آداب جمعہ

حضرت ابو سعید خُدریؓ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان کو جمعہ کے روز غسل کرنا چاہیے‘ دانت صاف کرنے چاہئیں ‘ جو اچھے کپڑے اس کومیسر ہوں پہننے چاہئیں اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگانی چاہیے۔
(مسند احمد‘ بخاری‘ مسلم ‘ ابودائود ‘ نسائی)
حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان جمعہ کے روز غسل کرے اور حتی الامکان زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو پاک صاف کرے‘ سر میں تیل لگائے یا خوشبو گھر میں موجود ہو لگائے‘ پھر مسجد جائے اور دو آدمیوں کو ہٹا کر ان کے بیچ میں نہ گھسے‘ پھر جتنی کچھ اللہ توفیق دے اتنی نماز (نفل) پڑھے‘ پھر جب امام بولے تو خاموش رہے‘ اس کے قصور ایک جمعے سے دوسرے دوسرے جمعے تک معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری‘ مسند احمد)
قریب قریب اسی مضمون کی روایات حضرت ابو ایوب انصاری ؓ اور حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت نبیشۃ الھذلیؓ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ (مسند احمد‘ بخاری‘ مسلم‘ ابودائود ‘ ترمذی‘ طبرانی)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام خطبہ دے رہا ہوں اس وقت جو شخص بات کرے وہ اس گدھے کی مانند ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اور جو شخص س سے کہے کہ چپ رہ‘ اس کا بھی کوئی جمعہ نہیں۔ (مسند احمد)
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے جمعہ کے روز خطبے کے دوران میں بات کرنے والے شخض سے کہا ’چپ رہ‘تو تم نے بھی لغو حرکت کی۔ (بخاری‘ مسلم‘ نسائی‘ ترمذی‘ ابودائود)
اسی سے ملتی جلتی روایات امام احمد ‘ ابو دائود اور طبرانی نے حضرت علیؓ اور حضرت ابولدرداء ؓ سے نقل کی ہیں۔ اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہدایت فرمائی کہ لمبے لمبے خطبے دے کر لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود جمعہ کے روز مختصرخطبہ ارشاد فرماتے اور نماز بھی زیادہ لمبی نہ پڑھاتے تھے۔ حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم طویل خطبہ نہیں دیتے ٹھے۔ وہ بس چند مختصر کلمات ہوتے تھے۔ (ابودائود)
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ آپ کا خظبہ نما زکی بہ نسبت کم ہوتا تھا اور نماز اس سے زیادہ طویل ہوتی تھی (نسائی) ۔ حضرت عمار بن یاسرؓ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی نماز کا طویل ہونا اور خطے کا مختصر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ دین کی سمجھ رکھتا ہے (مسند احمد ‘ مسلم)۔ تقریباً یہی مضمون بزار نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے نقل کیا ہے۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح لوگوں کو جمعہ کے آداب سکھائے یہاں تک کہ اس نما زکی وہ شان قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی اجتماعی عبادت میں نہیں پائی جاتی۔
(تفہیم القرآن ‘ پنجم ص 502 ۔505 ‘ الجمعہ‘ حاشیہ 19)

رشک کے قابل صرف دو آدمی ہیں

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی حسد (یعنی رشک) کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر دو آدمیوں پر۔ ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا ہو اور وہ شب و روز اس کو لیے کھڑا ہو (یعنی نماز میں کھڑا پڑھ رہا ہو یا اس کی تبلیغ و تلقین کرنے اور اس کی تعلیم دینے میں مصروف ہو) اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ شب و روز اسےے اللہ کی راہ میں خرچ کر رہا ہو۔ (متفق علیہ)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جو بات اہل ایمان کے ذہن نشین کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کا دینوی عروج، خوشحالی اور ناموری کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر رشک کیا جائے۔ رشک کے قابل صرف دو آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے قرآن کا علم حاصل ہو اور وہ اسے شب و روز نماز میں پڑھنے کے لیے کھڑا ہو یا اس کام میں لگا ہو کہ خلق خدا کو اس کی تعلیم دے اور اس کی تبلیغ و تلقین کرے۔ دوسرا وہ شخص قابل رشک ہے جسے مال و دولت حاصل ہو اور وہ اسے عیاشیوں اور دوسرے غلط کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے شب و روز اللہ کی راہ میں خرچ کر رہا ہو۔