رسا چغتائی بھولے بھالے رسا بھائی

ڈاکٹر طاہر مسعود
ہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اہم قیمتی ادیب شہیر یا شاعر ہمارے درمیان موجود ہو تو اس کی زندگی اور ہمارے بیچ موجودگی اسے غیر اہم اور ناقابلِ توجہ تو نہیں بناتی، بس یہ اطمینان رہتا ہے کہ یہ تو ہیں ہی، کبھی اطمینان سے مل لیں گے۔ یہ اطمینان زندگی کا طول کھینچتا ہے اور وہ جسے اہم اور قیمتی سمجھتے تھے، جس کی موجودگی سے کچھ روشنی، تھوڑا بہت اجالا ماحول میں گردوپیش میں ہوتا تھا، سنائونی موت کا بلاوا آکر اسے ہم سے جدا کردے تو یہی اطمینان زندگی بھر کا ایک پچھتاوا اور قلق بن جاتا ہے۔ رسا چغتائی بھی ان ہی میں شامل ہوگئے کہ یہ سن کر کہ وہ نہیں رہے، ایک جھٹکا سا لگا، چند لمحے کے لیے سہی کہ اب رسا بھائی سے کبھی نہ مل سکیں گے۔ ان سے شعر سننے کی مسرت اب کبھی ہاتھ نہ آسکے گی۔
رسا چغتائی، کہ باکمال شاعر اور نہایت شریف و وضع دار انسان تھے، اپنے دوستوں، مداحوں اور چھوٹوں میں بھی رسا بھائی کہلاتے تھے۔ میری کبھی ان سے قربت یا صحبت ایسی نہیں رہی کہ ان کی بابت تفصیل سے کچھ بتاسکوں۔ بے شک میں نے انہیں دیکھا تھا، کبھی سلیم بھائی (سلیم احمد) کے کھلے مکان میں، جہاں ہر کوئی آجا سکتا تھا، اور کبھی قمر بھائی (قمر جمیل) کے فلیٹ میں، وہاں بھی آنے کے لیے کسی پیشگی اطلاع و اجازت طلبی کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ ان دونوں گھروں میں انہیں میں نے شاعروں، ادیبوں کے درمیان خاموش، بالکل چپ چاپ کسی کونے میں بیٹھا پایا۔ ممکن ہے وہ پُرگو ہوں، باتیں کرنے کے عادی ہوں، لیکن میرے حافظے میں وہ ہمیشہ ایک خاموش طبع آدمی یا شاعر کے طور پر محفوظ رہے۔ البتہ کئی ایک محفلوں میں اصرار کرنے پر غزل ان سے سننے کی سعادت حاصل ضرور رہی۔ مشاعروں میں جانے کی اِس خاکسار کو عادت ہے اور نہ شوق، کہ اپنے حساب کتاب میں شاعری تنہائی میں پڑھنے میں جو مسرت بخشتی ہے، بھیڑ بھڑکے میں، داد و تحسین اور واہ واہ کے شور میں اس کا لطف کہاں! اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ ناچیز مشاعرے کی اہمیت اور اس کی تہذیبی قدروقیمت کا منکر ہے۔ بس اپنی اپنی طبیعت کی بات ہے۔
رسا چغتائی کی شاعری سے اوّلین تعارف اُن کے پہلے شعری مجموعے سے ہوا۔ غزلیات کا یہ مجموعہ ’’ریختہ‘‘ کے عنوان سے غالباً شکیل عادل زادہ مدیر ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ کی سرپرستی و نگرانی میں چھپا تھا۔ مجموعے میں جو غزلیں آب و تاب سے شامل تھیں، ان کا تو کہنا ہی کیا، لیکن جو شعر دل میں ترازو ہوگیا اور آج تک کہ جب بھی اسے پڑھتا اور یاد کرتا ہوں تو کیفیت ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسی پہلی بار پڑھنے پر ہوئی تھی ؎
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
