افغانستان کے مطلق العنان حکمران ظاہر شاہ کے دورِ حکومت میں سوویت یونین کو افغانستان میں اثر ونفوذ حاصل ہوگیا تھا۔ اشتراکی فکر کی ترویج تعلیمی ہر شعبے میں ہونے لگی تھی۔ سردار دائود اُن کے دور میں اہم عہدوں پر فائز تھے۔ وہ وزیراعظم بھی بنائے گئے۔ افغان معاشرے میں اشتراکی نظریات کے پھیلائو اور خاندانی حکمرانی کے خلاف اسلامی نظریات کی حامل شخصیات نے بھی تحریک کا آغاز کردیا تھا۔ یہ تحریک جماعتی ڈھانچے میں ڈھل گئی۔ افغانستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص کابل یونیورسٹی میں اسلامی سوچ و فکر رکھنے والے نوجوان اپنے اساتذہ کی تحریک و تربیت کے زیر اثر مضبوط ہوتے گئے۔ منہاج الدین گہیز نے جو ایک معروف صحافی اور مجلہ ’’گہیز‘‘ کے مدیراعلیٰ بھی تھے، تحریر و تقریرکے ذریعے دعوت کا کام شروع کردیا تھا۔ کابل یونیورسٹی کی شریعہ فیکلٹی کے استاد پروفیسر غلام محمد نیازی نے جو کہ جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل تھے، الجماعۃ الاسلامیہ کے نام سے سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ حزبِ اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار بھی اس میں شامل ہونے والوں میں تھے۔ ان اساتذہ میں برہان الدین ربانی اور استاد عبدالرب رسول سیاف بھی شامل تھے۔ عبدالرحیم نیازی کی قیادت میں ’’نوجوانانِ اسلام‘‘ بھی کابل یونیورسٹی میں کمیونسٹوں کے مقابل متحر ک تنظیم کے طور پر ابھری۔ عبدالرحیم نیازی کو زہر دے کر قتل کردیا گیا۔ منہاج الدین گہیز بھی فائرنگ کرکے قتل کردیئے گئے۔ پروفیسر غلام محمد نیازی اور دوسرے رہنمائوں وکارکنوں کو قید و بند کی تکلیفیں اٹھانی پڑیں، تاہم اسلامی تحریک اب توانا ہوچکی تھی۔ ظاہر شاہ ہی کے دور میں منہاج الدین گہیز نے لاہور کے علاقے اچھرہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کی، اور افغانستان کے حالات سے آگاہ کیا۔ مولانا مودودی مرحوم نے ان کو صبر و حکمت سے اسلامی فکر کی تبلیغ، افغان عوام کی سیرت و ذہن سازی کی ہدایت و نصیحت کی۔ ظاہر شاہ اور سردار دائود کی حکومتوں میں اسلامی تحریک سے وابستہ لوگوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ ان کے خلاف ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ جب سردار دائود نے ظاہر شاہ کو اقتدار سے بے دخل کردیا تو اسلامی تحریک کے رہنمائوں اور نوجوانوں پر مزید سختیاں روا رکھیں۔ پروفیسر برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار اور دوسرے نوجوانوں نے پاکستان میں پناہ لے لی۔ سید مودودیؒ نے ان افغان رہنمائوں کو ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرنے کا مشورہ دیا۔ مولانا مودودیؒ ایک معاملہ فہم اور دوراندیش شخص تھے۔ اُن کی افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات پر نہ صرف گہری نگاہ تھی بلکہ اشتراکیت کے غلبے اور اس کی اساس کا پوری طرح ادراک حاصل تھا۔ مولانا مرحوم کو بھی معلوم تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو قومی مفاد کے تحت اس خطرے کو نظرانداز نہیں کر یں گے۔ اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اس جملہ صورت حال پر پوری توجہ دی۔ آخری دنوں میں سردار دائود کو بھی خطرات کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اُس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اُس کے خلاف 1978ء کا کمیونسٹ فوجی انقلاب برپا کیا گیا۔ چناں چہ افغانستان آزمائش کے ایک نئے دور میں داخل ہوگیا۔
