عیسوی کلینڈر کا سال 2017ء آخری سانسیں لے رہا ہے، جس کی رخصتی پر 2018ء کا سورج طلوع ہونے کو بے تاب ہے۔ موسم حسب ِ معمول بہت زیادہ تو نہیں لیکن سرد ضرور ہے اور نئے سال کے پہلے مہینے میں سردی کی شدت میں اضافے کی توقع ہے، تاہم سیاسی موسم اس کے برعکس کروٹ لیتا محسوس ہورہا ہے اور نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی حدت بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے جسے سیاسی گہماگہمی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے کہ ملکی حالات میں اگر کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آتی تو پھر 2018ء انتخابات کا سال ہے اور اس حوالے سے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ فطری امر ہے۔ تاہم اب تک سامنے آنے والی صورتِ حال میں نئے سال کے آغاز سے ہی جنم لینے والی سیاسی سرگرمی، معمول کی انتخابی گہماگہمی سے بڑھ کر مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین باہم محاذ آرائی خدا نہ کرے کسی بڑے تصادم کی شکل اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔
عام طور پر سیاسی محاذ آرائی کی کیفیت حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے پیدا کی جایا کرتی ہے، مگر 2018ء کی متوقع محاذ آرائی کا منفرد پہلو یہ ہے کہ خود حکمران جماعت اس کے لیے پیش قدمی کرتی دکھائی دے رہی ہے، چنانچہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے پہلے خود حکمران نواز لیگ کے سربراہ، نااہل قرار پاکر سابق ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ملک میں ’’تحریکِ عدل‘‘ چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس تحریک میں خود حکمران لیگ کے سینئر قائدین، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے حکمران شریف خاندان کی بھی کس قدر حمایت انہیں حاصل ہے، اس کی ایک جھلک 26 دسمبر کو لاہور میں جاتی عمرہ کے محلات میں منتقلی سے قبل کی ماڈل ٹائون میں شریف خاندان کی رہائش گاہ پر منعقدہ ’’سوشل میڈیا کنونشن‘‘ میں دیکھنے میں آئی۔ اس کنونشن کو ’’تحریک عدل‘‘ کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے مگر حیران کن حقیقت یہ ہے کہ اس کنونشن میں نواز لیگ کے مرکزی و صوبائی قائدین میں سے کوئی بھی قابلِ ذکر نام موجود نہیں تھا۔ یہاں میاں نوازشریف، اُن کی بیٹی بیگم مریم صفدر اور دانیال عزیز کی تنہائی دیدنی تھی۔ کنونشن لاہور میں شریف خاندان کے پرانے گھر میں تھا مگر شریف خاندان میں سے متحرک سیاسی چہروں میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز سمیت خاندان کا کوئی فرد نوازشریف کے شانہ بشانہ نہیں کھڑا تھا، حتیٰ کہ صوبائی کابینہ کے ارکان میں سے بھی کسی نے نوازشریف کے اس اہم پروگرام میں شریک ہونا مناسب نہیں سمجھا، اسی طرح کسی قابلِ ذکر مسلم لیگی رہنما اور وفاقی کابینہ کے ارکان میں سے بھی کسی نے یہاں حاضری لگوانا ضروری نہیں سمجھی۔ چودھری نثار کی غیر حاضری تو اب سمجھ میں آنے والی بات ہے مگر لاہور سے رکن اسمبلی، ریلوے کے وزیر اور شوریدہ سری کے لیے معروف خواجہ سعد رفیق نے بھی لاہور میں موجود ہونے کے باوجود کنونشن کا رخ نہیں کیا… جس سے ہوا کے رخ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم بہت سے تلخ حقائق کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے میاں نوازشریف نے ’’تحریک عدل‘‘ برپا کرنے کا اعلان کردیا ہے جو بہرحال سیاسی ماحول میں گرمی کا سبب بنے گی۔
دوسری جانب حزب اختلاف کی مختلف جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے طور پر بھی اور اجتماعی انداز میں بھی سیاسی میدان میں ہلچل برپا کرنے کے اعلانات سامنے آ چکے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹائون سے متعلق عدالتِ عالیہ لاہور کے حکم پر جسٹس باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد سے ازسرنو خاصے متحرک ہوچکے ہیں اور انہوں نے میاں نوازشریف کے ’’تحریکِ عدل‘‘ کے اعلان کے جواب میں ’’تحریکِ قصاص‘‘ چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ میاں نوازشریف کے اعلان کے فوری بعد آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے میاں نوازشریف کو للکارتے ہوئے کہا کہ تم ’’تحریکِ عدل‘‘ چلائو، ہم اس دن ’’تحریکِ قصاص‘‘ شروع کردیں گے۔ اس اعلان سے پہلے اور بعد ڈاکٹر طاہرالقادری حزبِ اختلاف کی کم و بیش تمام جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں یا کم از کم رابطے ضرور کرچکے ہیں اور انہوں نے پہلے 28 دسمبر کو کُل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا جسے بعد ازاں 30 دسمبر تک دو دن کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ اسی دوران وہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو 31 دسمبر تک مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دے چکے ہیں، جس کے بعد دمادم مست قلندر کی دھمکی دی گئی ہے، اور اس دھمکی کو عملی شکل دینے کے لیے اپنی جماعت کے کارکنوں کو بھرپور تیاریوں کی ہدایات بھی انہوں نے جاری کردی ہیں، اس کے علاوہ ملک کی اہم ترین سیاسی شخصیات سابق صدر آصف علی زرداری، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، پاک سرزمین پارٹی کے مصطفی کمال، مسلم لیگ (ق) کے قائدین چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سمیت متعدد رہنما ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرکے اُن کی تحریک میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں، حتیٰ کہ عمران خاں نے تو منگل کے روز اُن سے ملاقات کے بعد یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک کے مقاصد کی خاطر آصف علی زرداری کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر بھی تیار ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق سے پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے خود منصورہ جاکر ملاقات کی ہے، جس کے دوران انہوں نے بھی کُل جماعتی کانفرنس میں جماعت کی شرکت اور ’’تحریکِ قصاص‘‘ کی حمایت پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے یکجا ہونے کے امکانات کس تیزی سے روشن ہورہے ہیں۔
تیسری جانب ختمِ نبوت کے مسئلے پر ناراض ہونے والے حکومت کے حامی علماء و مشائخ کی تحریک میں بھی تیزی آرہی ہے۔ پیر حمید الدین سیالوی، جن کے فیصل آباد کے جلسے میں نواز لیگ کے پانچ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے استعفوں کا اعلان کیا تھا، انہوں نے اپنی تحریک کے اگلے مرحلے میں گوجرانوالہ میں جلسہ منعقد کیا اور ڈاکٹر طاہرالقادری ہی کی طرح شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفوں کے لیے 31 دسمبر کی آخری تاریخ دی ہے، اور حکومت کے گھٹنے ٹیکنے تک تحریک جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے پانچ جنوری کو اسلام آباد سے کراچی تک ’’ختم نبوت ٹرین مارچ‘‘ کرنے اور چھے جنوری کو کراچی کے نشتر پارک میں ’’ختمِ نبوت کانفرنس‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد لاہور اور دیگر شہروں تک بھی اس تحریک کو وسعت دی جائے گی۔
’’تحریک لبیک‘‘ کے خادم رضوی اور اشرف آصف جلالی گروپوں سے پنڈی اور لاہور میں دھرنے ختم کرانے کے لیے کیے گئے حکومتی معاہدوں کی مدت اور مہلت بھی ختم ہورہی ہے مگر حکومت کی جانب سے ان معاہدوں میں کیے گئے وعدے تاحال پورے نہیں کیے گئے۔ یوں ’’تحریک لبیک‘‘ کی دھرنا تحریک جس نے ایک ماہ قبل پورے ملک کے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا، ایک بار پھر اپنا رنگ دکھا سکتی ہے جس کا جواز خود حکومت نے فراہم کیا ہے۔
قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختون خوا میں شامل کرنے کا اصولی فیصلہ اور اس ضمن میں مسودۂ قانون پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا واضح اور دوٹوک اعلان کرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ کرکے حکومت نے اپنے لیے ایک اور مصیبت مول لے لی ہے۔ جماعت اسلامی اس مقصد کے لیے اسلام آباد تک مارچ کرچکی ہے اور اب جماعت کے امیر سینیٹرسراج الحق نے اس مقصد کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کررکھا ہے۔ اسی مقصد کے لیے تحریک انصاف کے عمران خان بھی تحریک برپا کرنے کا اعلان کرچکے ہیں، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی ’’فاٹا‘‘ کو صوبہ خیبر میں شامل کرنے میں مزید تاخیر کی صورت میں آخری حد تک جانے کا اعلان کردیا ہے۔یوں اگر یہ کہا جائے کہ نئے سال کے آغاز سے ملک بھر میں سیاسی تحریکوں کا موسم شروع ہو رہا ہے تو بے جانہ ہوگا، اور اس موسم کا سب سے دلچسپ پہلو یہی ہوگا کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ ساتھ خود حکمران جماعت بھی میدان میں ہوگی… اور یہی پہلو وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے لیے سب سے زیادہ مشکلات اور پریشانی کا باعث ہوگا کہ ایک جانب تو حزبِ اختلاف کی جماعتیں اُن کے خلاف صف آراء ہوں گی، خصوصاً ڈاکٹر طاہرالقادری کے کنٹینر پر جمع تقریباً تمام جماعتوں کے قائدین سانحہ ماڈل ٹائون میں جاں بحق ہونے والے 14 بے گناہ لوگوں کے خون کا حساب اور قصاص طلب کررہے ہوں گے، جب کہ پیر حمید الدین سیالوی کی ’’تحریک لبیک‘‘ بھی ان کی حکومت کے خاتمے کے درپے ہوگی، اور ان سب کے ساتھ خود ان کے برادر بزرگ میاں نوازشریف بھی اپنی ’’تحریکِ عدل‘‘ برپا کرنے پر بضد ہوں گے۔ میاں شہبازشریف اور ان کے ساتھی اگرچہ ایک سے زائد بار کھل کر میاں نوازشریف کی تصادم کی پالیسی سے اختلاف کا اظہار کرچکے ہیں مگر اُس وقت کیفیت عجیب ہوگی جب میاں نوازشریف اپنی تحریکِ عدل اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اپنی اپنی حکومت مخالف تحریکوں کے ساتھ میدان میں ہوں گی۔ شہبازشریف کی مشکل یہ ہوگی کہ کسی کو روکیں، کسی کو ٹوکیں اور کسی کو کھلی چھوٹ دیں تو کیونکر…؟ اگر بڑے بھائی کی تحریکِ عدل کو روکتے ہیں جو فی الحال ان کے لیے ممکن نہیں تو جگ ہنسائی ہوتی ہے، اور اگر حزبِ اختلاف کو بھی حسبِ منشا تحریک چلانے دیں تو تباہی ہوتی ہے…!!!