جماعت اسلامی کا فیصلہ
ریفرنڈم کے مسئلہ پر غور کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس لاہور میں ۳ اور ۴ دسمبر کو منعقد ہوا۔ میاں صاحب نے بتایا کہ صدر صاحب نے اپنی سابقہ گفتگو میں ریفرنڈم کرانے کے بارے میں سرے سے کوئی ذکر تک نہیں کیا۔ مجلس عاملہ میں اس بارے میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اس لیے ۹ دسمبر کو شوریٰ کا ایک غیرمعمولی اجلاس طلب کرلیا گیا۔
۹ دسمبر کو شوریٰ کا اجلاس شروع ہونے پر امیر جماعت میاں طفیل محمد نے فرمایا کہ یکم دسمبر کو ریفرنڈم کرانے کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔ اس کے لیے صرف انیس دن کا وقت دیا گیا ہے۔ مجلس عاملہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اس لیے شوریٰ بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابتدائی گفتگو کے بعد میاں صاحب نے اراکین شوریٰ کو اظہار خیال کی دعوت دی۔
۹ دسمبر کو جن ممبران نے اظہار خیال کیا ان میں سے اکثر کا موقف یہ تھا کہ اسلام ملک کی اساس ہے۔ اس پر کسی ریفرنڈم کرانے کی کوئی حاجت نہیں۔ اس دن جن اصحاب نے بحث میں حصہ لیا ان میں سے دو ریفرنڈم کی مشروط حمایت اور تین حمایت کے حق میں تھے۔ جبکہ سات ممبران نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ ریفرنڈم سے لاتعلقی کا اظہار کرکے اس کی مخالفت کی جائے۔ ددوران بحث میاں صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صدر سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ اگر وہ ریفرنڈم سے قبل کچھ امور کا اعلان کردیں تو پھر ہم ریفرنڈم کی حمایت کرسکتے ہیں۔
۹ دسمبر کی رات کو ساڑھے گیارہ بجے شب میاں صاحب کی صدر سے ملاقات ہوئی جو ایک گھنٹے جاری رہی۔ مولانا جان محمد عباسی بھی اس ملاقات میں میاں صاحب کے ہمراہ تھے۔
جماعت اسلامی کے مطالبات
۱۰ دسمبر کا اجلاس شروع ہونے پر میاں صاحب نے شرکاء کو صدر ضیاء کے ساتھ اپنی گزشتہ شب ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔ میاں صاحب نے کہا کہ گفتگو کا آغاز بے تکلفی کے ماحول میں ہوا۔ میں نے ان سے شکوہ کیا کہ اگر آپ نے اعلان سے قبل ہم سے مشورہ کرلیا ہوتا تو بہتر تھا۔ صدر صاحب نے جواب دیا کہ میں نے مشورہ تو کیا تھا لیکن آپ حضرات سے بات نہیں کی جاسکی۔ صدر صاحب نے ریفرنڈم میں حمایت کی اپیل کی۔ ہم نے کہا کہ اگر آپ ہمارے یہ مطالبات مان لیں تو پھر ہمارے لیے ایسا کرنا ممکن ہوگا۔
(۱) آپ اس بات کی گارنٹی دیں کے آپ ۱۹۷۳ء کے دستور کو بنیادی طور پر تبدیل نہیں کردیں گے۔ وزیراعظم اور صدر کے مابین اختیارات کے توازن میں آپ وزیراعظم کو محض نمائشی نہیں بنادیں گے بلکہ وزیراعظم بااختیار ہوگا۔
(۲) صدر بڑے صوبے سے ہوگا تو وزیراعظم کسی چھوٹے صوبے سے
(۳) ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسمبلیوں کے جو اختیارات ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ صوبائی خودمختاری کی حدود حسب سابق رہیں گی۔
(۴) تعلیمی اداروں سے نکالے ہوئے طلبہ کو دوبارہ داخلہ دیا جائے گا۔ ان پر قائم کیے ہوئے مقدمات واپس لیے جائیں گے اور
(۵) ۱۲ اگست ۱۹۸۳ء کے اعلان کے مطابق ملکی انتخابات ۲۳ مارچ ۱۹۸۵ء تک ضرور کرادیئے جائیں گے اور اقتدار منتخب نمائندوں اور اداروں کے سپرد کردیا جائیگا۔
گفتگو کا ماحصل بتانے کے بعد میاں صاحب نے فرمایا کہ اب ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ریفرنڈم میں حصہ لیا جائے اور سوال کا جواب ہاں میں دیا جائے۔
بہت سے ارکان شوریٰ نے کہا ’’ٹھیک ہے‘‘ اور میاں صاحب کا فیصلہ شوریٰ نے مان لیا۔
لیکن ایک رکن شوریٰ محمود اعظم فاروقی نے کھڑے ہوکر کہا کہ میری یہ رائے ریکارڈ پر لائی جائے کہ میں اس فیصلے کو جماعت کی روایات اور مزاج کے خلاف سمجھتاہوں۔ یہ ہماری سیاسی خودکشی ہے، ایک فوجی آمر کی حمایت کی جارہی ہے۔ اس فیصلے کے ذریعہ بہت سے ارکان آزمائش میں پڑجائیں گے۔ ان کی رائے ریکارڈ کرلی گئی اور شوریٰ کے اس فیصلے کا اعلان کردیا کہ ان یقین دہانیوں کی روشنی میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔
ریفرنڈم اور نتائج
