ہمیں ماہر لسانیات ہونے کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا، بس کبھی کبھار ’’پنگا‘‘ لے لیتے ہیں۔ گزشتہ شمارے میں ہم نے لکھا تھا کہ ’اطراف‘ کا مطلب ہے دو طرف، چناں چہ کئی اطراف اور چاروں اطراف لکھنا غلط ہے۔ اس پر دو ماہرینِ لسانیات، ادیب اور اہلِ علم میں نمایاں مقام رکھنے والے افراد نے گرفت کی ہے۔ ان میں سے پہلے تو عربی اور اردو پر استادانہ گرفت رکھنے والے محترم عبدالغفار عزیز ہیں۔ ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کہ اس طرح ان کے قلم پر ہمارا نام تو آیا۔ برسوں پہلے ان سے منصورہ میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی جو ہمیں تو یاد رہ گئی لیکن انہیں یقینا یاد نہیں ہوگی کہ ان سے ملنے والے بہت۔ بہرحال وہ لکھتے ہیں کہ:
’’آپ سے یک طرفہ ملاقات اکثر و بیشتر رہتی ہے۔ آج الحمدللہ براہِ راست مخاطب ہونے کا شرف بھی مل گیا۔
فرائیڈے اسپیشل کے تازہ شمارے (5تا11جنوری) میں خوشی کے شادیانوں سے شروع ہونے والی توجہ اطراف و اکناف تک جا پہنچی، زہے نصیب۔ آپ کی تحریر پر کوئی تبصرہ تو گستاخی سمجھتا ہوں لیکن اطراف کا مطلب ’’دوطرف‘‘ ہوسکتا ہے ایک بالکل نئی بات تھی۔ ہوسکتا ہے اہلِ زبان اس کی کوئی تاویل بھی بیان کردیں، لیکن عربی قواعد کے مطابق ’’دوطرف‘‘ کے لیے طرفین اور جمع کے لیے اطراف ہی لکھا جائے گا۔ بعینہٖ یہی صورت کنف کی ہے۔ اسی طرح قلم: اقلام۔ رقم: ارقام۔ علَم (پرچم): اعلام۔ بدن: ابدان… سورہ رعد کی آیت 41 میں ارشاد ہوتا ہے: ’’أولم یرو أنا نأتی الأرض ننقصھا من أطرافھا‘‘ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں (یعنی مخالفینِ اسلام پر چاروں طرف سے حلقہ تنگ ہوتا چلا جارہا ہے)۔ اطراف کے بجائے چاروں طرف لکھنا یقینا زیادہ موزوں ہوسکتا ہے لیکن طرف کی جمع اطراف ہی رکھنا پڑے گی۔ بہرحال ایک بار پھر بہت شکریہ۔
اللہ کرے کبھی آپ سے مفصل ملاقات کا موقع نصیب ہو۔ یہ سطور تو صرف ادائے امانت کے لیے سپردِ قلم کردیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل اور حسنات و برکات میں اضافہ فرمائے۔
اُمید ہے مشفقانہ دُعائوں سے نوازتے رہیں گے۔‘‘
دوسری توجہ اسی موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف جناب کلیم چغتائی نے مبذول کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’زباں بگڑنے کے خوف سے زیادہ ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ پڑھ ڈالنے کے شوق کے زیرِاثر، فوراً فرموداتِ اطہر والا صفحہ کھولا۔ اس بار آپ نے ’’خوشی کے شادیانے‘‘ بجانے یا بجوانے پر معقول گرفت فرمائی ہے۔ اس بار کی تحریر (یا کالم) پڑھ کر دل میں واقعی شادیانے بجنے لگے، کیونکہ تحریر بہت دلچسپ اور شگفتہ تھی، خصوصاً ’’غاز‘‘ اور ’’گیس‘‘ کے ’’آبا و اجداد‘‘ کے بارے میں پڑھ کر معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔
میرا یہ منصب تو نہیں، لیکن چونکہ معاملہ افادۂ عام کا ہے جسے ہماری غفلت سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہوسکتا ہے، اس لیے استادِ محترم کی توجہ بصد ادب و احترام دلانا ضروری ہے۔
استادِ محترم نے اس شمارے میں تحریر فرمایا ہے:
’’ہم نے اپنے ساتھیوں کو کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ’’اطراف‘‘ کا مطلب ہے ’’دوطرف‘‘۔ چناں چہ، کئی اطراف اور چاروں اطراف لکھنا غلط ہے… اسی طرح ’’اکناف‘‘ کا مطلب ’’اطراف یا طرفین ہے‘‘۔
