جاوید لانگاہ؍ اسامہ تنولی
’’قد ساڑھے چھے فٹ، دیکھنے میں پہلوان، آنکھوں میں محبت اور آواز میں دہشت… یہ ہے حضورو عرف ’’کالا جمعدار‘‘۔ روزمرہ کے معمول میں وہ ایک عام فرد کی طرح دکھائی دیتا۔ ملھ پہلوانوں کی مانند طویل اور کھلے کپڑے پہنے، کاندھوں پر شال یا اجرک رکھے ہوئے، دیہاتیوں کے ساتھ ہوٹل پر بیٹھا نظر آیا کرتا تھا۔ چائے کے کپ پر مغلظات بھرے لطائف سنایا کرتا اور بلند آہنگ قہقہہ لگایا کرتا۔ فارغ اوقات میں دیہاتی اوطاق یا کسی پرانے پیڑ تلے گرمیوں کی سخت دوپہر کو تاش کھیلا کرتا، بلند آواز میں پتے پھینکا کرتا… جیتنے کی صورت میں زوردار قہقہے لگانا اور تالیاں پیٹنا، ہارنے کی صورت میں کچی گالیاں… یہ ہے عوامی جمعدار کالا… لیکن کالا جمعدار کا یہ عوامی روپ اُس وقت وحشت ناک اور تامل فلموں کے ہیرو اور ولن کی طرح کا بن جایا کرتا تھا، جب وہ وردی پہن کر دیہاتی تھانہ کو دی گئی ولیز جیپ کو دھکے دلواتا ہوا اپنے تین چار ساتھیوں سمیت کسی ساتھ والے چھوٹے گوٹھ پر چڑھائی کیا کرتا تھا۔ ہاریوں اور مزدوروں کے چھوٹے گوٹھ پر وارد ہونے کے ساتھ ہی کالا جمعدار کی پہلی للکار یہ ہوا کرتی تھی ’’نہیں جاسکو گے، تمہاری ایسی کی تیسی‘‘۔ بغیر دروازوں کے کانٹے دار جھاڑیوں اور درختوں کی شاخوں والے کچے گھر کالا جمعدار کے نشانے پر ہوا کرتے تھے۔ سپاہی اہلِ خانہ پر لاٹھیاں برساتے ہوئے مطلوب افراد کے بارے میں استفسار کیا کرتے تھے، لیکن کالا جمعدار کی نظر اپنے اصل نشانے پر ہوا کرتی تھی۔
وہ سب سے پہلے کھارے اور ٹوکریاں الٹ پلٹ کرکے دیکھتا اور تازہ انڈے اٹھا لیا کرتا، اور پھر دو تین مرغیاں اور ایک اصل مرغا قبضے میں کرلیا کرتا تھا۔ اس کی آخری چڑھائی بکریوں پر ہوا کرتی تھی۔ سپاہیوں کو گرانڈ آپریشن ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے گرفتار شدہ مردوں اور ہاتھ آئے ہوئے مال کو گاڑی میں ڈالنے تک ’’کالا‘‘ کی گالیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا کرتا۔ اس کی فورس دو تین بڑے بوڑھوں کو بدلے میں انہی کے رومالوں سے ہاتھ باندھ کر گاڑی میں بٹھاتی اور باقی جمع ہونے والے دیہاتیوں کو کالا جمعدار گاڑی کو دھکا لگانے کا حکم صادر کیا کرتا تھا۔ جیپ کے پیچھے بھاگتے بچے، عورتیں اور بوڑھے کالا جمعدار کو برا بھلا کہتے اور بددعائیں دیا کرتے۔ کچھ دیر تک وہ گاڑی کے ساتھ دوڑتے رہتے۔ کالا جمعدار پائوں بندھے ہوئے مرغوں اور بازوئوں سے باندھے گئے گوٹھانوں (دیہاتیوں) کے ساتھ فاتحانہ انداز میں واپس لوٹ جاتا۔ جیپ کی دھول کو دیر تک تکتے گوٹھانوں کو ہمیشہ یہ یقین رہا کرتا تھا کہ گرفتار شدہ مرد تو موچڑا (مار) کھاکر اور لین دین کے بعد واپس آجائیں گے، لیکن برس ہا برس کی محنت سے پالی گئی بکریوں اور مرغیوں کا اب انہیں واپس ملنا محال ہے، کیونکہ وہ ’’کالا‘‘ کی قہری کارروائی کا اصل نشانہ تھیں۔
