امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ ٹاور میں عمارت کے بالائی حصے میں نصب ایئرکنڈیشنڈ اور ہیٹنگ سسٹم میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس نے متعلقہ منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، آتشزدگی کے باعث کثیر المنزلہ عمارت دھویں سے بھر گئی۔ اس واقعے میں ابتدائی طور پر دو افراد کو زخمی حالت میں نکالا گیا ہے۔
بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ہندو کا قبولِ اسلام
اجودھیا میں 25 سال قبل 6 دسمبر 1992ء کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بلبیر سنگھ قبولِ اسلام کے بعد محمد عامر بن چکے ہی اور اپنے اس فعل کے کفارہ کے طور پر انہوں نے 100 مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا ہے، اور اب تک 35 مساجد تعمیر کرا چکے ہیں۔ روہتک یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، تاریخ، سیاسیات اور انگریزی میں ایم اے بلبیر سنگھ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اپنے ضمیر کے قیدی بن گئے تھے۔ انہوں نے دل میں ایمان کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنے اس گناہ پر معافی مانگ لی۔ انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق محمد عامر کا تعلق ہریانہ کے علاقے پانی پت کے ایک گاؤں سے ہے۔ ان کے خاندان نے ہجرت کرکے شہر کا رخ کیا۔ حال میں ممبئی سے قریب مالیگاؤں کے دورانِ سفر انہوں نے بتایا کہ بچپن سے وہ آر ایس ایس کی مقامی شاخ سے وابستہ رہے اور پھر شیوسینا میں شمولیت اختیار کرلی۔ بال ٹھاکرے نے انہیں متعارف کرایا تھا۔ محمد عامر کا کہنا ہے کہ بابری مسجد پر ہتھوڑا چلانے کے ساتھ ہی ان کی بے چینی بڑھ گئی لیکن مسلمانوں کے بارے میں دل ودماغ میں بھری نفرت نے مسجد پر مزید وار کرنے پر اکسایا اور اس درمیان طبیعت مزید بگڑی اور دوستوں نے مسجد کی شہادت کے بعد پانی پت منتقل کیا، جہاں وہ دو اینٹ بھی ساتھ لے گئے جو کہ ابھی شیوسینا کے مقامی دفتر میں رکھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد کو میری اس حرکت کا پتا چلا تو انہوں نے گھر کے دروازے مجھ پر بند کردیے اور کہا کہ ایک استاد کے بیٹے نے ایک غلط کام میں حصہ لیا۔ محمد عامر نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد میرا ہر طرف استقبال کیا جاتا لیکن میرے دل کو کسی طرح سے چین نہیں تھا۔ میں نے دماغی حالت بگڑنے کے ڈر سے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے مجھ پر واضح کردیا کہ میری یہ بے چینی موت کا باعث بن سکتی ہے۔
سابق کارسیوک نے دل دہلا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ بابری مسجد کی شہادت میں شامل ان کا ایک ساتھی پاگل ہوگیا تھا۔ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو دیکھ کر کپڑے پھاڑنے لگتا تھا۔ محمد عامر نے بتایا کہ جب تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرکے خود کو اسلام میں داخل کر؎لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میرے ساتھیوں کو پتا چلا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے تو 27 کارسیوکوں نے میرا ساتھ دیتے ہوئے خود کو مسلمان بنا لیا۔ محمد عامر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد 100 مساجد کو تعمیر کرنے کا عزم کیا تھا جن میں سے وہ اب تک 35 مساجد تعمیر کرا چکے ہیں۔
ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کی حمایت بھی سنگین جرم
