اگر تُو ان لوگوں کو تباہ کردے تو مجھے کیا ملے گا۔ اگر تُو ان کو ہدایت دے دے اور یہ تیرے گھروں کے محافظ بن جائیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔
کئی سال قبل جب میں کینیا میں مقیم تھا تو وہاں دور دراز جنگلی، صحرائی، پہاڑی اور ساحلی علاقوں میں دعوت و تبلیغ کے لیے جانے کا موقع ملتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک دور دراز گاؤں میں جانا ہوا تو وہاں ایک مدرسہ دیکھا۔ اندر جانے پر ایک یورپی بزرگ نے استقبال کیا۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ مدرسے میں ایک یورپین مسلمان بطور معلم کام کررہا ہے۔ جب ان سے تعارف ہوا تو پتا چلا کہ انھیں کسی مبلغ نے مسلمان نہیں کیا بلکہ ترکی کی سیاحت کے دوران ترکی کی مشہور تاریخی مسجد المعروف نیلی مسجد نے انھیں اسلام کی طرف راغب کردیا۔ اس مسجد کی تعمیر دیکھ کر یہ یونانی سیاح مسلمان ہوگیا اور مائیکل سے عبداللہ بن گیا۔ اس نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعلیمات ایک مصری ڈاکٹر سے حاصل کیں اور پھر مصر سے ہوتا ہوا کینیا پہنچا۔ اب زندگی کا یہی مشن ہے کہ غیر مسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے، اور جو اسلام قبول کریں انھیں تعلیماتِ اسلامی سے روشناس کرایا جائے۔
اسکاٹ لینڈ (یو کے) راچڈیل کے شہر میں ایک مسجد کا نام ترکی کی اسی مشہور و عظیم الشان تاریخی مسجد Blue Mosque کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ترکی کی مسجد تو خیر بہت خوب صورت ہے۔ اس کی تعمیر میں بادشاہِ وقت کی ذاتی دلچسپی اور خصوصی ذوق کے ساتھ شاہی خزانے کے وسائل اور بہترین و مشاق ماہرینِ تعمیرات کی خدمات حاصل تھیں۔ راچڈیل کی یہ مسجد بھی بہرحال بہت خوب صورت ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے آباد بھی ہے۔ تازہ ترین خبر جس نے اہلِ اسلام کے دلوں کو ٹھنڈا کردیا ہے اور اہلِ کفر اس سے تلملا رہے ہیں، حال ہی میں منظرعام پر آئی ہے۔ اس خبر کے مطابق بھارت میں ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کرنے والے ہندوؤں میں سے کئی ایک اسلام کی آغوش میں آگئے ہیں۔ یہ ایمان افروز خبر جو پریس میں چھپ چکی ہے، قند مکرر کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے:
’’ممبئی (این این آئی) ایودھیا میں 25 سال قبل 6 دسمبر1992ء کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بلبیر سنگھ قبولِ اسلام کے بعد محمد عامر بن چکا ہے۔ محمد عامر صاحب روایتی نہیں، حقیقی مسلمان ہیں۔ حالتِ کفر میں کیے گئے اپنے اس فعل کے کفارہ کے طور پر انھوں نے 100 مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا ہے اور اب تک 35 مساجد تعمیر کرا چکے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بلبیر سنگھ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اپنے ضمیر کے قیدی بن گئے تھے۔ انھوں نے دل میں ایمان کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنے اس گناہ پر معافی مانگ لی۔ انڈین میڈیا کے مطابق محمد عامر کا تعلق ہریانہ کے علاقے پانی پت کے ایک گاؤں سے ہے۔ ان کے خاندان نے نقل مکانی کرکے شہر کا رخ کیا۔ حال ہی میں انھوں نے بتایا کہ بچپن سے وہ آر ایس ایس کی مقامی شاخ سے وابستہ رہے اور پھر شیوسینا میں شمولیت اختیار کرلی۔ انھوں نے بتایا کہ بابری مسجد پر ہتھوڑا چلانے کے ساتھ ہی ان کی بے چینی بڑھ گئی۔ اس دوران طبیعت مزید بگڑی اور دوستوں نے مسجد کی شہادت کے بعد پانی پت منتقل کیا۔
انھوں نے بتایا کہ میرے والد کو میری اس حرکت کا پتا چلا تو ناراض ہوئے اور کہا کہ ایک استاد کے بیٹے نے ایک غلط کام میں حصہ لیا۔ میرے دل کو کسی طرح سے چین نہیں تھا۔ میں نے دماغی حالت بگڑنے کے ڈر سے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اُس نے مجھ پر واضح کردیا کہ میری یہ بے چینی موت کا باعث بن سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت میں شامل ان کا ایک ساتھی پاگل ہوگیا تھا۔ محمد عامر نے بتایا کہ جب تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرکے خود کو اسلام میں داخل کرلیا۔ 27کارسیوکوں نے میرا ساتھ دیتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ (روزنامہ نوائے وقت، 4جنوری 2018ء)
آج دنیا میں اسلامو فوبیا نے ٹرمپ، مودی اور ان جیسے متعصب اسلام دشمنوں کو پاگل کررکھا ہے۔ وہ اسلام کے خلاف ہر روز زہر اگلتے ہیں۔ امتِ مسلمہ قیادت سے محروم اور اعلیٰ اخلاق و کردار سے دور ہے، لیکن اللہ کے گھر مساجد، اس کا کلام قرآنِ عظیم الشان اور اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ غالب و فاتح ہے۔ دشمن جتنی چالیں چل لیں، اللہ کا دین مغلوب نہیں ہوسکتا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الاسلام یعلوولا یعلیٰ علیہ اسلام کا مقدر غلبہ ہے مغلوبیت نہیں۔