افغان عوام نے اپنے قائدین کی سرپرستی میں جہاد کا عَلم بلند کیا اور کامیاب ہوگئے۔ اس جیت کو سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو اور نوازشریف جیسے حکمرانوں اور کوتاہ اندیش فوجی حکام نے تقریباً شکست میں بدل دیا، اور افغانستان لاقانونیت اور طوائف الملوکی کے ایک اور فتنے سے دوچار ہوا۔ افغانستان میں ہونے والی سازشوں کا ایک نشانہ گلبدین حکمت یار بھی تھے، جن کی حکومت پاکستان، ایران، امریکہ، روس اور چین کو قبول نہ تھی۔
گلبدین حکمت یار نے1974ء میں حزبِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ حزب طویل پابندیوں اور قیادت کی روپوشی کے باوجود آج بھی افغانستان کی ایک اہم اور توانا اسلامی، نظریاتی اور جمہوری جماعت ہے۔ حزبِ اسلامی نے حالیہ دنوں میں مختلف صوبوں میں بڑے سیاسی اجتماعات کا انعقاد کرکے افغانستان میں سیاسی عمل کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ لیکن حزبِ اسلامی کی عوام میں پذیرائی اور پرواز کسی کو ہضم نہیں ہورہی۔ حزبِ اسلامی غنیم کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ گلبدین حکمت یار عوامی اجتماعات اور ذرائع ابلاغ پر بولتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں سلیم صافی نے اپنے ٹی وی پروگرام کے لیے جناب حکمت یار کا انٹرویو لیا، جو 9 اور 10 دسمبر کو نشر ہوا۔ ہم نے ضروری سمجھا کہ گلبدین حکمت یار کے خیالات قارئین تک پہنچائے جائیں، جس میں حزبِ اسلامی کے مؤقف کو سمجھا جاسکتا ہے۔ انٹرویو کے ترجمے کا متن ملاحظہ کیجیے:
’’حقیقت یہ ہے کہ جنگ اب بھی بتدریج جاری ہے۔ شروع دن سے لے کر یہ جنگ آج بھی پھیل رہی ہے۔ اب بھی تقریباً پچیس علاقوں میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ 56 لاکھ سے زائد افغان آج بھی بے وطن ہیں، یعنی آج بھی ہمارا ہر پانچواں افغانی مہاجر ہے چاہے وہ ملک کے اندر ہے یا بیرونِ ملک۔ تقریباً ہر ماہ پانچ ہزار کے قریب افغان افغانستان سے ہجرت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ افغان انتظامیہ اس مسئلے پر بے بس نظر آتی ہے۔ حکومت بے انتہا کمزور ہے۔ وہ جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام میں مکمل طور پر ناکام اور بے بس نظر آتی ہے۔ پہلے جب بیرونی افواج کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی تب بھی حکومت بے بس اور ناکام تھی، اب جبکہ یہ تعداد کم ہے تو بھی حکومت بے بس اور ناکام ہے۔ مہاجرین کی تعداد میں جوں جوں اضافہ ہوگا جنگ طویل ہوتی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں کامیابی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ جنگ نہ بیرونی افواج جیت سکتی ہیں، نہ اُن کے مسلح مزاحمت کار اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ مزید شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ جنگ امریکیوں کو اتحادیوں سے وراثت میں ملی ہے اور اس جنگ کی حکمت عملی اور ترتیب وہی ہے جو اتحادی افواج کی تھی۔ امریکہ نے بھی نیٹو کے ساتھ مل کر زمینی افواج استعمال کی اور ان کو بھی ویسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، جیسا کہ ماضی میں سوویت افواج کو کرنا پڑا تھا۔ یہ ویسی ہی جنگ ہے جیسی سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف لڑی تھی۔ اس سب کے باوجود میں امید اور یقین رکھتا ہوں کہ اس جنگ کا جلد خاتمہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی جنگ مسلسل جاری نہیں رہ سکتی، ایک نہ ایک دن اس کا خاتمہ ہونا ہوتا ہے۔ اور یہ جنگ بھی جلد پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔ یہ صحیح ہے کہ امریکی صدر نے مزید امریکی افواج افغانستان میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے جنگ جاری رکھنے اور جیتنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ پہلے کہتے تھے کہ مجھے نہیں پتا کہ امریکی افغانستان میں کیوں قیام کریں۔ وہ امریکی افواج کے افغانستان میں رہنے کے قائل نہیں تھے، مگر کچھ ماہ میں ان کی سوچ میں کیوں تبدیلی آئی ہے اور وہ کیوں جنگ کو مزید جاری رکھنے کی بات کررہے ہیں؟ اس کے کچھ عوامل ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں اس جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی اور امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی جنگ کی طوالت کا باعث بنے گی، اور ان کی موجودگی امریکہ کے مخالفین کے لیے تحریک کا باعث ہوگی۔ افغانستان کی صورت حال ایسی ہے کہ امریکہ روس کی مدد سے بھی یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ ایران، روس اور پاکستان سب نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے بلکہ پاکستان نے تمام وسائل، افرادی قوت اور زمینی راستوں سمیت امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ امریکہ روس کے راستے اپنی افواج اور سازو سامان لایا۔ ایران نے بھی امریکہ کو مکمل خدمات فراہم کیں، مگر وہ جنگ نہیں جیت سکے۔ اب تو حال یہ ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات پیدا ہوچکے ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک بھی افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی سے خوش نہیں ہیں۔ ان حالات میں مشکل ہے کہ وہ یہ جنگ جیت سکیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ثالثی کے لیے آج بھی تیار ہوں بلکہ اس کو ترجیح دیتا ہوں، یہ اچھا ہوگا کہ ہم طالبان کی طرف سے افغان حکومت سے بات کریں اور اُن کا مؤقف آگے پہنچائیں۔ ہمارے طالبان کے مختلف دھڑوں کے ساتھ مفید رابطے موجود ہیں اور مستقبل میں بھی ان رابطوں کے خواہش مند ہیں۔ میں طالبان کے پیغامات کو دل کی گہرائیوں سے لیتا ہوں، طالبان کے مؤقف میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ طالبان کے مؤثر رہنما اب بھی صلح کے حق میں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں طالبان کو جنگ میں دھکیلا گیا، اندرونی و بیرونی عوامل ایسے تھے کہ طالبان کے پاس جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ طالبان کا مسئلہ حل کیا جائے تاکہ اُن کو مطمئن کیا جاسکے کہ ان کے تمام جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔ طالبان بھی احساس کریں کہ ایک باوقار اور باعزت معاہدے کا امکان موجود ہے۔ حکومت طالبان کے بارے میں اپنے لب و لہجے میں تبدیلی لائے۔ پہلے حکومتی ذمہ داران کہتے تھے کہ طالبان میں کوئی اچھا اور برا نہیں ہے۔ افغان حکومت اپنے بازوئوں میں اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ وہ طالبان کو ختم کرسکے، وہ طالبان کے خاتمے کے لیے بھی امریکہ سے کہتی ہے۔ کاش کابل حکومت کے پاس اپنے مخالفین کو ختم کرنے کی طاقت ہوتی۔ افغان حکومت کہتی ہے کہ طالبان میں اچھا برا نہیں ہے، تو پھر خفیہ مذاکرات کیوں کررہی ہے اور خفیہ پیغامات کیوں بھیجتی ہے؟ طالبان کو مذاکرات میں پہل کرکے افغان حکومت اور امریکہ کو آزمانا چاہیے۔ ملک کے اندر اور باہر موجود لوگوں کے لیے صلح کی مخالفت کرنا مشکل ہے۔ امریکہ کے لیے بھی افغانستان میں صلح کے عمل کی مخالفت کرنا مشکل ہے۔ طالبان صلح اور مذاکرات چاہیں تو امریکہ سمیت کوئی مخالفت کی جرأت نہیں کرے گا۔‘‘
