انسانی تاریخ سے ثابت ہے کہ انسان آزادی، عزت، کامیابی، اختیار اور اقتدار چاہتا ہے… جب کہ غلامی، ذلت، ناکامی، محکومی اور بے بسی کی زندگی سے نجات کا خواہش مند ہوتا ہے۔ قانونِ فطرت ہے’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘، اور ’’جو بوئو گے وہی کاٹو گے‘‘۔ بدقسمتی سے آج معاشرے میں انسانی رویوں پر نظر ڈالیں تو معاملہ حقیقت کے برعکس نظر آتا ہے۔ انسان خود آزادی چاہتا ہے لیکن دوسروںکو اپنا غلام بناکر۔ خود عزت چاہتا ہے مگر دوسروںکی تذلیل کرکے۔ خود کامیاب لیکن دوسروںکو ناکام دیکھنا چاہتا ہے۔ خود کو بااختیار جب کہ دوسروںکو بے کس و محکوم دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح اس کی زندگی کے شب و روز گزر جاتے ہیں مگر اس کی خواہش پوری نہیں ہوپاتی۔
ایک باپ اور بیٹا پہاڑی علاقے سے گزر رہے تھے۔ باپ آگے، بیٹا پیچھے… دونوں طرف بلند و بالا پہاڑوںکے درمیانی راستے سے گزرتے ہوئے بیٹے نے پتھر پھینکا تو دوسری طرف سے بھی پتھر پھینکنے کی آواز آئی۔ وہ سمجھا کوئی دوسرا بھی موجود ہے۔ وہ ٹھیرگیا اور آواز لگائی ’’کون ہے؟‘‘ جواب میںآواز آئی ’’کون ہے؟‘‘ اس کے والد نے پیچھے مڑکر پوچھا، تو بیٹے نے سارا واقعہ سنادیا کہ میں نے پتھر پھینکا تو جواب میںکسی نے پتھر پھینکا، میں نے پوچھا: کون ہے؟ تو جواب آیا: کون ہے؟ باپ نے کہا: بیٹا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بازگشت ہے۔ پہاڑوں کے درمیان بازگشت کی وجہ سے آواز ٹکراکر واپس آجاتی ہے۔ بیٹا زندگی بھی ایک بازگشت ہے۔ ایک بات یاد رکھنا، زندگی میں جو دنیا کو دوگے، وہی لوٹ کر واپس تمہیں ملے گا۔ کسی کو دُکھ دوگے تو دُکھ ملے گا، سُکھ دوگے تو سُکھ ملے گا۔ کسی کی عزت کروگے تو بدلے میںعزت ملے گی۔ کسی کو برا کہو گے تو وہ بھی برا کہے گا، اچھاکہوگے تو بدلے میں اچھاکہے گا۔کسی کوگالی دوگے تو گالی ملے گی، دعا دو گے، دعا ملے گی۔کسی کا برا سوچو گے، وہ تمہارا برا سوچے گا، اچھا سوچو گے تو دوسرا بھی تمہارا اچھا سوچے گا۔ کسی سے بدی کروگے تو بدلے میں بدی ملے گی، نیکی کروگے تو نیکی ملے گی۔ باپ نے بیٹے کو بازگشت کا مطلب سمجھاتے ہوئے زندگی کے معاملات میں اچھائی برائی کے تمام پہلوئوں سے روشناس کرادیا۔
ہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے باشعور ہیں۔ اگر غور کریں تو زندگی میں وہ مصیبتیں جو ہم نے خود اپنے گلے میں ڈال رکھی ہیں، ان سے نجات حاصل کرکے بڑی خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ انسان جب اپنے آپ کو دائرۂ انسانیت میں رکھتا ہے تو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جونہی دائرۂ انسانیت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو معاشرے میں اپنی قدر کھو دیتا ہے۔ دراصل انسان اسی وقت انسانیت کی منزل سے گرجاتا ہے جب دنیا میں بسنے کے بجائے دنیا کو اپنے اندر بسانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دنیا کے مال ودولت اور جاہ و جلال کے پیچھے دوڑ لگاتا ہے۔ دنیا آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے دوڑتا ہوا بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ دنیا کی فکر میں اپنے خالق کو بھی بھول جاتا ہے۔ اگر وہ سیاست دان ہو تو دنیا میں دکھلاوے کے لیے فلاحی کام بھی کرتا ہے، اگر مولوی ہو تو دکھلاوے کی نمازیں پڑھنے، پڑھانے اور وعظ و نصیحت سے بھی کام لے لیتا ہے۔ مگرماضی کی نسبت اور زیادہ دنیا کا دلدادہ بن جاتا ہے۔ پھر اس کے ذاتی مفادات کے سامنے ساری دنیا ہیچ، اور وہ اکیلا ساری دنیا کے سامنے ہیچ ہوجاتا ہے۔ آخرکار ایک دن سب مال ودولت چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوکہ انسان کو یقین ہوجائے کہ دنیاکسی کے ساتھ نہیں جاتی بلکہ وہ بہتر اعمال ساتھ جاتے ہیں اورکامیابی کا باعث بن جاتے ہیں جن سے کسی دُکھی دل کو سکون ملا، جن سے کسی کی تذلیل کے بجائے عزت افزائی ہوئی۔ آئیے غورکریں، اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں، اللہ کی محبت دل میں بساکر دنیا میں بسیں، خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو آسانیاں دیں، اپنا فرض اور دوسروںکے حقوق ادا کریں، اپنی کامیابی سے پہلے دوسروںکی کامیابی کے لیے کوشاں اور دعاگو رہیں، خود باعزت بن بیٹھنے کے بجائے دوسروںکی عزت کریں، دوسروںکی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے باطن میںضرور جھانکیں، دوسروں پر منفی تنقیدکے بجائے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو تحمل سے سنیں اور اپنی اصلاح کرلیں۔ اس کے نتیجے میں آپ دنیا کے پیچھے نہیں بلکہ دنیا آپ کے پیچھے بھاگنے پر مجبورہوگی۔ یہی دنیا کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
عبدالرزاق باجوہ… صدرتنظیم اساتذہ ضلع نارووال