بھارت میں مسلمانوں کی تعریف کرنا بھی سنگین جرم بن چکا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کرناٹکا کے ضلع چیکماگلورکی رہائشی 20 سالہ دھنیا شری سوشل میڈیا کی ایپلی کیشن واٹس ایپ کے ایک پبلک گروپ میں گفتگو کررہی تھی کہ اس دوران مذہبی معاملات پر گفتگو ہونے لگی۔ دھنیا شری نے گروپ میں ’آئی لو مسلم‘ کا پیغام دیا۔ اس بات سے ناراض ہوکر ایک گروپ ممبر سنتوش نے اسے خبردار کیا کہ وہ مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ اس کے بعد ملزم نے چیٹنگ کا اسکرین شاٹ انتہاپسند بھارتی جنتا یووامورچہ اور بجرنگ دل جیسی دیگر ہندو تنظیموں تک پہنچایا، جس کے بعد بی جے پی کے یوتھ ونگ کے کچھ رہنما دھنیا شری کے گھر گئے اور اسے اور اس کے گھر والوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے الزام لگایا کہ دھنیا شری کا کسی مسلمان نوجوان کے ساتھ تعلق ہے۔ ان دھمکیوں کے اگلے ہی دن دھنیا شری نے ذہنی دباؤ میں آکر خودکشی کرلی۔ پولیس کو دھنیا شری کی لاش کے پاس سے اُس کا تحریر کردہ نوٹ بھی ملا ہے، جس میں لکھا ہے کہ اس کا کسی مسلمان نوجوان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس واقعے نے اس کی زندگی برباد کردی ہے۔
تنخواہوں میں صنفی تفریق، بی بی سی کی ایڈیٹر کا استعفیٰ
بی بی سی کی چین کی ایڈیٹر کیری گریسی نے مرد ایڈیٹروں کے مقابلے میں اپنی تنخواہ میں برابری نہ ہونے کی وجہ سے چین میں ایڈیٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔انھوں نے بی بی سی کے ٹوڈے پروگرام کے دوران جو وہ جان ہمفریز کے ساتھ پیش کررہی تھیں، بتایا کہ وہ 30 برس سے بی بی سی کے ساتھ منسلک ہیں۔ اتوار کو ایک کھلے خط میں انھوں نے بی بی سی پر الزام لگایا تھا کہ یہاں ایک ’خفیہ اور غیر قانونی تنخواہ دینے کا رواج ہے‘۔ انھوں نے لکھا کہ جب انھوں نے بی بی سی کو کہا کہ چاروں انٹرنیشنل ایڈیٹروں کو برابر تنخواہ دینی چاہیے، تو بی بی سی نے میری تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کردیا لیکن وہ بھی برابری سے بہت کم تھا۔‘
پاکستان کے خلاف ٹرمپ کی فردِ جرم کی تصدیق
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو نے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے اور امریکہ کو یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے۔معروف امریکی پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں بات کرتے ہوئے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا امریکہ کو قبول نہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ نے کہا کہ اگر پاکستان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ہمیں پاکستان کے ساتھ دوبارہ کام کرنے میں خوشی ہوگی ورنہ ہم امریکہ کا تحفظ کریں گے۔
چھ لاکھ افراد کے لئے ایک لائبریری
ہم خود کس طرح نوجوانوں کو علم اور کتاب سے دور رکھنے کی سازش کررہے ہیں۔پنجاب کی 12کروڑ آبادی کے لیے صوبے بھر میں کُل 176 پبلک لائبریریاں ہیں۔ اس لحاظ سے تقریباً چھے لاکھ افراد کے لیے ایک لائبریری ہے، اور یہ کوئی ایک سال میں قائم نہیں ہوئیں بلکہ 1947ء سے آج تک وزیراعلیٰ کی سرتوڑ کوششوں اور ہر تحصیل میں موجود میونسپل انتظامیہ، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، ویلفیئر آرگنائزیشن، پرنسپل لائبریریز، ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز اور کنٹونمنٹ بورڈ وغیرہ کا بھی حصہ ہے، اور یہ لائبریریاں نہ تو کوئی بڑی عمارتوں میں ہیں اور نہ ہی ایئرکنڈیشن۔ ان میں سے تو اکثر ایک کمرے پر مشتمل اور بوسیدہ حالت میں ہیں۔
کالم: عابد تہامی۔ روزنامہ جنگ، 8جنوری،2018ء)
بہاول پور، قیام پاکستان اور ہم
قیامِ پاکستان سے پہلے ریاست بہاول پور کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری ہوا جس پر ایک طرف نواب آف بہاول پور صادق محمد خان عباسی کی تصویر تھی تو دوسری طرف قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر۔ یہ دراصل قیامِ پاکستان سے پہلے ریاست بہاول پور کو پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان اور فیصلہ تھا۔ اس سے پہلے انگریز گورنمنٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے نواب آف بہاول پور نے مسلم لیگ کو دل کھول کر فنڈز مہیا کیے۔ اس طرح ریاست بہاول پور کی طرف سے علامہ اقبالؒ اور پاکستانی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو ریاست باقاعدگی کے ساتھ وظیفہ جاری ہوتا رہا۔ اس کے ساتھ نواب آف بہاول پور نے لاہور کی پنجاب یونیورسٹی، ایچ ای سن کالج اور دوسرے بہت سے فلاحی اداروں کو دل کھول کر امداد دی۔ آج بھی وہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ مختلف عمارتیں نواب آف بہاول پور کی مدد سے تعمیر ہوئیں۔
