وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایسے وقت میں قبائلی علاقہ جات کا دورہ کیا ہے جب ایک طرف حکومت گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل فاٹا اصلاحات کے سلسلے میں تاریخوں پر تاریخیں دے رہی ہے اور دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتیں یک زبان ہوکر حکومت سے فاٹا اصلاحات بل فی الفور اور بغیر کسی مزید تاخیر کے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا نہ صرف مطالبہ کررہی ہیں بلکہ اس ضمن میں اسمبلی بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ احتجاج کے ذریعے بھی حکومت پر دبائو ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینے پر آمادہ نظر نہیں آتیں۔ اس سارے شور شرابے میں حکومت کی جانب سے ایسا تاثر دیا جارہا ہے گویا فاٹا اصلاحات اور خاص کر قبائلی علاقوں کا خیبر پختون خوا میں انضمام گویا اب دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی بات ہے، لیکن دوسری جانب حیران کن بلکہ مایوس کن صورت حال یہ ہے کہ اس تاخیر کے باوجود نہ تو اپوزیشن جماعتیں حکومتی وعدوں اور طفل تسلیوں پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی عام قبائل کو یہ اعتبار ہو پارہا ہے کہ ان کی سیاہ رات اب چند دنوں کی مہمان ہے اور وہ دن دور نہیں ہے جب قبائلی علاقوں سے ایف سی آر کا جابرانہ نظام ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا اور یہاں کے نصف کروڑ عوام بھی خود کو مملکت خداداد پاکستان کے برابر کے شہری سمجھتے ہوئے کم از کم ان بنیادی حقوق کے حق دار قرار پائیں گے جو ملک کے دیگر شہریوں کو کسی نہ کسی شکل میں حاصل ہیں۔ ملک کے مروجہ قوانین پر اعتراضات اور تنقید کی تمام تر گنجائش کے باوجود ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں رائج قوانین میں سو خامیوں کے باوجود اس قانون اور نظام کے تحت وہاں بسنے والوں کے ساتھ کم از کم انسانوں جیسا سلوک تو روا رکھا جاتا ہے۔ یہاں آزاد عدلیہ، منتخب اداروں، آزاد میڈیا اور سب سے بڑی آزادیٔ اظہار کے مواقع کی موجودگی وہ امید افزا امور ہیں جن کا قبائل میں ایف سی آر اور پو لیٹکل انتظامیہ کے زیراثر رہنے والے لاکھوں قبائل تصور بھی نہیں کرسکتے۔ حیرت ہے کہ دنیا جب اس جدید ترقی یافتہ دور میں چاند اور مریخ پر بسنے کی تیاریاں کررہی ہے ہمارے کرتا دھرتا اب بھی قبائل کو اسی سو سالہ پرانے فرسودہ سامراجی قانون کے شکنجے میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں جس کو قانون کہنا بھی لفظ قانون کی توہین ہے۔ یہ وہ اندھا، بہرا اور اپاہج نظام ہے جسے افریقہ کے سیاہ فام غلاموں اور افریقہ کے جنگلات میں نیم برہنہ رہنے اور نیم پختہ خوراک کھانے والی انتہائی غیر مہذب اقوام پر بھی مسلط نہیں کیا گیا تھا، لیکن ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جس نے اپنی آزادی کے بعد بھی پچھلے ستّر سال سے غلامی کا یہ طوق قبائل کے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔ یہ شاید قبائل کی بے حسی یا پھر ان کی حد سے زیادہ شرافت ہے کہ انھوں نے اس سیاہ قانون کے خلاف قیام پاکستان کے بعد وہ مزاحمت نہیں کی جو انگریز سامراج کے خلاف اُن کے یہاں سے انخلا تک جاری رہی تھی۔ قبائل کے ساتھ پچھلے ستّر برسوں میں میٹھی زبان سے جو وعدے وعید ہوتے رہے ہیں ان سے مجبور ہوکر انھوں نے نہ تو کبھی ریاستی عمل داری کو چیلنج کیا ہے اور نہ ہی وہ کبھی کسی مرحلے پر آمادۂ بغاوت ہوئے ہیں، حالانکہ ان ستّر برسوں میں متعدد ایسے مواقع آئے کہ اگر قبائل چاہتے تو وہ بیرونی امداد اور غیر ملکی قوتوں کے اشاروں اور سازشوں پر حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف میدان گرم کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسے ہر موقع پر نہ صرف استقامت اور دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہر طرح کے مصائب و آلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا ہے بلکہ ہمیشہ پاکستان سے وفاداری کو ہر چیز پر مقدم رکھنے میں بھی کسی حیل وحجت سے کام نہیں لیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کی سطح کے کسی لیڈر کا قبائلی علاقوں کا حالیہ دورہ چونکہ ایک طویل وقفے اور خاص کر دہشت گردی کے خلاف یہاں چلائی جانے والی مہم اور آپریشنوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد ہوا ہے اس لیے اکثر حلقے یہ بات بڑی شدومد سے کررہے تھے کہ وزیراعظم اس موقع پر حکومت کے تمام سابقہ گناہ بخشوانے کے شوق میں قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی اور خاص کر تمام قبائلی ایجنسیوں سے وزیراعظم کے دورے کے موقع پر جمع نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے پیش نظر اس موقع پر ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کے بندوبستی علاقوں میں انضمام کا تاریخی اعلان فرمائیں گے۔ لیکن وزیراعظم کی جانب سے اس’’بابرکت‘‘ موقع پر جب رسم دنیا بھی تھی اور دستور بھی تھا، فاٹا انضمام کا اعلان نہ کرنے سے اگر ایک طرف عام قبائل کے احساسِ محرومی میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف وہ نوجوان جو یہ امید آنکھوں میں سجائے موجود تھے کہ وزیراعظم ان کی موجودگی میں فاٹا انضمام کا اعلان کرکے قبائلی نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی اور بددلی کا سدباب کریں گے، لیکن ’’وائے ناکامی کہ متاعِ کارواں جاتا رہا،کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘ کے مصداق ہمیں آج تک وہ دن دیکھنا نصیب نہیں ہوسکا جس کا انتظار بیچارے قبائل پچھلے ستّر سال سے کررہے ہیں۔ اس حوالے سے مایوس کن امر یہ ہے کہ وزیراعظم نے ہزاروں قبائل کی موجودگی میں ایک بار پھر ان کی دل آزاری کرتے ہوئے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے یہ سرسری اعلان کرکے اپنی گلوخلاصی کی کہ فاٹا اصلاحات اب مہینوں نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے۔ وزیراعظم یہ دور کی کوڑی لاتے ہوئے شاید یہ بتانا بھول گئے، یا پھر انہوں نے دیدہ دانستہ قبائل سے یہ ہاتھ کرنا ضروری سمجھا کہ وہ نہ تو فاٹا اصلاحات میں تاخیر کی وجہ بتاسکے اور نہ ہی اشاروں کنایوں ہی میں سہی، انہوں نے فاٹا اصلاحات کے کچھ مجوزہ خدوخال بتانے کی زحمت گوارا کی، جس سے قبائلی عوام میں بالعموم اور نوجوانوں میں بالخصوص فاٹا انضمام کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش میں اضافہ ایک فطری امر قرار پائے گا۔
حرفِ آخر یہ کہ قبائل کے ساتھ ہونے والے بار بار کے دھوکوں اور انہیں بہلانے پھسلانے اور اندھیرے میں رکھنے کے بار بار کے تلخ تجربات کے بعد قبائل کو کسی بھی حکومتی وعدے اور اعلان پر اب تب تک یقین نہیں آئے گا جب تک حکومت قبائلی عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے فاٹا اصلاحات اور انضمام کا وہ بل پاس نہیں کرا لیتی جس کا قبائل کو پچھلے ستّر برسوں سے شدت کے ساتھ انتظار ہے۔