1980ء اور 1990ء کی دہائی میں ہمارے علاقے کا ’’کالا جمعدار‘‘ دراصل سندھ پولیس کی بھٹکنے والی وہ لازوال روح ہے، جو سندھ کے ہر چھوٹے بڑے گوٹھ اور شہر میں دستیاب ہے۔ اس کا نام جاڑو خان، مولن، گلن، اور شکل و صورت تو مختلف ہوسکتی ہے لیکن اس کی روح، نشانیاں اور کارروائیاں یکساں ہوا کرتی ہیں۔1920ء میں انگریز سرکار کے ہاتھوں ہندوستان کی پولیس میں کانسٹیبل اور جمعدار کی صورت میں داخل کردہ ایک ’’کالا جمعدار‘‘ اس دن سے سندھ پولیس کی بھی روح کا ایک اٹوٹ انگ بن چکا ہے اور عہدے میں اضافے کے ساتھ یہ روح اپنی قوت، حیثیت اور اختیارات میں ترقی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
حال ہی میں جب سندھ ہائی کورٹ میں سندھ پولیس کے 35 اعلیٰ افسران کے کارناموں کی داستان اور ان کی جانب سے مال سمیٹنے کا قصہ سامنے آیا تو بڑی شدت کے ساتھ کالا جمعدار کی روح اور روپ بھی آنکھوں کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ کہا جارہا ہے کہ ایک ایک افسر پر 50، 50 سے زائد ہاتھ کی صفائی کے کیس ہیں۔ کالا جمعدار جہاں کہیں بھی ہوگا، اُس کی روح اس خبر سے ضرور شادکام ہوئی ہوگی۔ سندھ پولیس کی اگر اِس وقت تک کی متواتر عمر کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ اس وقت 175 برس کی ہوچکی ہے۔ سندھ پولیس دراصل سرچارلس نیپئر نے 1843ء میں سندھ فتح کرتے وقت رائل آئرش کانسٹیبلری کی طرز پر تشکیل دی تھی اور اس کا انتظام برطانوی فوج کے انتہائی اہل اور ایمان دار افسران کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس طرح سے گویا سندھ پولیس برصغیر کی سب سے قدیم پولیس کا درجہ رکھتی ہے۔ بعد میں متحدہ ہندوستان میں ایچ ایم کورٹس کی قیادت میں 1861ء میں پولیس کمیشن قائم کرکے اسے انڈین امپیریل پولیس کا نام دیا گیا۔ 1920ء تک ہندوستانی باشندوں کو کچھ چھوٹے عہدوں کے سوا کوئی بھی جگہ نہیں مل پائی تھی، لیکن اسی برس مقامی افراد کو کانسٹیبل اور جمعدار کی سطح تک پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ شاید 1920ء ہی وہ سال تھا جس برس سندھ پولیس میں ’’کالا جمعدار‘‘ کی روح داخل ہوئی ہوگی۔
انگریزوں کے دور سے سندھ میں روایتی طور پر پولیس، ریونیو، ایری گیشن سمیت ایک آدھ دیگرکھاتے (محکمے) انتہائی اہم سمجھے جاتے تھے، کیونکہ ان کھاتوں میں انگریز بہادر خود بڑے افسران اور اداروں کے سربراہ رہتے آئے تھے۔ جب ان کھاتوں کو ہندوستانی باشندوں کے لیے کھولا گیا تو سب سے پہلے سندھ سمیت سارے ہندوستان میں نوابان، رئوساء، جاگیرداروں، چودھریوں اور بالادست طبقے کے افراد کی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ ان کی اولاد اور رشتہ دار اِن ملازمتوں میں جائیں، کیونکہ انگریزوں کی تابعداری اور ان کی حکومت کو تقویت دینے کے عرصے میں ہندوستان کے امراء پولیس اور ریونیو کے کھاتوں کا رعب و دبدبہ بہ چشم خود بھی دیکھ چکے تھے۔ سندھ میں بھی اوائل ہی سے پولیس اور محکمہ ریونیو میں جاگیرداروں اور بالائی طبقے کے افراد کی بہ طور افسر انٹری ہوئی۔ سندھ سمیت سارے ہندوستان میں پولیس روایتی طور پر دبدبہ، ایمان داری اور ڈسپلن کی علامت رہی ہے، لیکن انگریزوں کی جانب سے ازخود ہی پولیس اور محکمہ مال کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش اختیار کرلینے کے سبب ان کھاتوں کا دبدبہ اور اختیارات تو برقرار رہے لیکن روایتی ایمان داری اور نظم و ضبط کو شدید ضرر پہنچا۔ بیٹھکی راج، نوآبادیاتی استحصالی نظام کی تمام تر ناانصافیوں اور انتظامی دبدبے کی علامت پولیس اور محکمہ ریونیو رہے۔ اس لیے یہ دونوں کھاتے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر چھوٹی بادشاہتیں سموئے ہوئے اپنی ساری خرابیوں سمیت نشوونما پاکر بالآخر ایک تناور درخت بنتے چلے گئے۔
آج کا محکمہ سندھ پولیس نہ ہی آئرش کانسٹیبلری کی خصوصیات اور روایات کا حامل کوئی انتظامی محکمہ ہے اور نہ ہی انڈین امپیریل پولیس کی خدمات رکھنے والا کوئی ادارہ… آج کا محکمہ سندھ پولیس پاکستان کے وفاق میں سندھ صوبے کا ایک ایسا انتظامی ادارہ ہے جس میں وہ سب کوتاہیاں اور کمیاں موجود ہیں جو کسی بھی بیٹھکی (نوآبادیاتی استحصالی) نظام کی باقیات پر مبنی فورس میں ہونی چاہئیں اور جسے تبدیل کرنے کے لیے کسی بھی طرح کی کوئی بنیادی اور بڑی اصلاحات نہ لائی گئی ہوں۔ اگرچہ موجودہ سندھ پولیس کلی طور پر محض بالائی طبقے کے افسران پر مشتمل انتظامی کھاتہ نہیں رہا ہے اور اب اس کے اندر مقابلے کے امتحانات اور کھاتہ میں مرحلہ وار ترقیوں کے ذریعے نچلے اور متوسط طبقے کے ہزاروں افسران اور نیم آفیسر بھی کام کررہے ہیں لیکن سندھ پولیس کا انتظامی ماڈل، سوچ اور آئیڈیل بیٹھکی ہی ہے، جس کے کسی نہ کسی گوشے سے ’’کالا جعمدار‘‘ کی روح جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جاگیرداری سماج کے زیریں اور درمیانے طبقے میں سے آنے والے یہ پولیس افسران اپنے طبقے اور عام افراد کی سلامتی، عزتِ نفس اور حقوق کے لیے ایک بڑا سہارا اور امید کی کرن بن جاتے، لیکن بدقسمتی سے افسران کی ایک بہت بڑی تعداد کا ماڈل وہی جاگیردار، وڈیرے اور امیر ہیں جن کے رعب، دبدبہ اور غلامی کے زیرسایہ ان کی کئی نسلیں اپنی زندگی ضائع کرچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ پولیس کے افسران کی اکثریت سماج کے لیے ماڈل بننے کے بجائے ہر طرح سے رقم کمانے اور انہی روپیہ پیسہ والے خوشحال افراد کی قطار میں کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کا ماڈل سندھ کے جاگیردار اور وڈیرے ہیں جن کے ساتھ وہ سارا وقت وزیر، مشیر، ناظم اور دیگر منتخب انتظامی عہدوں کے ناتے سے نوکریاں کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ سندھ پولیس کے بیشتر بڑے افسران اس مروجہ سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کا حصہ اور فوائد سے متمتع ہونے والوں میں سے ہیں جو بظاہر منتخب نمائندوں کی سربراہی میں چلنے والا ایک کرپٹ نظام ہے، اور اس میں عام