حکیم سید مجاہد محمود برکاتی مرحوم
میرے والد علامہ حکیم سید محمود احمد برکاتی کی۸۸ سال کی عمر میں شہادت ہوئی۔ شہادت کے وقت وہ صحت مند تھے۔ آنکھیں بچپن سے کمزور تھیں۔ چشمہ لگاتے تھے۔۸۰ سال کی عمر میں اچانک اُن کی بینائی چلی گئی۔ نظر آنا بند ہوگیا۔ ہم نے پاکستان کے بڑے بڑے ماہرینِ امراضِ چشم کو دکھایا، ان کی رپورٹیں امریکہ بھیجیں۔ ہر طرف سے مایوسی کا اظہار ہوا۔ مگر ابا مایوس نہیں تھے۔ نہ پڑھنے کا انہیں بہت افسوس تھا۔ انہوں نے اپنا علاج خود کیا۔ دیگر دوائوں کے ساتھ گاجر کا جوس باقاعدگی سے میری والدہ انہیں دیا کرتی تھیں۔ اللہ کی قدرت ان کی بینائی واپس آگئی۔ میں انہیں ماہر ِ امراض چشم کے پاس لے گیا۔ انہوں نے بڑی بے زاری سے کہا کہ میں نے آپ کو بتایا تو تھا کہ ان کی بینائی واپس نہیں آسکتی۔ اس کے جواب میں میرے والد نے کہا: ڈاکٹر صاحب! مجھے نظر آرہا ہے، میں بغیر سہارے کے آیا ہوں۔ ڈاکٹر حیران تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میرے والد نے کہا: میں نے اپنی دوائوں کے ساتھ گاجر کا جوس استعمال کیا ہے۔
گاجر وٹامن اے کا خزانہ ہے۔ کیروٹین نامی مادہ جو وٹامن اے کی ابتدائی شکل ہے، گاجر کے انگریزی نام ’کیرٹ‘ سے ماخوذ ہے۔ کیروٹین ہمارے جسم میں جاکر جگر کے ذریعے وٹامن اے بن جاتا ہے۔
گاجر کی کاشت دنیا بھر میں ہوتی ہے اور ہر جگہ یہ بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔ گاجر حیاتین الف (وٹامن اے) سے بھرپور ہوتی ہے۔ یہ القیٰ اجزا نمکیات سے لبریز سبزی ہے۔ گاجر پوٹاشیم، کیلشیم، فاسفورس، گندھک اور سوڈیم جیسے اہم نمکیات کا خزانہ ہے۔ اس کا شمار بہترین طاقت بخش غذائی اشیا میں ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس میں موجوہ زرد رنگ یعنی بیٹا کیروٹین اس کا بہت اہم جز ہے۔ یہی جسم میں جاکر حیاتین الف میں تبدیل ہوتا ہے، اور یہ حیاتین جسم کی قوتِ مدافعت کو مضبوط رکھتی ہے۔ ابالنے کی صورت میں گاجروں کے دو اہم جز، یعنی پوٹاشیم کی مقدار ایک تہائی اور فولاد کی مقدار گھٹ کر نصف ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اس کے دوسرے اجزا بھی کم ہوجاتے ہیں، اس لیے گاجر ہمیشہ کچی کھانی چاہیے، یا پھر اسے بھاپ پر گلا کر یا پکاکر کھانا چاہیے۔ کچی گاجر میں بیٹا کیروٹین کم ہوتی ہے، لیکن پکانے سے اس میں تین گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور بہ آسانی ہضم بھی ہوجاتی ہے۔
سبز گاجر پھل کی طرح کچی بھی کھائی جاتی ہے۔ نمک، مرچ لگا کر کھانے سے بڑا لطف آتا ہے۔ غذائیت کے اعتبار سے گاجر میں ۲ء۸۸ فی صد پانی ہوتا ہے۔ سو گرام گاجر میں ۴۵ حرارے (کیلوریز)، ۲ء۱ گرام پروٹین، ۱۲ گرام کیلشیم، ۱۲۰۰۰ آئی یو حیاتین الف (وٹامن اے)، ۰۴ء۱۰ ملی گرام الیکاربک ایسڈ، ۴۲ء ملی گرام تھایامن اور ۲۱ء۰ ملی گرام نایاسن پائی جاتی ہے۔
امریکن ڈائٹک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر واٹسن کے مطابق روزانہ ۱۲۸۰۰ یونٹ بیٹا کیروٹین کھانی چاہیے، جو کدوکش کی ہوئی گاجروں کی آدھی پیالی سے ہمیں مل جاتی ہے۔ بیٹا کیروٹین کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ نہایت مؤثر مانع سرطان ہے۔ جان ہاپکنز یونی ورسٹی کی ۱۹۸۷ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پھیپھڑے کے سرطان کے مریضوں میں اس کی مقدار میں نمایاں طور پر کمی پائی گئی۔ اب یہ کھوج لگایا جارہا ہے کہ کیا اس کی کمی دوسری قسم کے سرطان کا بھی سبب ہوئی ہے؟ اور کیا اس کا استعمال ان کے تدارک کی مؤثر تدبیر ثابت ہوسکتی ہے؟ اب تک ملنے والی رپورٹوں سے یہی ظاہر ہوا ہے کہ بیٹا کیروٹین ہر قسم کے سرطان کو روکتی ہے۔ گویا گاجر سرطان کے خلاف ایک مؤثر ڈھال ہے۔