نواب آف بہاول پور نے اپنے کراچی کا الشمس اور البدر محل قائداعظم محمد علی جناح کو عطیہ میں دیا۔ آج وہاں گورنر ہائوس بنا ہوا ہے۔ اسی طرح جب پاکستان قائم ہوا تو نہرو نے کہا تھا کہ دیکھوں گا کہ پہلی تنخواہ کس طرح چلت کی جاتی ہے، تو نواب آف بہاول پور نے سات کروڑ روپے کی کثیر رقم پاکستان کے حوالے کی اور پاکستان کی کرنسی کی ضمانت بھی بہاول پور ریاست نے دی۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ قیام پاکستان سے پہلے ایک پاکستان تھا اور وہ پاکستان ریاست بہاول پور تھی۔ اسی طرح قائداعظم نے نواب آف بہاول پور کو محسنِ پاکستان کا خطاب دیا تھا۔ جب قائداعظم گورنرجنرل کی حیثیت سے کالم نگارحلف برداری کے لیے گئے تو اس موقع پر نواب آف بہاول پور نے اپنی گاڑی پیش کی۔
(کالم: عبدالجبار عباسی۔ روزنامہ خبریں، 9جنوری2018ء،کالم نگار سابق فوجی
اور سرائیکی صوبہ تحریک کے رہنما ہیں)
مسئلہ فلسطین اور او آئی سی
القدس کا مسئلہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے قیام کے بنیادی مقاصد میں سے تھا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے نام سے یہ 1969ء میں مراکش کے شہر رباط میں اُس وقت قائم کی گئی تھی جب یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں باقی ہے اور او آئی سی عملاً غیر فعال ہوچکی ہے۔ تاہم استنبول کے حالیہ اجلاس نے اس تنظیم میں ایک نئی جان ڈالی ہے۔ اس سے قبل کئی دوسری مسلم تنظیموں کے زیادہ فعال نظر آنے کی وجہ سے اس تنظیم کو متروک سمجھا جانے لگا تھا۔ مسلم دنیا کا اصولی مؤقف یہ رہا تھا کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے لہٰذا اس کا وجود تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات کے جبر اور امت کی داخلی کمزوریوں کے باعث اس مؤقف میں بھی ضعف آتا گیا اور نوبت اب یہاں تک آگئی ہے کہ حالیہ استنبول اجلاس میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل (یعنی اسرائیل اور بیت المقدس کے دارالحکومت والا فلسطین) پر زور دیا گیا ہے۔ یعنی اسرائیل کے قیام کو اب مشروط طور پر جائز تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کی امتِ مسلمہ اور خصوصاً عرب دنیا کی قیادت کی نظروں میں حقیقی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ سعودی سرکردگی میں نئے قائم شدہ مسلم فوجی اتحاد کے مقاصد میں فلسطین کے مسئلے کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
(اداریہ: پندرہ روزہ ’’نشور‘‘ کراچی)
روسی خاتون کا انکشاف
افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے دو سال تک ہم اس سے اکیلے مزاحمت کرتے رہے، امریکہ دو سال بعد سوویت یونین کے خلاف جنگ میں شامل ہوا جب اُْس کو یقین ہوگیا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے سکتے ہیں۔ پھرسوویت یونین کو وہاں شکست ہوئی، بلکہ اس خطرے کے پیش نظر کہ پاکستان اور امریکہ مل کر فرغانہ نامی ریاست کو معرضِ وجود میں لانے کے لیے سوویت یونین سے نبرد آزما ہوں گے، اس نے 15 ریاستوں کو آزاد کردیا۔ یہ بات مجھے نومبر 2005ء میں اُس وقت معلوم ہوئی جب بھارت کے شہر چندی گڑھ میں ایک روسی خاتون نے پانچ روزہ سیمینار میں اپنے مقالے میں انکشاف کیا۔ یہ ایک عالمی مذاکرہ تھا جس میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، کینیڈا، فن لینڈ اور دوسرے ممالک کے مندوبین شریک تھے جو زیادہ تر انٹیلی جنس برادری سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ پاکستان کا وفد سویلین مقررین پر مشتمل تھا جس میں میرے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود اور سفیر نجم الدین شیخ شامل تھے۔
(کالم: نصرت مرزا۔ روزنامہ جنگ،8جنوری2018ء)