افراد کے لیے زیادہ گنجائش موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو سندھ کی سپر ہائی وے سے لے کر بڑی شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جانب باخبر افراد انگلی سے اشارہ کرکے بآسانی یہ بتاسکتے ہیں کہ پیٹرول پمپ، سی این جی اسٹیشنز اور زرخیز زمینیں منتخب عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ کون کون سے پولیس افسران اور بیورو کریٹس کی ہیں۔ پولیس کے افسران سمیت سندھ کے اکثر سروس ڈلیوری اور عوامی خدمات پر مبنی اداروں میں کام کرنے والے بڑے افسران کے ہاں کامیاب ماڈل شاندار خدمات کے عوض نام کمانا نہیں بلکہ دورانِ ملازمت پیسے کما کر اپنے گوٹھوں اور علاقوں میں واپس جاکر وڈیرہ بننا ہے۔ کہتے ہیں کہ موجودہ سندھ پولیس میں نیچے سے لے کر اوپر تک دو اقسام کے افسران ہیں۔ ایک افسران تو وہ ہیں جن کے ہاں ایمان داری کا معیار عام افراد کو تکلیف پہنچانے کے علاوہ سرکاری فنڈز، ٹی اے، ڈی ایز اور دیگر مدوں کی رقومات میں نقب لگاکر گزارنا اور سسٹم کا حصہ بننا لازمی ہے اور اس قسم کے افسران تعداد میں کم ہیں۔ دوسری قسم کے افسران بہت زیادہ اکثریت میں اور سندھ پولیس کا اصل چہرہ ہیں، جو لوگوں کی شادی، غمی، جرائم، بھتوں، منشیات اسمگلنگ، جنگلات اور زمینوں پر قبضے سمیت ایسے تمام امور سے باخبر ہیں جن سے پیسہ کمایا جاسکتا ہے۔ یہی افسران وقت کے پیارے اورکامیاب افسران گردانے جاتے ہیں، جو اپنے ناجائز کام کرانے میں اپنا حصہ کھرا کرنے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔ سندھ پولیس میں ’’کالا جمعدار‘‘ کی روح ڈی ایس پی اور ایس پی سے لے کر تمام بڑے عہدں پر فائز افسران پر اثرانداز ہوتی ہے۔ عہدہ جتنا زیادہ بڑا ہوتا ہے ’’کالا جمعدار‘‘ بھی اتنی ہی آب و تاب کے ساتھ اس عہدے میں جھلکتا ہے۔
’’کاوش‘‘ اخبار کے صفحہ اوّل پر 35 اعلیٰ افسران کی تصاویر اور ان کے کارناموں کی خبر پڑھ اچھا نہیں لگا۔ سندھ کے پاس پولیس کے سوا اور کوئی بھی قانونی طور پر منظم فور س موجود نہیں ہے، اور یہ فورس بھی رشوت خوری، بے ایمانی اور بدانتظامی جیسے امراض میں مبتلا ہے۔ سندھ پولیس کو اُس وقت تک عوام دوست، نسبتاً فرض شناس اور ایمان دار فورس نہیں بنایا جاسکتا جب تک اقتدار کی مسند پر براجمان منتخب نمائندے اور جماعتیں اس ادارے کو پرانے نوآبادیاتی انداز پر چلاتے ہوئے اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بند نہیں کردیتے، نیز اس کے ساتھ ساتھ جب تک احتساب اور مواخذہ کا کوئی ایسا مؤثر انتظام استوار نہیں کردیا جاتا جہاں پولیس کے انتظامی اقدامات، اختیارات اور معاشی وسائل کو ایک مؤثر احتسابی عمل کی چھلنی سے گزارا جائے۔ جب تک سندھ کی منتخب حکومت اپنی پولیس کو ’’ذاتی نوکری‘‘ سے آزاد نہیں کرتی، اُس وقت تک ’’کالا جمعدار کی روح‘‘ اور پولیس کا نوآبادیاتی ماڈل جوں کا توں برقرار رہے گا اور اُس وقت تک سندھ ایک عوامی پولیس سے محروم رہے گا۔