بلوچستان دہشت گردی کے نشانے پر

بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے جو دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور وقفے وقفے سے انسانی زندگیاں بارود کی زد میں آتی چلی جارہی ہیں۔ آگ اور خون کا کھیل تواتر سے نہیں بلکہ وقفے وقفے سے کھیلا جارہا ہے، اور جب ایک عرصے کے بعد خودکش حملہ ہوتا ہے تو کوئٹہ ہل جاتا ہے۔ کچھ واقعات ایسے دلخراش ہوتے ہیں جن کی زد میں پورا ملک آجاتا ہے، اور بعض صورتوں میں یہ دھماکے اور خودکش حملے ایک صوبے کے باسیوں کو درد و کرب اور صدموں سے دوچار کردیتے ہیں، جیسے پنجاب کے کچھ نوجوان ایران سے یورپ تو نہ جاسکے لیکن موت کے منہ میں چلے گئے، اور جب بھی ایسے المناک واقعات ہوتے ہیں تو وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیرداخلہ کے بیانات بڑے دبنگ ہوتے ہیں، لیکن یہ دبنگ بیانات خودکش حملے نہیں روک سکے ہیں۔ ہم کچھ بیانات کا ذکر کرتے ہیں جو خودکش حملوں کے بعد اخبارات کی زینت بنے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جناب ثناء اللہ زہری کا 10 مئی 2017ء کو بیان شائع ہوا کہ:
’’پہلے دہشت گرد ہم پر حاوی تھے، اب ہم اُن پر حاوی ہوچکے ہیں۔‘‘
اس بیان کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ 36 گھنٹے بعد مستونگ دھماکوں سے لرز اٹھا۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اور انسانوں کی چیخ و پکار سے قیامت کا سماں بندھ گیا تھا۔ یہ ایک خودکش دھماکے کا نتیجہ تھا۔ وزیراعلیٰ چین کے دورے پر تھے، وہاں سے انہوں نے بیان جاری کیا کہ ’’صورتِ حال خراب کرنے والوں کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔‘‘ اس بیان کو شائع ہوئے 24 گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ گوادر کے علاقے گنز اور پشکان روڈ پر دہشت گردوں نے 10مزدوروں کو ایک لائن میں کھڑا کرکے کلاشنکوف کے برسٹ مار کر موت کے منہ میں دھکیل دیا، اور اطمینان سے موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر فرار ہوگئے۔ مستونگ حملے میں 28 افراد زندگی گنوا بیٹھے تھے اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی۔ حکومت نے حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی اور ایک کروڑ روپیہ کا انعام بھی رکھا۔ صوبائی وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ داعش کا بلوچستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اس بیان کے بعد داعش نے خودکش کی تصویر جاری کردی۔ یہ حملہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ غفور حیدری پر ہوا تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا مؤقف تھا کہ اس میں ’را‘ ملوث ہے۔ لیکن حکومت کسی کو بھی گرفتار نہیں کرسکی۔
خودکش حملہ آور جہاں چاہتے ہیں حملہ کرتے ہیں، اور بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے کہ وہاں حملہ کرتے ہیں جہاں حکومت کے اداروں کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ 17 دسمبر کو دن دہاڑے کوئٹہ کی سب سے مصروف شاہراہ پر واقع چرچ پر حملہ کیا گیا۔ یہ کرسمس کے حوالے سے دعائیہ تقریب تھی، اتوار کا دن تھا۔ کوئٹہ میں جتنے بھی چرچ قائم کیے گئے ہیں یہ برطانوی فوج کے زیرسایہ قائم ہوئے تھے۔ جب برطانیہ نے بلوچستان پر قبضہ کرلیا اور خان قلات سے کوئٹہ لے لیا اور کوئٹہ کینٹ قائم کیا، تو کوئٹہ اور بلوچستان کے اُن تمام علاقوں میں جہاں برطانوی فوج گئی، اس نے چرچ قائم کیے اور شہر کے اہم حصوں میں چرچ بنائے۔ ان چرچوں کو قائم کرنے کی پشت پر روم کی پاپائیت کا فلسفہ اور عیسائیت کا فروغ تھا۔ کوئٹہ کے جس چرچ پر حملہ ہوا یہ زرغون روڈ جناح روڈ کا سنگم ہے۔ چرچ کے مغرب میں بالکل سامنے ریلوے آفس اور کچھ فاصلے پر ریلوے اسٹیشن ہے، چرچ سے چند گز کے فاصلے پر ریلوے تھانہ ہے، اور چرچ کے مغرب میں ریلوے ڈی ایس آفس کے قریب ہمیشہ ٹریفک پولیس کھڑی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایف سی کے جوان بھی موجود ہوتے ہیں۔
