عدالتی فعالیت

پاکستان میں عوامی فلاح کے نقطۂ نظر سے طرزِ حکمرانی کی کیا صورتِ حال ہے، اس کا اندازہ عدالتِ عظمیٰ کی صرف ایک دن کی سماعت سے ہوجاتا ہے۔ صاف پانی، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی سہولتیں بھی حکومت شہریوں کو دینے میں ناکام ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ازخود نوٹسوں کی سماعت کی۔ عدالتِ عظمیٰ نے جن امور پر ازخو د نوٹس لیا ہے، ان میں صاف پانی کی فراہمی، اسپتالوں کی صورت حال اور نجی شعبے میں میڈیکل کالجوں کی منظوری اور مہنگی فیسوں جیسے مسائل شامل ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کی صرف ایک دن کی کارروائی کا مطالعہ کریں تو انتہائی تشویشناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ عوامی مسائل پر مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر صحت اور تعلیم پر توجہ نہ دی گئی تو اورنج لائن ٹرین اور دیگر منصوبے روک دیں گے، آرسینک اور آلودہ پانی پلایا جارہا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بینچ نے صاف پانی، مضر صحت دودھ، غیر قانونی میڈیکل کالجوں اور شادی ہالوں سے متعلق ازخود نوٹسز کی سماعت کی۔ ڈائریکٹر پی سی ایس آئی آر نے پانی کے لیے گئے نمونوں کی رپورٹ پیش کی اور انکشاف کیا کہ چیف جسٹس کے چیمبر سے لیے گئے پانی کے نمونے آلودہ ہیں۔ چیف جسٹس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ابھی تک اپنی ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کرسکی! پانی کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے گئے پھر بھی شہریوں کو آلودہ پانی پلایا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آرسینک زہر ہے اور ہمیں زہر پلایا جارہا ہے۔ کیا آپ کو پتا ہے بڑے شہروں کا آلودہ پانی کن ندیوں اور دریائوں میں جارہا ہے۔ جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ نجی کمپنیوں کو دیے جارہے ہیں۔ یہ بتائیں پچھلے دس سال میں کتنے نئے اسپتال بنائے؟ عدالت نے ملک بھر میں بھینسوں کو زائد دودھ کے حصول کے لیے لگائے جانے والے ٹیکوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگاتے ہوئے آئی سی آئی اور غازی برادرز کمپنیوں کا تمام اسٹاک فوری قبضے میں لینے اور تلف کرنے کا حکم دیا، جبکہ ٹی وائٹنر کو دودھ بتاکر فروخت کرنے والی کمپنیوں کو حکم دیا کہ ڈبوں پر واضح الفاظ میں ’’یہ دودھ نہیں ہے‘‘ تحریر کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں سے ہارمونل تبدیلیاں اور کینسر پھیل رہا ہے، ہماری بچیوں میں ہارمونل تبدیلیاں آگئی ہیں، وہ وقت سے پہلے بوڑھی ہورہی ہیں۔ کمپنیوں کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ٹی وائٹنر دودھ کا متبادل ہے، ٹی وائٹنر کے ڈبے کی تبدیلی کے لیے چار ماہ دیئے جائیں۔ عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 4 ماہ بہت زیادہ ہیں، ایک ماہ میں ڈبہ تبدیل کریں، پرانا اسٹاک ضائع کردیں۔ عدالت نے پنجاب حکومت کی دودھ سے متعلق اشتہاری مہم بھی روک دی، فاضل بینچ نے ملک بھر کی عدالتوں کو حکم دیا کہ وہ غیرقانونی شادی ہالوں کے حق میں حکم امتناعی نہ دیں، عدالت نے ہال مالکان کو ایک ماہ کا نوٹس دینے اور کارروائی کی ہدایت کردی۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ شہر کے 186 شادی ہالوں کا سروے کیا گیا جن میں سے صرف 9 کی تعمیر قانون کے مطابق نکلی ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ غیرقانونی شادی ہالوں کے مالکان کو نوٹس دیے جائیں اور جو غیرقانونی ثابت ہوں ان کو گرا دیا جائے۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے نشاندہی کی کہ حمید لطیف اسپتال کی تعمیر بھی غیرقانونی ہے۔ چیف جسٹس نے حمید لطیف اسپتال کی انتظامیہ سے کہاکہ 50 لاکھ روپے گلاب دیوی اسپتال کو امداد دیں، پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے، آپ کے اسپتال نے پیسے پورے نہ دینے تک اٹارنی جنرل کے بھائی کی ڈیڈ باڈی دینے سے انکارکردیا تھا۔ چیف جسٹس نے شہر میں سڑکوں کی بندش کا نوٹس بھی لیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے چیف سیکرٹری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی چھوٹا سا وی وی آئی پی ہوں، غالباً اس فہرست میں میرا تیسرا نمبر ہے، چیف سیکرٹری صاحب بتائیں بڑے صاحبان کے لیے رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جاتی ہیں؟ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ راستے بند کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بتایا جائے جوڈیشل کالونی میں کون بڑا رہتا ہے جس کے کہنے پر رکاوٹیں لگائی گئی ہیں؟ میرے گھر کے سامنے تو بھٹے والا بھی گزرتا ہے ، میں نے تو رکاوٹیں کھڑی نہیں کیں، بڑوں کے گزرنے پر راستے بند کیوں کیے جاتے ہیں؟ چیف جسٹس نے نئے میڈیکل کالجوں کی رجسٹریشن اور ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں پر بھی پابندی لگادی، جبکہ سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار کے ازخود نوٹس کیس میں ایم ایس حضرات کو 10 دن کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ جائیں اور جاکر کام کریں۔ سماعت کے دوران نجی میڈیکل کالجوں کے سربراہان اور مالکان پیش ہوئے اور کالجوں کی عمارتوں، فیس، اسٹرکچر اور لیب سہولیات سے متعلق بیانِ حلفی جمع کرایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسپتالوں میں نوکریاں کرنے والے ڈاکٹر پرائیویٹ کلینک کیوں چلاتے ہیں؟ پرائیویٹ کلینک چلانے والے ڈاکٹرز کے کلینک بند کروا دیں گے۔ چیف جسٹس نے رجسٹرڈ میڈیکل کالجوں کو تنبیہ کرتے ہوئے داخلوں کی اجازت دی کہ اگر زائد فیس وصول کی تو معافی نہیں۔ فل بینچ نے تمام سرکاری اسپتالوں کے ایم ایس سے اسپتالوں کی صورت حال، سہولیات کی فراہمی اور جان بچانے والی ادویات کی تفصیلات بیانِ حلفی سمیت طلب کرلیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تعلیم اور صحت پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ اسپتالوں میں مشینیں خراب ہیں اور کسی کو ہوش نہیں، دوائی تک میسر نہیں، ایک اسپتال میں مریض کو ٹانکا لگانا تھا اور دھاگہ نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ تمام سرکاری اسپتالوں کی آڈٹ رپورٹ جمع کرائیں جبکہ سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار بہتر بنانے سے متعلق پالیسی بن کر 15 روز میں رپورٹ پیش کی جائے۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ ینگ ڈاکٹرزں کی ہڑتال کے باعث مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو سرکاری ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک چلارہے ہیں وہ بند کروا دیں گے، چیف جسٹس نے سرکاری و نجی اسپتالوں کے دورے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا، جس میں سینئر ڈاکٹراور وکلا شامل ہوں گے، جبکہ حکومتِ پنجاب کی تشہیر کے لیے کیے گئے اخراجات کا ریکارڈ طلب کرلیا، چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب حکومت اپنی تشہیر پر کروڑوں روپے اشتہارات کی مد میں لگارہی ہے۔ اپنی مشہوری کے بجائے اسپتالوں کو ادویات فراہم کریں۔ مفت ادویات مل نہیں رہیں اور تشہیر پر پیسہ خرچ کیا جارہا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کی سماعت میں حکومتی ذمے داری اور فرائض کی چند جھلکیاں سامنے آئی ہیں۔ یہ سماعت ایک ایسے صوبے کی ہے جس کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ باقی تین صوبوں کے مقابلے میں حکومت کی کارکردگی بہتر ہے۔ حکومتی نظام کی کارکردگی اس موازنے سے سامنے آئی ہے کہ ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے بنائے گئے ہیں، لیکن بنیادی ڈھانچہ اپنے فرائض ادا نہیں کررہا جس کی وجہ سے عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر صاف پانی، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں فراہم نہ کی گئیں تو بڑے منصوبے بھی بند کرا دیے جائیں گے اور اس کے لیے صرف ایک ازخود نوٹس کی ضرورت پڑے گی۔