۱۹ دسمبر کو ریفرنڈم ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ جناب جسٹس ایس اے نصرت نے جمعرات ۲۰ دسمبر کی شب کو ریفرنڈم کے نتائج کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ الیکشن کمیشن نے ملک کے دور دراز افتادہ مقامات سے نتائج حاصل کرنے، انہیں مرتب کرنے اور نتیجہ کے اعلان میں غیرمعمولی کارکردگی کا ثبوت دیا اور ۱۹ دسمبر کو ہونے والی ووٹنگ کا اعلان اگلے دن ہی ۲۰ دسمبر کی رات کو کردیا گو صدارتی حکم کے مطابق یہ اعلان ۲۲ دسمبر تک کیا جاسکتا تھا۔ چیف کمشنر نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنڈم میں ۱۶ء۶۲ فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ صدر ضیاء نے ۷۱ء۹۷ فی صد مثبت ووٹ حاصل کیے۔ سرحد میں مثبت ووٹوں کا تناسب ۱۷ء۹۹، پنجاب میں ۲۱ء۹۸، بلوچستان میں ۹۴ء۹۷ اور سندھ میں ۱۹ء۹۶ء رہا۔ تفصیل یوں ہے۔
عام انتخابات
۱۲ جنوری ۱۹۸۵ء کو جنرل ضیاء نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر غیرجماعتی اور جداگانہ طریقہ پر ان تاریخوں میں ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات 25 فروری کو اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ۲۹ فروری کو۔
اس کے بعد صوبائی اسمبلیاں وسط مارچ میں سینیٹ کے لیے ممبران کا انتخاب کریں گی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا پہلا مشترکہ اجلاس ۲۳ مارچ ۱۹۸۵ء کو ہوگا۔ مارشل لا ۲۳ مارچ کے بعد بھی چند ماہ تک جاری رہے گا۔ جنرل ضیاء نے کہا کہ یہ انتخابات اسلام کے سیاسی نظام حکومت کے قیام کے لیے کرائے جارہے ہیں۔
۱۶ جنوری کو وفاقی کابینہ کے ایک فیصلے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے قانون میں کی گئی اس ترمیم کو ختم کردیا گیا جس کی رو سے غیررجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے عہدہ داروں کو الیکشن میں حصہ لینے کا نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح جن ۷۴ افراد پر سے پابندی اٹھا کر انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دیدیا گیا ان میں بیگم بھٹو، بے نظیر، غلام مصطفی جتوئی، ولی خان، شیرباز خاں مزاری، بیگم نسیم ولی، ٹکا خان اور جنرل نصیر اللہ بابر بھی شامل تھے۔ اب یہ پابندی صرف ٹریبونل سے نااہل قرار دیے جانے والے افراد پر باقی رہی بعد میں ان میں سے بھی ۴۷ افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی خصوصی اجلازت دیدی گئی۔
انتخابات
۲۵ فروری کو ملک بھر میں قومی اسمبلی کے اور اس کے بعد شیڈول کے مطابق ۲۸فروری کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مکمل ہوگئے۔ ایم آر ڈی نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ بعض مقامات پر پولنگ کے دن انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں رائے ہموار کرنے کے لیے جلوس نکالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اس معاملہ میں ایم آر ڈی کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ عوام نے پوری طرح ان انتخابات میں حصہ لیا۔ ووٹنگ کی شرح تقریباً پچاس فیصد رہی۔
۱۹۷۳ء کے دستور کے احیاء کا حکم مجریہ ۱۹۸۵ء۔Revival of Constitution of 1973 order, 1985
آئین میں اپنی مطلوبہ ترامیم کرنے کے لیے اسی دن صدارتی حکم نمبر ۱۴ نافذ کردیا گیا جو اسی تاریخ یعنی ۲ مارچ سے روبعمل آگیا۔ حکم میں کہا گیا کہ ترمیم شدہ آئین کی دفعات اس وقت سے نافذ ہوں گی جب صدر اس کا اعلان کریں۔ مختلف دفعات کے لیے مختلف دن مقرر کیے جاسکتے ہیں، ان ترامیم کے ذریعہ دستور میں پارلیمنٹ کے ساتھ مجلس شوریٰ کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا۔قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ قرار دے دیا گیا۔آئین میں جہاں زکوٰۃ، اوقاف اور مساجد کو بہتر طور پر منظم کرنے کا ذکر ہے اس میں لفظ عشر کا اضافہ کردیا گیا۔آئین کے آرٹیکل ۵۱ میں درج تھا کہ قومی اسمبلی ۲۰۷ ممبران پر مشتمل ہوگی۔ اس میں لفظ مسلم، کا اضافہ کیا گیا اور اقلیتوں کو اضافی دس نشستیں دی گئیں جو جداگانہ انتخاب کے طریقے پر وہ خود پر کریں گی۔سینیٹ کی نشستیں ۶۳ سے بڑھا کر ۸۷ کردی گئیں۔کوٹہ سسٹم میں مزید دس سال کے اضافے کو آئینی تحفظ فراہم کردیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کے مطابق اس کی مدت ۱۹۸۳ء میں ختم ہوگئی تھی۔ مارشل لا کے دوران اس میں مزید دس سال کا اضافہ کیا گیا اور اب اس اضافے کو آئینی تحفظ دے دیا گیا۔
(جاری ہے)