چرچ پر خودکش حملہ آور بڑی آسانی سے چرچ کے کمپائونڈ میں داخل ہوگئے۔ اس حملے کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک ہوئے، ان میں 4 خواتین بھی شامل تھیں، جبکہ 60 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ حملے کے فوراً بعد اداروں کے اہلکار پہنچ گئے اور چرچ کے اندر سے تمام لوگوں کو بحفاظت نکال لیا۔ زخمیوں کو فوراً سول اسپتال پہنچا دیا گیا۔ اس چرچ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر افغانستان کا قونصل خانہ موجود ہے۔ چرچ سے ایک حملہ آور کی لاش ملی جس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ اس کی عمر 20 یا 22 سال ہوگی۔ حملے کے وقت چرچ میں 400 لوگ موجود تھے۔ فورسز نے بروقت کارروائی کی اور مزید نقصان سے بچالیا۔
اس واقعے کے بعد کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ پہنچ گئے اور سول اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کرلی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس حملے کا مقصد مذہبی تقسیم کو ہوا دینا اور کرسمس کے جشن کو پھیکا کرنا تھا، ایسے گھنائونے حملوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بیان دیا کہ بزدل دشمن معصوم لوگوں کو نشانہ بناکر اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں، انہیں جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ہمارا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہے جو چھپ کر وار کرتا ہے، اس حملے کا مقصد مذہبی تہوار کرسمس سے روکنا تھا۔
جب بھی ایسا خودکش حملہ ہوتا ہے تو وزرا کے بیانات سے اخبارات بھر جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کے ذمہ داران کے بیانات کی بھرمار ہوتی ہے اور یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک اچھا قدم ہے کہ سب غم میں شریک ہوجاتے ہیں۔ چرچ میں اکثر و بیشتر پارٹیوں کے لیڈر پہنچتے ہیں اور اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری 25 دسمبر کو زیارت گئے اور وہاں زیارت ریزیڈنسی میں تقریب سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تھا تو دہشت گردی عروج پر تھی، خدا کے فضل و کرم سے سیکورٹی کے اداروں کے تعاون اور سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر امن کی بحالی کو یقینی بنایا، انہوں نے بتایا کہ مجھے پاکستان کا نام لینے اور اس سے وفادار رہنے پر بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں، لیکن ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
بلوچستان کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس 20 دسمبر کو کی جس میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ سیکورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع ملنے پر قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں کامیاب کارروائی کی اور دو دہشت گرد گرفتار کرلیے ہیں، ان سے دو خودکش جیکٹ، بھاری تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کرلیا گیا ہے، اور یہ ملزمان گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، ان میں سے ایک کا تعلق پنجاب سے اور دوسرے کا بلوچستان سے ہے، پنجاب کا دہشت گرد ٹی ٹی پی قاری گروپ سے ہے۔ اس گروپ نے پنجاب کے سابق وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو قتل کیا تھا۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ سیکورٹی اداروں نے بڑی واردات کو ناکام بنادیا ہے۔ بلوچستان سے جس کا تعلق ہے اس کا نام منصور احمد ہے جو گلستان کا رہائشی ہے۔ اس نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک بڑی سازش کو ناکام بنادیا ہے۔ بلوچستان خطرات میں گھرا نظر آرہا ہے، چین سے قربت پاکستان کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہے اور بلوچستان میں جو کچھ ہورہاہے اس کی پشت پر امریکہ ہے، اور وہ افغانستان میں موجود ہے۔ جو کام پہلے سوویت یونین کرتا تھا اب وہ کام امریکہ نے سنبھال لیا ہے، اس لیے بلوچستان اُس وقت تک مضطرب رہے گا جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے۔ اب دیکھیں تاریخ کب امریکہ کو افغانستان سے دھکیلتی ہے۔