گلبدین حکمت یار نے کہا کہ ’’طالبان بتائیں افغان آئین کی کن شقوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ ہم نے بہت سے تحفظات کے باوجود افغان آئین کو تسلیم کیا۔ ہمیں بھی آئین کی مختلف جہتوں پر اعتراضات ہیں۔ میں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ ہمارے پاس اس آئین کا متبادل موجود ہے۔ جب کبھی بھی جرگے میں بنیادی آئین پر بحث ہوئی تو شرکائے جرگہ افغانستان کے موجودہ آئین کے مقابلیی میں ہمارے تیار کردہ آئین کو ترجیح دیں گے۔ طالبان بھی اب بہت تجربہ کار ہوچکے ہیں، انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف جنگی قوت بلکہ سیاسی قوت بھی ہیں۔ طالبان اب ایک جنگی، جہادی اور سیاسی قوت کے طور پر مذاکرات میں حصہ لیں گے۔ میں سمجھتا ہوں طالبان کی طرف سے بھی افغان آئین کو تسلیم کرنے میں بظاہر کوئی خاص مشکل نہیں ہے، اگر طالبان کو اعتراض ہے تو آئین میں اصولی طریقے سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ہم اور طالبان مل کر قومی جرگے کے سامنے اپنے تحفظات رکھ سکتے ہیں۔ بہت سے ممالک اپنے مفادات کے لیے افغان جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں جن میں پڑوسی ممالک بھی شامل ہیں۔ ہمارے پڑوسی کسی قیمت پر اس بات پر آمادہ نہیں کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوجائے، انہوں نے اپنے تمام تر وسائل افغانستان میں جنگ اور بدامنی کے لیے جھونک رکھے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں افغان حکومت کمزور ہو، حتیٰ کہ ہماری مختلف قومیتوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے، وہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کے حق میں نہیں ہیں۔ ایران کا افغانستان کے قضیے میں سب سے منفی کردار رہا ہے، اس نے ہمیشہ افغانستان میں جنگ کو ترجیح دی ہے، کم از کم تیس سال سے ایران افغان جنگ کو ہوا دے رہا ہے، افغان جنگ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے، کسی ملک نے اس جنگ میں نقصان اٹھایا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان میں ایسے گروہ پیدا ہوگئے جنہوں نے پاکستان ہی کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔کئی برسوں سے پاکستان کو اس جنگ کا سامنا ہے۔ پاکستان کے علاوہ اگر کسی نے افغان جنگ سے فائدہ نہیں اٹھایا تو وہ امریکہ ہے۔ امریکا نے اس جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ افغان جنگ سے کچھ حاصل نہیں کیا۔ پاکستان نے افغان مارکیٹ بھی کافی حد تک گنوادی ہے اور اسے مرکزی حیثیت بھی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان وسطی ایشیا سے توانائی کا حصول چاہتا تھا لیکن وہ بھی افغان جنگ کی وجہ سے حاصل نہیں کرسکا۔ پاکستان کو اس وقت بجلی اور گیس کے بحران کا سامنا ہے۔ امریکہ اور پاکستان ’تاپی‘ منصوبے کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن ایران نہیں چاہتا کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو۔ ہمسایہ ممالک نے اپنے مفادات افغانستان سے وابستہ کر رکھے ہیں۔ ہمسایہ ممالک اپنی مخالفت اور مزاحمت افغان سرزمین پر منتقل نہ کریں۔ دہلی اور اسلام آباد اپنے اختلافات آپس میں حل کریں اور اپنی جنگ افغان سرزمین پر منتقل نہ کریں۔ ماسکو اور واشنگٹن بھی اپنے اختلافات کو کسی اور جگہ پالیں اور اپنی رقابتوں میں افغانوں کو قربان نہ کریں۔ اسی طرح ایران اور عرب ممالک بھی اپنے سیاسی، اقتصادی، نظریاتی، مذہبی اختلافات افغانستان منتقل نہ کریں۔ پاکستان اور ایران ذہن سے نکال دیں کہ یہ افغان جنگ ہمیشہ ان کے لیے فائدے کا باعث ہوگی، اس جنگ کے شعلے ایک دن ان کے دامن تک بھی پہنچیں گے۔ ایران افغان جنگ میں فریق ہے، وہ متحارب گروہوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے، افغانستان میں اسلحہ ایران کے راستے آتا ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں جتنا بھی اسلحہ اور مہم جوئی ہوئی وہ ایران سے ہوئی ہے۔ روسی افواج کے انخلاء اور ڈاکٹر نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد جتنا بھی اسلحہ افغانستان آیا ایران کے راستے مشہد سے ہرات کے راستے افغانستان منتقل ہوا۔ سب کو معلوم ہے طالبان کے بعض دھڑوں کو اسلحہ کی فراہمی اور کارروائیوں میں ایران مدد کررہا ہے۔ کابل حکومت پاکستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتی ہے۔ ہمیں کراچی کی جگہ چاہ بہار اور پاکستان کی جگہ ایران کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جنگ کا راستہ اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ افغانستان کی بہتری اسی میں ہے کہ ہم صلح کا راستہ اختیار کریں۔ افغانستان اور پاکستان چاہیں تو صلح اور امن کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ حزبِ اسلامی افغانستان میں وقت پر انتخابات چاہتی ہے، ہم اس بات سے متفق نہیں کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوں۔ دیگر سیاسی جماعتیں وقت پر انتخابات نہیں چاہتیں، انہوں نے عوامی اعتبار کھودیا ہے اس لیے انتخابات سے ڈرتی ہیں۔ کچھ سیاسی قوتیں انتخابات کے انعقاد پر ہی معترض ہیں۔ کچھ لویہ جرگہ کا انعقاد چاہتے ہیں تاکہ انتخابات نہ ہوں۔ لویہ جرگہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انتخابات ہوجائیں۔ انتخابات سے خوفزدہ لوگ عدم استحکام چاہتے ہیں۔ ہم کسی کو انتخابات میں تاخیر کی اجازت نہیں دیں گے۔ انتخابات کے لیے کمیشن چار جماعتوں کے درمیان تشکیل دیا گیا جس پر اعتراض ہے۔کمیشن کے سات میں سے چار افراد زیادہ فعال اور متحرک ہیں جنہیں یہ نکالنا چاہتے ہیں، ان متحرک لوگوں کے والد اور بھائی حزب اسلامی میں عہدوں پر رہے ہیں۔ حزب نے صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے یا کسی کی حمایت کرنے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ حزب اسلامی انتخابات میں حصہ لے کر کامیاب ہوجاتی ہے تو کچھ ممالک خلل ڈال سکتے ہیں جس سے ہم ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔ اس لیے ہم کسی قابلِ قبول شخص کی حمایت کرنے کو ترجیح دیں گے، اور وہی صدارتی امیدوار کامیاب ہوگا جسے حزب اسلامی کی حمایت حاصل ہوگی۔‘‘
حزب اسلامی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’’حزبِ اسلامی پہلے بھی متحد تھی اور اب بھی منظم ہے۔ یہاں پر جتنے دفاتر کھلے ہیں کسی نے نہیں کہا کہ ہم حزب اسلامی سے جدا ہیں۔کسی نے نہیں کہا کہ میں حزب اسلامی کا سربراہ ہوں۔ سب نے اپنے کارکنان اور عوام کو بتایا ہے کہ ہم نے مصلحت کے تحت دفاتر کھولے ہیں۔ جب حزب اسلامی کابل واپس آجائے گی تو ہم اپنے دفاتر بند کردیں گے۔ حزب اسلامی کی شوریٰ میں افغانستان میں بسنے والی ہر قوم سے تین ہزار افراد شامل کیے گئے ہیں۔‘‘
