’’مڈھ بھیڑ ‘‘ یا ’’مٹھ بھیڑ؟‘‘۔

ایک ادبی رسالے میں افسانے کا عنوان دیکھا ’’مٹھ بھیڑ‘‘۔ ہم اس کو آج تک مڈبھیڑ پڑھتے رہے تو تجسس ہوا کہ صحیح کیا ہے۔ لغات دیکھیں تو معلوم ہوا کہ نہ صرف دونوں صحیح ہیں بلکہ ’’مُٹ بھیڑ‘‘ بھی ہے۔ مطلب تو قارئین کو معلوم ہی ہے: مقابلہ، آمنا سامنا، دوبدو ہونا، گتھ جانا، اتفاقیہ ملاقات وغیرہ۔ اب جیسا جس کا معاملہ ہو وہ استعمال کرلے۔ نوراللغات نے نیا شوشا چھوڑا کہ اصل میں تو یہ لفظ ’’منڈ بھیڑ‘‘ ہے۔ داغؔ کا ایک شعر ہے:
غیر سے مڈھ بھیڑ ناصح کی ہوئی
اس نے حضرت کا بڑا پیچھا لیا
مڈھ (ہندی) کا ایک مطلب سردار، سرغنہ، سرگروہ بھی ہے۔ ناصح نے تو غیر کا پیچھا لیا اور ہم مڈبھیڑ کے پیچھے پڑ گئے۔ تاہم یہ شک دور ہوگیا کہ مٹھ بھیڑ صحیح نہیں ہے۔ بھِیڑ میں ’بھ‘ بالکسر ہے اور اس کا تعلق اُس بھَیڑ سے نہیں جس کی چال مشہور ہے اور اس کو مونڈا جاتا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ نے میر تقی کا شعر دیا ہے جس میں داغ کے مڈھ بھیڑ سے اختلاف ہے۔ ان کا مصرع ہے
مُڈبھِیڑ اگر ہو گئی اس تیغِ بکف سے
فرہنگِ آصفیہ نے ا س کا مزید کھوج لگایا ہے۔ مؤلف کا کہنا ہے کہ بعض پرانے شاعروں نے اس کو مُٹھ بھیڑ اور بعض نے ’’منہ بھیڑ‘‘ اپنے اشعار میں باندھ دیا ہے اور ان ہی کی پیروی کرکے فیلن جیسے لغت تراشوں نے بھی غلطی کھائی ہے بلکہ اس کے مترجموں نے بھی نظیر اکبر آبادی کے شعر کو دیکھ کر اسی طرف زور دیا ہے، لیکن یہ محض غلط ہے۔ اگر علمِ زبان کے قاعدے سے دیکھا جائے تو صاف ثابت ہے کہ یہ لفظ ابتدا میں ’’مونڈ بھیٹ ‘‘ تھا (یہ نئی بات ہے) مونڈ بمعنی سر، اور بھیٹ بمعنی ملنا۔ مونڈ سے ’و‘ گر کر منڈ ہوا اور منڈ سے ’ن‘ گر کر مڈ ہوگیا (یعنی اتنا گرا پڑا)۔ چونکہ ’و‘ اور ’ٹ‘ کا ہندی میں باہم بدل ہے جیسے ڈونڈی اور ڈُنڈی، اڈا اور اٹا، ٹھاڈ اور ٹھاٹ وغیرہ۔ پس ’مڈ‘ کا ’مٹ‘ بن گیا، نہ کہ مٹھ۔ علی ہذا القیاس بھیٹ سے بھیڑ ہوگیا۔ کیونکہ ’ٹ‘ اور ’ڑ‘ کا بھی اسی طرح باہم بدل پایا جاتا ہے جیسے ہٹتال کا ہڑتال، نمٹنا کا نبڑنا۔ (تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو)۔ چھڑانا کا چھٹانا۔ لہٰذا اس لفظ (مٹ بھیڑ یا مٹھ بھیڑ) کے مرکب معنی دو مختلف سروں کا ملنا یا ٹکرانا ہوئے۔
ہم اس جگہ نظیر اکبر آبادی کا ایک بند لکھتے ہیں کہ اس نے جو مٹ بھیڑ کو مٹھ بھیڑ باندھ دیا، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ زبان اور اس کی تحقیق یا فصیح و غیر فصیح الفاظ کا پابند نہیں۔ (یہ ہماری نہیں سید احمد دہلوی مؤلف فرہنگِ آصفیہ کی رائے ہے) اسی بند میں کئی ٹکسال باہر گھڑے ہوئے لفظ موجود ہیں جس سے وہ ساقط الاعتبار ہوسکتا ہے:
بے چین ہوا دل سینے میں گر دیکھنے میں کچھ دیر ہوئی
گھبرا کے نکلے بے بس ہو اور شوق کی گھیرا گھیر ہوئی
بازار گلی اور کوچوں میں ہر ساعت ہیرا پھیر ہوئی
تھی چاہ نظر بھر دیکھنے کی جس جاگے پر مٹھ بھیڑ ہوئی
ٹک دیکھ لیا دل شاد کیا خوش وقت ہوئے اور چل نکلے