گاجر غذائیت کا سامان ہی نہیں کرتی، اس سے صحت، فرحت اور توانائی کا سامان بھی فراہم ہوتا ہے۔ اختلاجِ قلب، یعنی دھڑکن اور گھبراہٹ کے ازالے کے لیے گاجروں پر عرقِ گلاب چھڑک کر رات کو جالی سے ڈھک کر شبنم میں رکھ دیں، صبح اسے کھانے سے بہت فائدہ اور سکون ہوتا ہے۔ اس کی شکر آسانی سے ہضم ہوجاتی ہے۔ گاجر خون بھی صاف کرتی ہے۔ دودھ کے ساتھ اس کا استعمال ایک مؤثر ٹانک ثابت ہوتا ہے اور اس کی کھیر کے استعمال سے زچگی کے دوران ہونے والی چھوت کی شکایات بھی دور ہوجاتی ہیں۔ گاجر کے استعمال سے مادہ حیات بنتا اور گاڑھا بھی رہتا ہے۔ شہد میں تیار گاجر کا مربا قلب کے علاوہ کھانسی اور نزلے زکام میں بھی مفید ہوتا ہے۔ تازہ گاجروں کے رس میں ان تمام خاصیتوں کے علاوہ السر اور سرطان کا سبب بننے والے مضر اجزا دور کرنے کی خاصیت ہوتی ہے۔گاجر کا رس جگر سے مضر اجزا خارج کرکے اس کی صحت اور کارکردگی میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہ گردوں کی بھی صفائی کرتا ہے۔ جسم میں توانائی اور طاقت بڑھ جاتی ہے۔ گاجر کا ریشہ قبض دور کرتا ہے۔ یہ قبض کے لیے گندم کی بھوسی سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اس سے آنتوں کی سوزش یا جلن بھی دور ہوتی ہے اور تیزابی اثرات ختم ہوجاتے ہیں۔
شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید نے اپنی تصنیف ’’مفید غذائیں، دوائیں‘‘ میں لکھا ہے کہ نئی تحقیق نے بھی گاجر کے فوائد کی تصدیق کردی ہے۔ گاجر میں شکر، نشاستہ وغیرہ غذائی اجزا اور فولاد، چونا، فاسفورس جیسے فائدے بخش نمکیات کے علاوہ حیاتین الف، ب اور ج (وٹامن اے، بی اور سی) بھی پائے جاتے ہیں، لہٰذا گاجر بدن کی نشو ونما کرنے اور طاقت بخشنے کے لیے بہت اچھی اور مفید غذا ہے۔ اطبائے کرام کی رائے میں گاجر ایک مفید ترکاری ہے، جو ہر موسم میں ملتی ہے اور امیر و غریب سب یکساں اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ مفرح قلب و دماغ ہے۔ اعضائے رئیسہ کو طاقت دیتی ہے۔ گاجر نہ زود ہضم ہوتی ہے اور نہ ثقیل۔ یہ بصارت کی کمزوری کو دور کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کھانسی، دمہ، دردِ سینہ، سنگِ گردہ، مثانے کی خرابیوں اور جگر کی سکڑن کو دور کرتی ہے۔ گاجر کھانے سے گردے اور مثانے کی پتھری ٹوٹ کر پیشاب کے راستے خارج ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں گاجر نسوانی اور مردانہ امراض میں شفا بخش ہے۔ دودھ دینے والے جانور جیسے بھینس، گائے، بکری وغیرہ کو اگر گاجر کھلائی جائے تو وہ زیادہ دودھ دینے لگتی ہیں۔
گاجر ایک موسمی ترکاری ہے۔ یہ موسم کے علاوہ بھی ہر سبزی فروش کی دکان کی زینت بنی رہتی ہے۔ گاجر کے رس کا ایک گلاس شربت مصری کے ساتھ پلانے سے مریض کا یرقان دور ہوجاتا ہے اور خون کی افزائش کے علاوہ چہرے کی رنگت اور تازگی بڑھ جاتی ہے۔ گاجر کے فوائد بے شمار ہیں، مگر بسیار خوری پر یہ نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے، یعنی ریاح کی تکلیف بڑھاتی ہے۔ لہٰذا گاجر اور اس کا حلوہ اعتدال کے ساتھ کھانا چاہیے، تاکہ اس سے پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔
علامہ حکیم نجم الغنی گاجر کی صفات و شناخت اور اقسام کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مزروعہ روئیدگی کی گائو دم جڑ ہے۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ جبکہ صاحبِ رہنمائے عقاقیر فرماتے ہیں کہ یہ ایک قسم کی ترکاری ہے جسے کاشت کیا جاتا ہے اور اس کی جڑ کھانے کے کام آتی ہے۔ ذائقہ میٹھا اور خوشگوار ہوتا ہے۔ حکیم عبدالعزیز خان گاجر کی اقسام کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ گاجر ہری اور بستانی دو قسم کی ہوتی ہے، بستانی حقیقت اور رنگ کے لحاظ سے کئی اقسام میں منقسم ہے چنانچہ رنگ کے اعتبار سے اس کی چار اقسام ہیں:
(۱) سفید مائل: آج بھی اس کی کاشت پوری دنیا میں بالعموم اور پاک و ہند کے علاقے میں بالخصوص ہوتی ہے۔ (۲) اودے رنگ کی۔ (۳)قدرے سرخ رنگ کی۔ (۴) زیادہ سرخ رنگ کی۔ لیکن ان اقسام کا اختلاف محض زمین کے اختلافات پر موقوف ہے۔ چنانچہ ریتیلی زمین کی گاجر سفیدی مائل چکنی، اودی، شیریں… اور پہاڑی زمین کی سرخ رنگ کی ہوتی ہے، اور ان میں اچھی قسم کی سرخ، کم ریشہ و شیریں اور موسم سرما میں پیدا ہونے والی ہوتی ہے۔ گاجر کی طبیعت گرم و تر پہلے یا دوسرے درجے میں، یا گرم دوسرے درجہ میں اور تر پہلے درجہ میں ہوتی ہے، جبکہ وید گرمی و سردی میں معتدل جانتے ہیں۔ بضاعت الاطباء میں مذکور ہے کہ اس کی جڑ پہلے درجہ میں گر م و تر ہوتی ہے۔
اگر گاجر کھانا چاہیں تو تر و تازہ، ملائم گاجریں لے کر کھانا کھانے کے بعد خوب چبا چبا کر کھائیں۔ اس سے دانتوں اور مسوڑھوں کو فائدہ پہنچنے کے علاوہ غذا ہضم کرنے میں بھی مدد ملے گی اور بدن کو غذائیت اور تقویت حاصل ہوگی۔ اور گاجروں کو پکا کرکھایا جائے تو پکاتے وقت ان کا پانی اسی میں جذب کردینا چاہیے۔ ان کو پکاکر پانی پھینک دینے سے فائدے مند اجزاء بے کار چلے جاتے ہیں۔
گاجر تقریباًدو ہزار سال سے زائد عرصہ سے کاشت ہوتی چلی آئی ہے۔ شہنشاہ بابر کے متعلق روایت ہے کہ وہ تلی ہوئی گاجریں بڑے شوق سے کھایا کرتا تھا۔ وید کہتے ہیں کہ گاجر بھوک پیدا کرتی اور بواسیر کو مٹاتی ہے۔ کچی گاجر کھانے سے آنتوں کے کیڑے مرتے ہیں۔ بگڑے ہوئے زخموں پر گاجر کا لیپ کرتے ہیں۔
گاجر غریبوں کاسیب ہے۔ گاجر جگر کے سدے کھولتی ہے اور جسم کو طاقت دینے میں لاثانی سبزی ہے۔ اسے کھانے سے پیشاب کھل کر آتا ہے۔ مثانہ و گردے کی پتھری گاجر کھانے سے ٹوٹ جاتی ہے اور ریزہ ریزہ ہوکر پیشاب کے ذریعے نکل جاتی ہے۔ گاجر کا حلوہ جسم کو طاقت دیتا ہے اور دل کے مریض کے لیے بے حد مفید ہے۔
گاجر ایسی سبزی ہے جس میں تمام سبزیوں سے زیادہ غذائیت ہے۔ گاجر کا مربہ چاندی کے ورق لگاکر کھانے سے بے حد مقوی اور فرخت بخش بن جاتا ہے۔ آپ بادام کی چند گریاں کھالیں اور گاجر کے جوس کا ایک گلاس ہر صبح پی لیں، یہ بے حد طاقتور چیز ہے۔ مگر سردیوں میں یہ گرم کرکے استعمال کرنا چاہیے۔کچی گاجریں کھانے سے بینائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گاجریں مردوں کے لیے بے حد مفید ہیں۔
گاجرکو مختلف طریقوں سے پکایا اور تیار کیا جاتا ہے۔ مگر ہم آج آپ کو گھر کے ہر فرد کے لیے ملین ڈالر کی دیسی ڈش بتاتے ہیں جس سے دماغی کمزوری، بینائی، دل کی کمزوری، بواسیر،گردے کے امراض اور عام کمزوری میں فائدہ ہوگا۔ گاجر اور چھوٹی میتھی کو عام سبزی کے طریقے سے پکائیے۔ خصوصاً بچوں اور جن کے چشمہ لگا ہوا ہو اُن کو ضرور کھلائیے۔