غزلوں میں ’’انتظار‘‘ کی کیفیت و شدت پر اب تک صدہا اشعار کہے گئے ہیں، خوب سے خوب تر، مگر رسا بھائی کی غزل کے اس مطلع میں جو کیفیت ہے اسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے بیان کرتے ہی شعر میں پوشیدہ کسک اور خلش اور ساتھ ہی انتظار کہ اس میں جانگسل کیفیت سے زیادہ نشاطیہ لذت بھی ہے، زائل ہوجانے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ’’ریختہ‘‘ کے مطالعے سے پہلے میں نے رسا بھائی کو دیکھا تھا، نہ ان کے کلام ہی سے واقف تھا۔ غالباً میں اُس زمانے میں یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا۔
قمربھائی کے گھر آمدورفت شروع ہوچکی تھی۔ ایک شام ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ایک صاحب کو دیکھا جو اپنے روپ و رنگت کے برعکس لباس میں ملبوس قمر بھائی کے پہلو کے صوفے پر بیٹھے تھے، یعنی رنگت تو ان کی بالکل سیاہ تھی مگر لباس ان کا سفید قمیص و پاجامہ تھا۔ سفید باریش کہ ریشِ مبارک ہلکی، آنکھیں کچھ سوئی سوئی سی، دیکھنے میں کچھ ’چپ چپ سے، پلکیں بیشتر وقت جھکی ہوئی… کچھ الگ تھلگ سے لگے، اس لیے کسی سے سرگوشی میں پوچھا بھی کہ یہ کون صاحب ہیں؟ جواب آیا ’’اچھا، تو تم انہیں نہیں جانتے! رسا چغتائی ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی ’’موسمِ بہار‘‘ والا شعر حافظے میں عود کرآیا۔ میں نے سوچا رخصت ہونے سے پہلے ان کا قرض اتاردوں گا۔ یہ قرض اتارنے کا قصہ یہ ہے کہ جب ہم کسی مصنف کی کتاب یا کسی شاعر کے اشعار سے مسرت کشید کرتے ہیں، کوئی دانائی یا عقل مندی کی بات سیکھتے ہیں تو یہ جو ہماری شخصیت میں اضافہ سا ہوجاتا ہے، یہ ہمیں شاعر یا ادیب کا مقروض بنادیتا ہے۔ اس قرض کو اتارنے کا سلیقہ اور قرینہ یہی ہے کہ ہم اس شاعر یا ادیب تک اپنے تہنیتی جذبات خلوصِ دل اور خلوصِ نیت کے ساتھ پہنچادیں۔ یہ کم سے کم ہے کہ جو ہم کرسکتے ہیں یا جو کرنا چاہیے۔ اسی لیے محاورے میں ’’سکوت سخن شناس‘‘ کی بڑی مذمت کی گئی ہے کہ جو کلام کے حسن قبح سے واقف بھی ہو اور خاموش رہ کر سخنور کی حوصلہ شکنی کرے، اس سے برا کوئی اور ہو نہیں سکتا۔ اب کے احوال یہ ہیں کہ داد و تحسین دینا تو دور کی بات، بسا اوقات یہ ظاہر کرنے میں بھی بخل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ مخاطب کی کتاب نظروں سے گزری بھی ہے اور پڑھی بھی ہے، مبادا یہ اعتراف ہمیں مخاطب کی نظروں سے گرا دے، کہیں ہم کچھ چھوٹے نہ ہوجائیں یا ہماری ہیٹی نہ ہوجائے۔ یہ مشاہدہ ہی نہیں تجربے کی بات ہے، چاہے کسی سادہ دل کو یہ بات کتنی ہی تعجب خیز کیوں نہ محسوس ہو، مگر ہے سچی۔ تو محفل جب قمر بھائی کے ڈرائنگ روم کی برخواست ہونے لگی تو میں اٹھا اور رسا بھائی کے قریب گیا، اور جھک کر ان کے قریب ہوکر آہستگی سے اپنا تعارف کرایا اور ان کے کلام کی، خصوصاً موسم بہار والے شعر کی کم سے کم لفظوں میں جتنی داد دے سکتا تھا، دی اور پھر اپنے گھر کی راہ لی۔ تعریف سن کر رسا بھائی کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ ابھری اور ریشِ مبارک سے ڈھکے ہوئے زیر لب غروب بھی ہوگئی۔ جس کی تعریف کی جائے اُس کا بھی دل گواہی دے کہ یہ سچی تعریف ہے کہ یہ دل اس تعریف کا منتظر ہے، اور ایسی تعریف ایک بے پناہ مسرت سے آدمی کو ہمکنار کردیتی ہے۔ یہ جو آدمی ہے یہ شعر کیوں کہتا ہے؟ تصویر کیوں بناتا ہے؟ سُرتال سے نغمہ کیوں ترتیب دیتا اور گائیکی سے دلوں میں سوزو درد کی کیفیات کیوں پیدا کرتا ہے؟ صرف اس لیے کہ کہیں سے تو گواہی آئے گی کہ ’’کیا خوب، واہ، کمال کردیا‘‘۔ اگر یہ بھی نہ ہو تو میرؔ کو کیا پڑی تھی کہ درد و غم جمع کرکے دیوان بناتے! اور غالب کو یہ شکوہ کیوں ہوتا کہ بے گانگیٔ خلق سے بے دل نہ ہو غالب… تسلی کے لیے خود سے کیوں کہنا پڑتا ہے کہ تیرا نہیں کوئی تو میری جان خدا ہے۔
تو عزیزو! جب کسی شاعر کا کلام اچھا لگے، یہاں تک کہ کوئی دو میٹھے بول، بول دے تو اُس کا خود کو مقروض جانو۔ اور اپنے دل کی مسرت کا صدقہ دو۔ اپنے بھائی کی تعریف و تحسین سے بڑا صدقہ کیا ہوگا۔
قمر بھائی کے گھر کی اس شام کے بعد مدتوں رسا چغتائی سے کہیں ملنا نہ ہوا۔ شاید ایک آدھ بار ریڈیو اسٹیشن کی کسی بزم میں ان کو دیکھنا نصیب ہوا ہو۔ مگر سچ یہی ہے کہ ان سے ملاقات اور بات چیت یا رفاقت و صحبت کی کبھی کوئی خواہش پُرزور طریقے سے اندر سے ابھری ہی نہیں۔ جب خیال اُن کا آیا یہی آیا کہ رسا بھائی ملنے ملانے سے زیادہ پڑھنے پڑھانے کے منصب پر فائز کیے گئے ہیں لہٰذا اُن سے ملنے کی فکر نہ کرو، انہیں پڑھنے کی تگ و دو کرو۔ لکھنے والا شاعر ہو یا افسانہ نگار… وہ اپنے لفظوں کے پیچھے ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ لکھا ہوا کوئی لفظ بے خیالی ہی میں سہی، کبھی بے معنی نہیں ہوتا۔ تو میں ادبی رسائل میں جب کبھی رسا بھائی کی کوئی غزل چھپتی، شوق سے پڑھتا۔ روایتی شاعری میں بھی وہ اپنی انفرادیت سے ایسے اشعار نکال لیتے تھے کہ پڑھنے والے کو ایسا لگتا کہ یہی تو وہ خیال یا تجربہ تھا جس کی تلاش تھی، جس کی بوباس میں ایسی کوئی اجنبیت بھی نہیں۔
ہاں مگر ایک سانحہ ایسا ہوا کہ جس کا دوش دوسرے تو قمر بھائی کو دیتے ہیں خصوصاً رسا چغتائی اور رئیس فروغ کے حوالے سے کہ دونوں ہی غزل کے بہت اچھے شاعر تھے، ان دونوں کو بہ قول کسے قمر بھائی کی صحبت کھا گئی کہ دونوں غزل کہنا چھوڑ کر نثری نظم کے پیچھے پڑ گئے۔ میں ہرگز نثری نظم کے خلاف نہیں، لیکن ناقدین کی بات میں بڑا وزن ہے کہ ان دونوں شعرا یعنی رسا چغتائی اور رئیس فروغ کا مزاج، ان کی تہذیب و تربیت، ان کی شاعری کا موڈ کسی طرح بھی نثری نظم نگاری سے لگّا نہ کھاتا تھا۔ دونوں روایتی شاعری کی تہذیب سے جڑی ہوئی شخصیتیں تھیں۔ جبکہ نثری نظم نگاری جو ابھی تجرباتی مرحلے میں تھی، اس کے گیسو ابھی سنوارے جارہے تھے، اس کی حدود اور اندازو مزاج کو ابھی طے ہونا تھا، اورجو ابھی مخالفتوں کی آندھی میں ٹھیک سے پنپنے بھی نہ پائی تھی، لہٰذا نوجوان شعراء نے نثری نظم کو ہاتھ لگایا یا اس سے ہاتھ ملایا تو وہ اس نئی صنفِ سخن کے لیے اپنے عہد کے مزاج اور اپنی جواں خیزی میں یوں درست تھا کہ انہیں کچھ کھو کر، کچھ چھوڑ کر اس نئے تجربے میں نثری نظم کے آنا نہیں تھا۔ ان کی تو بیشتر صورتوں میں شروعات ہی اسی صنفِ سخن سے ہوئی تھی یا ہورہی تھی۔ رسا چغتائی اور رئیس فروغ اپنی عمر اور شاعرانہ حیثیت میں خاصے سینئر تھے اور غزل گوئی میں اپنی پہچان اور اپنا مقام بناچکے تھے۔ ان ہی دنوں قمر بھائی کے ہاں ایک محفل میں پہلی اور آخری بار میں نے رسا بھائی سے ایک نثری نظم سنی اور میں اتھاہ مایوسی میں ڈوبا کفِ افسوس مَلتا رہ گیا۔ نثری نظم کیا تھی ایک لطیفہ تھا۔ نظم کچھ اس قسم کی تھی: شیر کا خواب، بکری میرے کان چاٹ رہی ہے۔ ممکن ہے نظم ہوبہو یہی نہ ہو مگر خیال یہی تھا۔ قمر بھائی جنہوں نے بہت بعد میں میرے ایک انٹرویو میں نثری نظم کی ناکامی کا اعلان کیا، تب وہ نثری نظم کے مستقبل سے بہت پُرامید تھے، انہوں نے عادت کے مطابق رسا بھائی کی مذکورہ نظم کو داد و تحسین سے نہ صرف نوازا بلکہ اس کے معنی و مفہوم میں بھی یونان سے مغرب تک ساری شاعری کو اس نظم کے مقابلے میں بالائے طاق رکھ دیا۔ مجھے رسا بھائی پر رحم آیا، اور ترس بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس درجے کا صدمہ کیوں ہوا کہ میں نثری نظم کا مخالف تب تھا نہ اب ہوں۔ بات فقط اتنی تھی کہ جیسے اردو کے ایک اہم قابلِ ذکر شاعر اختر الایمان نے کبھی غزل نہیں کہی کہ وہ مزاجاً نظم کے شاعر تھے، اسی طرح کئی شاعر طبیعتاً غزل ہی کے شاعر ہیں جن سے نظم نہیں ہوتی مثلاً انور شعور۔ یہ فیصلہ ہر شاعر کو خود کرنا پڑتا ہے کہ اس کی صنفِ سخن کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے۔ لیکن اب میں قمر بھائی کی خطابت کو مورد الزام ٹھیرائوں گا کہ جو اُن کے قریب آتا تھا، اُن کے فنِ خطابت کے دام میں پھنس کر اُن کا گرفتار ہوجاتا تھا۔ تو رسا چغتائی ہوں یا رئیس فروغ، ان کے ساتھ جو کچھ ہوا خواہ اچھا یا برا، لیکن یہ ضرور ہے کہ رسا بھائی کو مہلت ِعمر ملی، کہ دادا(رئیس فروغ) کو تو وقت ہی نہ ملا اور وہ دنیا سے چلے گئے، لیکن اول الذکر نے اپنا سمبندھ غزل سے قائم رکھا اور شعر کہتے رہے۔ یہ فیصلہ کہ کس شاعر کا قدوقامت کیا ہے، وقت ہی کرتا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ شاعر اگر اپنے ایک شعر کی بدولت بھی دلوں میں زندہ رہ جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ شعر و سخن کی طرف رخ کرکے زندگی کام آگئی، وقت ضائع نہ ہوا… اور رسا چغتائی کی تو غزلوں کی غزلیں ایسی ہیں جو ان تعزیتی کالموں میں پڑھی جاسکتی ہیں جو ان پر لکھنے والوں نے حوالے کے لیے درج کی ہیں۔
خدا ان کی روح کو آسودہ حال رکھے، خوب شاعراور خوب انسان تھے!
رسا چغتائی کے اشعار
زندگی کا سفر کٹا تنہا
اک کہانی سی رہ گزر نے کہی
*****
ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے میں
اپنا نہ کہوں اور وہ اپنا مجھے سمجھے
*****
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں اُن آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
*****
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل
تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا
*****
پھول کھلنے کا عجب موسم تھا
آئینہ دیکھ رہا تھا میں بھی
*****
سنتے آئے تھے قصۂ مجنوں
اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا
*****
یا ابھی بادباں نہیں کھولے
یا سمندر ابھی نہیں آیا
*****