گستاخی معاف، مجھے آپ کا یہ ارشاد پڑھ کر قدرے بے چینی سی محسوس ہوئی، کیونکہ میرا خیال تھا کہ ’’اطراف‘‘ جمع ہے ’’طرف‘‘ کی، یہ تثنیہ نہیں، البتہ ’’طرفین‘‘ کو ہم ’’دو جانب‘‘ کہیں گے۔ میں نے ایک اور استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر حافظ احسان الحق صاحب (سابق صدر شعبۂ عربی، جامعہ کراچی) سے رہنمائی چاہی۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’اطراف‘‘ کے معنی ہیں: ہر طرف، چہار سُو۔ اس لفظ کے ساتھ دو، تین، چار، یا ہر لگانا غلط ہے، یہ خود ہر جانب کی نشاندہی کررہا ہے۔ انہوں نے ’’کنف‘‘ کے معنی ’’کونا یا جانب‘‘ بتائے اور ’’اکناف‘‘ سے مراد ہے تمام جانب۔
میں نے نوراللغات دیکھی، مولوی نورالحسن نیر صاحب نے اطراف کے معنی لکھے ہیں: عربی کا لفظ ہے، طرف کی جمع ہے: سمت، حوالی، کنارے۔
فرہنگ آصفیہ میں بھی یہی معنی ہیں اور اطراف کو عربی زبان کا اسمِ مؤنث باندھا ہے۔ (اس سے تو یہ مطلب نکلا کہ ’’اس کی اطراف‘‘ کہنا درست ہوگا؟)
آخر میں دو چھوٹی سی باتیں۔
آپ نے اطراف کی اصلاح فرماتے ہوئے ’’چناں چہ‘‘ لکھا ہے، معلوم نہیں آپ نے، یا کمپوزر یا پروف ریڈر صاحبان، یا سب ہی نے) محترم رشید حسن خان کا ’’ادبی مسلک‘‘ اختیار کرلیا ہے! میں بہرحال اس مسلک سے اختلاف کرتا ہوں۔ میری ادنیٰ رائے میں جو معروف طریقہ ہے اور جس سے ابلاغ بہتر طور پر ہورہا ہے وہی بہتر ہے۔ چنانچہ، ’’چنانچہ‘‘ کی چیر پھاڑ اور اس کے ’’بخرے‘‘ کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا۔
دوسری بات: آپ کے کالم کا عنوان ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ ہے لیکن کاتب صاحب (یا کمپوزر صاحب) نے اسے ’’خبر لیجیے، زباں بگڑی‘‘ لکھا ہے۔ اس طرح زباں تو نہیں بگڑتی لیکن وزن ضرور بگڑ جاتا ہے۔ جو مزا ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کہنے میں ہے وہ ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ میں کہاں!
مزید آخر میں یہی کہہ کر جان بچائی جا سکتی ہے کہ ’’زیادہ حدِّ ادب!‘‘
بہت دعاگو…کلیم چغتائی‘‘
ان اصحاب کا بہت شکریہ۔ ہم بھی الفاظ کی چیر پھاڑ نہیں کرتے کیوں کہ الفاظ بھی تصویر کی مانند ہوتے ہیں۔ ٹکڑے کرنے کا یہ سلسلہ حکیم محمد سعید مرحوم نے شروع کیا تھا۔ اس پر ایک صاحب رضی الدین نے ہمدرد کو ’’ہم درد‘‘ لکھ بھیجا، جس پر ہمدردوں نے خفگی کا اظہار کیا۔ جہاں تک خبر لیجے کا تعلق ہے تو غالب کے مشہور شعر میں بھی خبر لیجے ہے یعنی ’’خبر لیجے دہن بگڑا‘‘۔ ہم نے اسی مصرع میں ترمیم کرکے عنوان قائم کردیا۔
اطراف کے حوالے سے اب اتنے جید علما کی آرا سامنے آگئی ہیں کہ ہم سے جواب نہیں بن پڑے گا۔ لیکن خیال آتا ہے کہ پھر ’’اطراف و جوانب‘‘ کا مطلب کیا ہوگا؟ ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ اطراف کا مطلب ہوا دائیں، بائیں… اور جوانب‘ جو جانب کی جمع ہے اس کا مطلب ہے آگے پیچھے۔ اس طرح چاروں سمتوں کا تعین ہوجاتا ہے۔ مگر اب رجوع لانا پڑے گا۔ لغت کے مطابق ’اطراف‘ طرف کی جمع ہے اور مطلب ہے سمتیں، کنارے، طرفین وغیرہ۔ کلیم چغتائی، آپ کے فرمودات میں گستاخی کا کوئی پہلو نہیں اور اُمید ہے کہ آئندہ بھی رہنمائی کرتے رہیں گے۔
ماہرینِ لسانیات سے ہم چھیڑ چھاڑ سے عموماً گریز کرتے ہیں کہ کہیں الٹی آنتیں گلے نہ پڑجائیں۔ جانے اس محاورے کا مطلب کیا ہے۔ مثلاً ایک جملہ ہے ’’قدرے بے چینی سی…‘‘ ہمارے خیال میں قدرے کے بعد ’’سی‘‘ غیر ضروری ہے، لیکن کوئی بات نہیں۔ ایک اور ماہرِ لسانیات، علمِ عروض کے ماہر اور بہت اچھے شاعر جناب عزیز جبران انصاری کے ایک مصرع پر کسی نے توجہ دلائی ہے۔ مصرع ہے
اہلِ عشاق تو خوش ہیں کہ مری جان ہے تُو
اہلِ عشاق کیا ہوتا ہے، اس کی وضاحت تو محترم عزیز جبران ہی کریں گے۔