ابو سعدی
انہیں اردو کا پہلا شاعر تصور کیا جاتا ہے۔1253ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے پانچ دیوان یادگار ہیں اور ہر صنف میں شاعری کی۔ 1325ء میں انتقال ہوا۔ موسیقی سے بھی دلچسپی تھی اور ایمن کلیان اور ترانہ موجود ہیں۔
٭ خدا تجھ پر رحم کرے تو تُو اس کی مخلوق پر رحم کر!
٭عقل سے بہتر ہمارا کوئی رفیق نہیں۔
٭ کاش! لوگ اپنے حق پر راضی رہیں اور انصاف انہیں عزیز ہوجائے۔
٭ جب نیک اور بد سب گزر جاتے ہیں تو بہتر ہے کہ تیرا نام نیکی سے زندہ رہے۔
٭ بڑا آدمی وہ ہے جس کی آواز سینکڑوں ہزاروں تک پہنچتی ہے، اور اس سے بھی بڑا وہ ہے جس کی آوازلاکھوں کروڑوں تک پہنچتی ہے، اور دنیا میں سب سے بڑا وہ ہے جس کی آواز بنی نوع انسان تک پہنچتی ہے۔ جس کا پیام جس قدر سادہ الفاظ میں ہوگا اسی قدر زیادہ انسانوں تک پہنچے گا۔
(گنجینہ اقوال: صفحہ40)
دولت
مال و دولت آسائش کے لیے ہے۔ عمر اس لیے نہیں کہ پھر اس سے کہا جائے کہ کسی سے نہ کہنا۔ (شیخ سعدی)
نہایت خوشحالی اور نہایت بدحالی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ (بوعلی سینا)
کرم کو اپنا شعائر بنا، کہ یہ انسان کی بہترین حالت میں سے ہے، اور مال کی بھی حفاظت کر کہ وقائع و حوادث کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ (ارسطو)
اگر کوئی چیز تمہارے قبضے سے نکل کر دوسروں کے پاس چلی جائے تو یہ مت کہو کہ میرا مال میرے پاس سے چلا گیا، بلکہ یہ کہو کہ عاریتاً تھا جو چند روز مجھے فائدہ پہنچا کر چلا گیا۔ اگر درحقیقت یہ میرا مال ہوتا تو دوسروں کے پاس سے مجھ تک آتا۔ میرے پاس سے دوسروں کے پاس نہ جاتا۔ (بطلیموس)
دولت مندوں کے ساتھ عزت اور غلبہ سے ملو مگر فقیروں سے عاجزی سے۔ (حضرت علی ہجویری)
ہم دولت سے نرم بستر حاصل کرسکتے ہیں لیکن نیند حاصل نہیں کرسکتے۔(بقراط)
آدمی بوڑھا ہوتا ہے اور دو باتیں اس کی جوان ہوتی ہیں: دولت کا لالچ اور عمر کی زیادتی۔ (بخاری شریف)
دو بھوکے بھیڑئیے جنہیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ دولت اور مرتبے کا لالچ انسان کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔
عبرت کا بڑا سبق
بسا اوقات مجھے وہ شخص یاد آتا ہے جو ایک نوآبادی کی آزادی کے لیے بہادری سے لڑا اور اس کی ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔ وہ قومی ہیرو بن گیا۔ مگر جنگ طویل تھی، جاری رہی۔ یہی ہیرو اس اثنا میں ایسا بدلا کہ دوسری طرف جا ملا اور ملک کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ جنگ نوآبادی نے جیت لی۔ اب قومی ہیرو کے صحیح مقام کے تعین کا سوال اٹھا۔ طے پایا کہ اس کا ایک مجسمہ نصب کیا جائے مگر وہ صرف ایک ٹانگ پر مشتمل ہو جو آزادی کی راہ میں کٹی تھی۔ ایک ٹانگ کا یہ مجسمہ عبرت کا بہت بڑا سبق ہے۔ (آوازِ دوست۔ مختار مسعود)
حکیم اور مریض
حکیم چیوؔ ریاست چھین کا مشہور طبیب تھا۔ وہ شہنشاہ شیوان وانگ کی رسولی اور شہنشاہ ہوئی وانگ کی بواسیر کا علاج کرچکا تھا۔
چانگ نامی ایک شخص کی پیٹھ پر پھوڑا نکلا تو وہ حکیم کے پاس گیا اور کہنے لگا: ’’میری پیٹھ پر آپ کو پورا اختیار حاصل ہے، جس طرح چاہیں علاج کریں‘‘۔
حکیم کو پورا اختیار ملا تو اس نے چند ہی دنوں میں تکلیف رفع کردی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکیم اپنے فن میں یکتا تھا لیکن یہ حقیقت بھی چانگ کی جلد تندرستی میں ممد ثابت ہوئی کہ اس نے حکیم کو پورا پورا اختیار دے دیا تھا۔
[چین کی بہترین قدیم حکایتیں/ ترجمہ رشید بٹ]
بازار کی تجاوزات
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دن بازار سے گزرے۔ دیکھا کہ لوگ اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں۔ بولے ’’کسی کو یہ اختیار نہیں ہے۔ مسلمانوں کے بازار نمازیوں کے مصلے کی طرح ہیں۔ جو لوگ آج آگے بڑھ گئے ہیں وہ کل اس کو چھوڑ دیں۔‘‘
[کنزالعمال۔ جلد 3۔ صفحہ 172]
حکمت کی کثرت
کسی نے حضرت لقمان سے کہا: ’’کیا آپ فلاں خاندان کے غلام نہ تھے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں میں تھا‘‘۔ پھر لوگوں نے پوچھا: ’’کس چیز نے آپ کو اس مرتبے تک پہنچایا؟‘‘
فرمایا: ’’میں راست گوئی سے، امانت میں خیانت نہ کرنے کی وجہ سے، ایسی گفتگو اور ایسے عمل کے ترک کرنے سے جس سے مجھے کوئی فائدہ نہ پہنچ سکتا تھا، اور جن چیزوں کو خدا نے مجھ پر حرام کردیا ہے ان کی طرف سے آنکھ بند کرلینے سے، اور لغو باتوں سے اپنی زبان کو روکنے سے اور حلال روزی کھانے سے اس درجے کو پہنچا۔ لہٰذا جو شخص ان باتوں پر مجھ سے زیادہ عمل کرے گا مجھ سے زیادہ مرتبے تک پہنچے گا، اور جو شخص میرے ہی جتنا عمل کرے گا مجھ جیسا ہوگا۔‘‘
(اقوالِ حکمت، اردو ڈائجسٹ۔ فروری 1999ء۔ صفحہ 83)