مضامینِ فرحت

فرحت اللہ بیگ
.’1261 ہجری میں دہلی کا ایک مشاعرہ‘ سے اقتباس
پہلوانِ سخن کا کس بل
اس شاعر کا نام تو عبدالقادر تھا مگر شہر کا بچہ بچہ ان کو میاں بل کہتا تھا۔ ان کو بھی اپنی طاقت پر اتنا غرور تھا کہ کسی پہلوان کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ جس اکھاڑے میں جاتے وہاں خم ٹھونک کر آتے اور کسی کو ان کے سامنے خم ٹھونکنے کی ہمت نہ ہوتی۔ پہلوانی کی نسبت سے تخلص بلؔ رکھا تھا۔ پڑھتے اس طرح تھے کہ گویا میدانِ کارزار میں رجز پڑھ رہے ہیں۔ مشاعرے میں جو غزل پڑھی اس کا مطلع تھا:
کہہ دو رقیب سے کہ وہ باز آئے جنگ سے
ہرگز نہیں ہیں بار بھی کم اس دبنگ سے
(یعنی شاعری میں بھی دعوتِ مبارزت)
اس غرور ہی نے آخر ان کو نیچا دکھایا۔ ان کا روز روز اکھاڑے میں آکر خم ٹھونکنا لوگوں کو ناگوار گزرا۔ شیخو والوں کے استاد حاجی علی خاں نے ایک پٹھا تیار کیا۔ بدن میں تو کچھ ایسا زیادہ نہ تھا مگر دائوں پیچ میں طاق تھا اور پھرتی بلا کی تھی کہ کیا کہوں۔ ایک دن جو میاں بل نے حسبِ معمول شیخو والوں کے ہاں آکر خم ٹھونکے تو لونڈا کپڑے اتار، پینترا بدل سامنے آگیا اور خم ٹھونک ہاتھ ملانا چاہا۔ میاں بلؔ کو ہنسی آگئی۔ بھلا یہ پودنا میرا کیا مقابلہ کرے گا۔ ہاتھ ملانے میں تامل کیا۔ استاد علی جان نے کہا ’’کیوں بھئی ہاتھ کیوں نہیں ملاتے، یا تو ہاتھ ملائو یا پھر کبھی اس اکھاڑے میں آکر خم نہ ٹھونکنا۔‘‘ کہنے لگے ’’استاد جوڑ تو دیکھ لو، خواہ مخواہ اس لونڈے کو پسوانے سے حاصل!‘‘ استاد نے کہا ’’میاں جیسی جو کرے گا ویسی بھرے گا۔ دنگل میں تم اسے کچل ڈالنا۔ یہی ہوگا کہ ہڈی پسلی تڑوا کر آئندہ کان ہوجائیں گے‘‘۔ بہرحال دونوں کے ہاتھ مل گئے اور تاریخ مقرر ہوگئی۔ اس مشاعرے کے دو چار دن بعد شاہی دنگل میں کشتی قرار پائی۔ عیدگاہ ہی کے پاس یہ دنگل ہے۔ دس پندرہ ہزار آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ مگر اُس روز وہاں تل رکھنے کو جگہ نہ تھی۔ جدھر نظر جاتی سر ہی سر دکھائی دیتے۔ میاں بل کی بے ہودگیوں کی وجہ سے ساری بستی اس لونڈے کی طرف تھی۔ پہلے چھوٹی موٹی کشتیاں ہوتی رہیں۔ ٹھیک چار بجے یہ دونوں چادریں پھینک دنگل میں اترے، اترتے ہی دونوں نے یاعلی کا نعرہ مارا، کچھ مٹی پڑھ کر سینے پر ڈالی اور خم ٹھونک آمنے سامنے۔ دونوں کے جسموں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا۔ تمام دنگل میں سناٹا تھا۔ سوئی بھی گرے تو آواز سن لو۔ ہاں آواز تھی تو یاعلی کی، یا خم ٹھونکنے کی۔ میاں بل نے لونڈے کا ہاتھ پکڑ جھٹکا دیا، وہ آگے کو جھکا، یہ کمر پر آگئے۔ وہ جھٹ غوطہ مار ہاتھوں کو چیر کر نکل گیا۔ انہوں نے اس کا سیدھا ہاتھ پکڑ دھوبی پاٹ پر کسنا چاہا، وہ توڑ کرکے الگ جا کھڑا ہوا۔ یہ گائو زوری کرکے اس کو دبا تو لیتے لیکن وہ اپنی پھرتی کی وجہ سے ذرا سی دیر میں صاف نکل جاتا۔ آخر ایک دفعہ اس کو دبا ہی بیٹھے، وہ چپکا پڑا رہا۔ انہوں نے ہفتے کس لیے، تھوڑی دیر تک اس کو خوب رگڑا، وہ سہے چلا گیا۔ انہوں نے گھنا لگا کر اسے چت کرنا چاہا، وہ بھی موقع تاک رہا تھا، یہ کھینچنے میں ذرا غافل ہوئے، اس نے ٹانگ پر باندھ کر جو اڑایا تو میاں بل چاروں شانے چت جا پڑے۔ لونڈا اچک کر سینے پر سوار ہوگیا۔ وہ مارا، وہ مارا کی آوازوں سے دنگل ہل گیا۔ لوگوں نے دوڑ لونڈے کو گود میں اٹھا لیا۔ کسی نے یہ بھی پھر کر نہ دیکھا کہ میاں بل کہاں پڑے ہیں۔ یہ بھی چپکے سے اٹھ چادر اوڑھ منھ لپیٹ ایسے غائب ہوگئے کہ پھر کسی نے ان کی صورت نہ دیکھی۔ دنگل سے کیا گئے، ہمیشہ کے لیے دہلی سے گئے ۔بڑے غیرت مند تھے۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر ان کی صورت نظر نہ آئی۔ خدا جانے کہاں مر کھپ گئے۔

انساں کا ضمیر

گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سُوے و رنگ و بُو
پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے اِنساں کا ضمیر
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغِ آرزو
وہ پُرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفُو
ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیّت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رو
لہو گرم ہونا: آزادی کا جوش و جذبہ پیدا ہونا۔ محکوم: غلام۔ تھرتھرانا: لرزنا، کانپنا۔ جہانِ چارسُو و رنگ بو: ساری کائنات۔ ظن و تخمیں: گمان اور اندازے۔ چراغِ آرزو: خواہش کا چراغ، مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جذبوں اور جدوجہد کا چراغ۔ پرانے چاک: پرانے پھٹے ہوئے حصے، کائنات کے بھید۔ عقل کا سینا: جنہیں عقل و دانش حل نہیں کرسکتی۔ بے سوزن: سوئی کے بغیر۔ تارِ رفو: رفو کرنے والا دھاگا۔ ضربتِ پیہم: مسلسل چوٹ لگانا/ وار کرنا۔ بت سنگیں دل: سخت دل/ ظالم دل۔