یہ بحث کچھ طویل ہوگئی اور خود ہم بور ہوگئے، قارئین پر جانے کیا گزرے۔ لاہور سے ہمارے ممدوح جناب افتخار مجاز نے پچھلے شمارے میں ہمارے ایک جملے پر اعتراض کیا ہے۔ ہم نے لکھا تھا ’’ماہرینِ لسانیات کی رائے طلب کی ہے‘‘۔ کیا طلب کرنا یہاں موزوں ہے؟ درخواست یا استدعا نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اعتراض بجا ہے۔ چلیے ہم ماہرینِ لسانیات سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ لیکن طلب کرنے کا مفہوم ہر جگہ یہ نہیں کہ کسی زیردست یا ماتحت کو طلب کیا جائے۔ اب اِس وقت مجھے چائے کی طلب ہورہی ہے، اسے کیا کہیں گے؟ آپ کو جگر مراد آبادی کے استاد اصغر گونڈوی کا شعر سناتے ہیں جو انہوں نے اپنے مرشد کے حوالے سے کہا ہے:
میں سمجھتا تھا مجھے ان کی طلب ہے اصغرؔ
کیا خبر تھی وہی لے لیں گے سراپا مجھ کو
اچھا اگر ہم یہ کہیں (اور آپ بھی کہیں) اللہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی طلب کرو۔ سب کچھ اللہ ہی سے طلب کرنا چاہیے۔ تو کیا یہ غلط ہوگا؟ اخباروں میں اشتہارات شائع ہوتے ہیں جن میں ٹینڈر طلب کیا جاتا ہے۔ طلب عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے خواہش، ڈھونڈنا، جستجو۔ (مطلب کا مادہ بھی طلب ہے) نوراللغات میں مثال کے طور پر ایک جملہ دیا گیا ہے ’’اب زنانے میں نوشاہ کی طلب ہے‘‘۔ استاد ذوقؔ کا شعر بھی سن لیجیے:
حشر تک دل میں رہی اس سرو قامت کی طلب
یہ طلب ہے اپنی یارب کس قیامت کی طلب
ہم تو ماہرین کی رائے کے طلب گار یعنی خواہش مند ہیں۔
لفظ تشنہ اور تشنگی کے بارے میں ہم عموماً اس الجھن میں رہتے ہیں کہ ’ت‘ بالفتح ہے یا بالکسر۔ یعنی زبر ہے یا زیر۔ چند دن پہلے برخوردار آفتاب اقبال کا پروگرام دیکھا۔ وہ نہ صرف صحیح اردو بولتے ہیں بلکہ تلفظ کی تصحیح بھی کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں وہ کہہ رہے تھے کہ تِشنگی رہ گئی۔ انہوں نے ’ت‘ کو بالکسر کہا تو ہماری الجھن اور بڑھ گئی کہ ایسا عالم فاضل کہہ رہا ہے تو یہی درست ہوگا۔ لیکن لغات کو اس سے اتفاق نہیں۔ خود معروف شاعر عالمتاب تشنہ بھی اس سے متفق نہیں تھے۔ تشنہ اور تشنگی میں ’ت‘ پر زبر ہے اور بالکسر غلط ہے۔ تَشنہ کی جمع تشنگان ہے (فارسی کا لفظ ہے)۔ تشنہ سے کئی تراکیب اردو میں مستعمل ہیں، ان میں ایک تشنہ کام ہے۔ اس کا ذکر خاص طور پر یوں کیا کہ ’’کام‘‘ تالو کو کہتے ہیں۔ غالب نے ’’لذتِ کام و دہن‘‘ استعمال کیا ہے، تاہم ایک کتاب میں مصنف نے یہ جملہ استعمال کیا ہے ’’کام و دہن سے سرشار ہورہے تھے‘‘۔ گمان ہے کہ ان کو کام کا مطلب نہیں معلوم۔ تشنہ کامی کا مطلب ہے ناکامی۔ یہاں تالو کا کوئی دخل نہیں۔ غالب کا شعر ہے:
بقدرِ ظرف ہی ساقی خمارِ تشنہ کامی ہے
جو تُو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
خمیازہ کیا ہوتا ہے، اس کی پہلے کبھی وضاحت کی جا چکی ہے اور بہت اچھے ٹی وی پروگرام میں جس میں ایک خاتون کو محض ہنسنے کے لیے رکھا جاتا ہے، میزبان کہہ رہے تھے ’’ہاتھ چڑھ گیا‘‘۔ جب کہ محاورہ ہے ’’ہتھے چڑھ گیا‘‘۔ ہاتھ تو اتر جاتا ہے۔
یوسف بہت معروف و مشہور نام ہے۔ قرآن کریم میں سورہ یوسف ہے جس میں ایک نبی یوسف علیہ السلام کا ذکر ہے۔ اس نام میں پہلے اور تیسرے حرف پر پیش ہے یعنی ’’یُوسُف‘‘۔ اہلِ پنجاب جانے کیوں اس کا تلفظ ’’یوسَف‘‘ کرتے ہیں یعنی تیسرے حرف پر زبر۔ جب کہ قرآن کریم پڑھتے ہوئے صحیح پڑھتے ہوں گے۔ مزید ستم انگریزی میں ہورہا ہے۔ ایک انگریزی اخبار میں یوسف نام کے کالم نگار کا نام تواتر سے آتا ہے جس کے ہجے ہیں YOUSIF۔ یعنی یوسِف، سین کے نیچے زیر۔ یہ کیا نام ہوا؟