مسلمانوں کی مزاجی حالت بہت خراب ہوتی اگر دو اصلاحی تحریکیں نہ ہوتیں۔ یہ دونوں تحریکیں ایک دوسرے سے متضاد تھیں۔ ان میں ایک سرسید کی تحریک تھی، دوسری وہابی تحریک تھی۔ ان دونوں تحریکوں نے اپنے اپنے انداز سے جمود کو توڑا، قدامت پرست ذہنوں کو جھنجھوڑا اور انھیں اندھی تقلید یا رسمی رواجی مذہب کی سطح سے بلند کرنے کے لیے کام کیا۔ دونوں اپنے مقاصد میں محدود دائرے میں کامیاب رہیں، مگر دونوں کی انتہاپسندی کو مسترد کردیا گیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلم قوم کے مزاج میں ’’اعتدال‘‘ ہے۔ بلکہ اصل بات یہ تھی کہ بنیادی تبدیلی سے وہ خائف تھے اور اس کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ لوگ سطحی تبدیلیوں پرہی اکتفا کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے سرسید کا علی گڑھ اسکول اور دیوبند کا مدرسہ دونوں اپنے مقاصد میں ناکام رہے اور مسلمانوں کو اس رنگ میں نہیں رنگ سکے جس کی انہیں خواہش تھی۔ دکن، بھوپال، رام پور اور کئی ریاستوں میں مسلمان اپنے حالات سے مطمئن نہ تھے۔ وہ فاقہ کشی کی حالت میں بھی خود کو حکمران سمجھتے تھے۔ اور کسی تبدیلی کی آرزو نہیں رکھتے تھے۔ یوپی بہار میں پدرم سلطان بود کی ذہنیت تھی اور اس سے ہی نفسیاتی تسکین حاصل کرلی جاتی تھی کہ ہندوؤں کی بزدل اور گھٹیا قوم کے مقابلے میں ہم اعلیٰ اور برتر ہیں۔ پنجاب کا معاملہ مختلف تھا، کیوں کہ پنجاب کے پاس نہ مسلمانوں کی ریاست یا یوپی کی طرح تعلقہ داریاں تھیں، نہ دہلی اور اودھ کی طرح قابلِ فخر ماضی تھا۔ اس کے بجائے وہ اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے تو آریوں، یونانیوں سے لے کر مغلوں اور افغانیوں کے حملے اور فاتح فوج کے تاخت و تاراج کے مناظر ملتے تھے، یا ماضی قریب میں سکھوں کی حکومت نظر آتی تھی جس میں شاہی مسجد کو اصطبل بنا دیا گیا تھا اور سکھوں کا اثر کابل تک تھا۔ ان حالات میں پنجاب کے مسلمانوں نے انگریزی راج کو نعمت سمجھا کہ اس نے سکھ راج سے انہیں نجات دلائی، اور اس پس منظر میں پنچاب کا مسلمان تبدیلی کا آرزومند اور نئی چیزوں کو قبول کرنے کے لئے آمادہ تھا۔ اسی لئے یہاں نئی نبوت تک چل گئی۔ مگر پنجاب مصطفی کمال کے ترکی کی طرح جدید بننا نہیں چاہتا تھا۔ وہ جدیدیت اور قدامت کا امتزاج چاہتا تھا۔ اس کا مظہر اقبال اور دوسرے زعمائے پنجاب کی وہ تصاویر بھی ہیں جن میں وہ شلوار کے ساتھ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ پنجاب کے اس منفرد مزاج اور تبدیل ہونے کی خواہش نے ہی یہاں بڑی بڑی تحریکوں کو جنم دیا۔ ان میں مجلس احرار اور خاکسار کے علاوہ خود تحریک پاکستان بھی شامل ہے، اور زمانہ حال میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کا خمیر بھی پنجاب سے ہی اٹھا، جب کہ پنجاب کے مقابلے میں دکن، یوپی، بہار، بنگال، سندھ، سرحد کے مسلمان بہت قدامت پسند اور روایت پرست تھے۔ اس لئے ان علاقوں میں تبدیلی کے خواہش مندوں کو پرانی طاقتوں کے ساتھ سخت مقابلہ درپیش رہا۔ جو کچھ بھی مسلمانوں کا نیا جنم ہوا وہ بہت تکلیفیں اٹھانے کے بعد ہوا، اور آج بھی ان علاقوں کے مسلمانوں کے لئے متحرک مستقبل کا نقشہ کم اور ماضی کی شاندار یاد زیادہ ہے۔
]’’سفر آدھی صدی کا‘‘۔ صفحہ 63 [
انقلاب
نہ ایشیا میں، نہ یورپ میں سوز و سازِ حیات
خودی کی موت ہے یہ، اور وہ ضمیر کی موت
دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت!
1۔ زندگی کا سوز و ساز نہ ایشیا میں ملتا ہے، نہ یورپ میں۔ ایشیا میں محکومی کے باعث خودی پر موت طاری ہوگئی۔ یورپ میں لادینی اور خدا ناترسی کے باعث ضمیر مُردہ ہوگئے۔ ایسی حالت میں زندگی کے سوزو ساز کی کیا امید ہوسکتی ہے؟
2۔ دلوں میں انقلاب کا ولولہ لہریں لے رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس بوڑھے جہان کی موت کا وقت آگیا ہے۔ یعنی انقلاب آئے تو اس دنیا کا پرانا اور فرسودہ نظام بدل جائے گا۔ اور اس کی جگہ نیا نظام لے لے گا۔ اسی کا دوسرا نام پرانے جہان کی موت ہے۔
(’’مطالب ضربِ کلیم ‘‘سے انتخاب)