گلبدین حکمت یار نے بتایا کہ ’’مزار شریف اور تخار کے سقوط کے بعد مجبور ہوکر ایران گیا تھا، میں نہیں چاہتا تھا کہ ایران جائوں۔ مرحوم استاد ربانی کے ساتھ تاجکستان ایک اجلاس میں شرکت کے لیے گیا، وہاں ایک ایرانی اہلکار نے مجھے بتایا کہ تاجکستان کی انٹیلی جنس نے بتایا کہ حکمت یار تاجکستان سے نکل جائے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، میرے لیے ہیلی کاپٹر کا بندوبست کردیں، مجھے واپس بدخشاں جانا ہے۔ اس نے کہا کہ ہیلی کاپٹر نہیں ہے۔ تو میں نے اس ایرانی سے کہا کہ گاڑی کا بندوبست کردیں۔ اس نے گاڑی سے بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ میں ایران جائوں گا تو آپ سمجھ لیں میں ایران نہیں جارہا۔ اُس وقت پاکستان جانا بھی مشکل تھا۔ بالآخر مجبور ہوکر میں ایران چلا گیا۔ ایران میں سیاسی پناہ میں نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی قیدی تھا۔ میں ہر وقت ان کی نگرانی میں تھا اور ان کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو کچھ امریکی اہلکاروں نے پیغام دیا کہ ہم افغانستان آرہے ہیں، طالبان آپ کے دشمن ہیں آپ ہماری حمایت کریں، ہم آپ کی تمام شرائط تسلیم کرتے ہیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ میں ایک افغان رقیب اور حریف کی سو سالہ حکومت ماننے کو تیار ہوں لیکن کسی غیر کی ایک دن کی حکومت تسلیم نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا اگر ہم آجائیں تو آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا کہ میں پہاڑوں پر جائوں گا اور آپ کے خلاف ہتھیار اٹھائوں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ جو اتحادی افواج افغانستان لے کر آرہے ہیں یہ اقدام غلط ہے، آپ کابل پر قبضہ تو کرلیں گے لیکن برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ اتحادی افواج آئی اور ایران نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ افغانستان میں جس نے امریکہ کا سب سے زیادہ ساتھ دیا وہ ایران ہے، پاکستان نے زمینی فوج استعمال نہیں کی لیکن ایران نے زمینی جنگجو بھی انہیں دیئے۔ ایران سے تعلق رکھنے والے گروپ امریکہ کے زیراثر افغانستان میں لڑتے رہے۔ ایران نے مجھے امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ایک ایرانی اہلکار نے مجھے بتایا کہ ایرانی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ دو دن کے اندر ایران سے نکل جائیں۔ میں نے کہا کہ کہاں جائوں مجھے مشورہ دو کیونکہ میرا پاسپورٹ آپ لوگوں کے پاس ہے۔ عصر کے وقت انہوں نے مجھے پیغام دیا اور میں اندھیرا ہوتے ہی وہاں سے انہیں بتائے بغیر نکل گیا۔ صبح کی نماز میں نے ایرانی سرحد کے قریب پڑھی اور سورج طلوع ہوتے ہی افغانستان میں داخل ہوا۔ افغانستان میں شیگل کے علاقے میں مجھ پر ڈرون حملہ کیا گیا۔ امریکی کمانڈوز میرے اتنے قریب آگئے تھے کہ میں ان کی باتیں سن سکتا تھا اور انہیں دیکھ رہا تھا۔ تین راتوں کو اس طرح بھی ہوا کہ پہاڑ کے ایک طرف میں نے اور دوسری طرف انہوں نے رات گزاری۔ پاکستان میں میرا داماد گرفتار ہوا اور چھے سال امریکیوں کی قید میں رہا۔ ڈاکٹر غیرت بہیر اور میرے محافظین کا سربراہ حاجی گل رحمن پاکستان میں گرفتار ہوئے اور دورانِ تفتیش اذیت کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔ میرا بھائی بھی گرفتار ہوا۔ میری وجہ سے بار بار تفتیش کی گئی، گھر گھر تلاشی لی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں افغانستان میں ہی رہا۔‘‘