کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد یورپ اور امریکہ میں توکتب بینی کی شرح میں کوئی خاص کمی نہیں آئی البتہ پاکستان جہاں پہلے ہی یہ شرح قابلِ رشک نہیں تھی، مزید گر گئی ہے۔ بزرگ نسل، اساتذہ اور علم و ادب سے وابستہ طبقے کو شکایت ہے کہ ہماری نئی نسل کتاب سے دور ہوتی جا رہی ہے، جبکہ نئی نسل کا کہنا ہے کہ نہ ایسی کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور نہ ایسا ادب تخلیق ہورہا ہے جسے ترجیحی طور پر پڑھا جا سکے۔ کتابوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے اور مہنگائی کی ہوشربا صورت حال کے علاوہ مصنفین اور پبلشرز کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ بھی کتب بینی کی شرح میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ اس سب کے باوجود اب بھی کچھ لوگ اچھی کتابیں لکھ رہے ہیں اور کم از کم ایک حلقے میں اُن کی پذیرائی بھی ہورہی ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب گزشتہ دنوں فاران کلب کراچی نے شائع کی ہے۔ یہ کراچی کے جانے پہچانے صحافی و کالم نگار جناب سید مظفر اعجاز کے کالموں کا مجموعہ ہے جو ’’قلم رو‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ جناب مظفر اعجاز کے مستقل کالم کا عنوان بھی یہی ہے۔ برادرم حامد ریاض ڈوگر نے اس کتاب کی تقریبِ رونمائی کا پیر 18 دسمبر کو لاہور پریس کلب میں اہتمام کیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی کی اسلام آباد میں مصروفیات کے باعث اس تقریب کی صدارت جناب سجاد میر نے کی، جبکہ رؤف طاہر، امیرالعظیم، عبدالمجید ساجد، ریاض ساہی اور دیگر لوگوں نے کتاب اور صاحب ِکتاب کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر راقم نے جو تحریر شرکائے تقریب کے سامنے پیش کی وہ قارئین کے لیے حاضر ہے:
چند ماہ قبل برادرم مظفر اعجاز کی کتاب ’’قلم رو‘‘ کی تقریب رونمائی فاران کلب کراچی میں منعقد ہوئی اور اس تقریب کی تفصیلی روداد غالباً فرائیڈے اسپیشل کراچی میں شائع ہوئی تو میں نے برادرم مظفر اعجاز کو ٹیلی فون کیا۔ کتاب تیار کرنے اور اسے شائع کرانے کے مشکل مرحلوں سے بخیر وخوبی گزرنے پر اُن کی ہمت کی داد دی، اور صاحبِ کتاب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ مظفر اعجاز ذہین اور زیرک انسان ہیں۔ وہ میری درپردہ خواہش کو سمجھ گئے اور میرے کہے بغیر ہی مجھے کتاب بھیجنے کی پیش کش بلکہ وعدہ کرلیا، مگر چونکہ وہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اس لیے اُس وعدے کا وہی ہوا جو صحافیوں کے وعدوں کا ہوتا ہے کہ اس پیشے سے وابستہ لوگ تو اپنے بچوں کے اسکول اور کلاسیں بھول جاتے ہیں، اگر وعدہ بھول گئے تو کیا ہوا۔
مظفر اعجاز سے میری شناسائی تو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے اجلاسوں میں ہوئی تھی جن میں وہ کراچی کی نمائندگی کے لیے آتے تھے۔ 1995ء میں میرپور میں ہونے والے مندو بین کے دو سالہ اجلاس میں وہ زیادہ نمایاں حیثیت میں شریک ہوئے۔ یہاں جنرل سیکرٹری کی نشست کے لیے کراچی اور لاہور کے درمیان مقابلہ تھا۔ لاہور سے خواجہ فرح سعید کے مقابل کراچی سے مظفر اعجاز تھے۔ یہ مقابلہ تو مظفر اعجاز نہ جیت سکے لیکن اپنی اسپورٹس مین اسپرٹ کی وجہ سے انہوں نے صحافی مندوبین کے دل ضرور جیت لیے تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد مظفر اعجاز جدہ چلے گئے اور ’اردو نیوز‘ جدہ سے وابستہ ہوگئے۔ اُن دنوں اُن کی تحریریں جدہ نیوز کے ذریعے ہم تک پہنچتی تھیں۔ پانچ سال جدہ میں گزار کر واپس آئے تو جسارت اسلام آباد، رائل ٹی وی اور راہ ٹی وی چینل سے ہوتے ہوئے 2014ء سے جسارت کراچی کے ایڈیٹر ہیں اور وہاں دوسری صحافتی و ادارتی ذمہ داریوں کے علاوہ باقاعدگی سے کالم لکھ رہے ہیں۔ اُن کا کالم’’’قلم رو‘‘کے نام سے جسارت کے قارئین ایک عرصے سے پڑھ رہے ہیں۔ اب اِن ہی کالموں میں سے چیدہ چیدہ کا انتخاب کرکے انہوں نے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے۔ اِن کالموں کو مختلف موضوعات کے تحت اکٹھا کرنے کا مشکل کام بھی انہوں نے خود ہی کیا ہے۔ یہ تو مظفر اعجاز ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کالموں کے انتخاب کے موقع پر انہیں یہ موضوعات دیئے ہیں یا پہلے سے طے شدہ موضوعات کے تحت متعلقہ کالموں کو تلاش کرکے اس کتاب میں شامل کیا ہے۔
کتاب کے آغاز ہی میں مظفر اعجاز نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ یہ پرانے کالم ہیں جو ملکی حالات کے نشرر مکرر کی طرح تازہ ہی ہیں ۔’’ہم جو کچھ گزشتہ برسوں میں لکھ چکے ہیں اُن میں سے کون سی چیز ہے جو پرانی ہوئی ہے!‘‘
مظفر اعجاز نے مزید صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اس کتاب کا انتساب اپنے قارئین اور اہلیہ کے نام اس طرح کیا ہے:
’’اپنے اُن قارئین کے نام جو پہلی مرتبہ جسارت میں یہ کالم نہ پڑھ سکے اور اپنی اہلیہ کے نام جنہوں نے دوبارہ چھاپنے کا موقع دیا۔‘‘
اگر وہ یہ انتساب اس طرح کرلیتے تو زیادہ صادق اور امین سمجھے جاتے:
’’اُن قارئین کے نام جنہوں نے پہلی بار بھی اِن کالموں کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی اور اپنی اہلیہ کے نام جنہوں نے اس ’کار بے کار‘ کی دوسری بار اشاعت پر بھی منہ نہیں بنایا۔‘‘
کتاب پر جامع اور مؤثر تبصرہ تو جناب اطہر ہاشمی نے کردیا ہے۔ وہ نہ صرف صحافت کے اساتذہ میں سے ہیں بلکہ زبان و بیان پر سند کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ’’بہت خوب‘‘ کے عنوان سے اپنے اس تبصرے میں بھی انہوں نے زبان و بیان کی اصلاح کی پوری جانفشانی سے کوشش فرمائی ہے اور مظفراعجاز کے لیے ’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ‘کی دعا کی ہے۔
مظفر اعجاز کے کالموں میں جرأت مندانہ سچ، نظریاتی کمٹمنٹ، خرابیوں پر گرفت کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی ملتی ہے۔ وہ جس طرح گفتگو میں کاٹ دار اور ابلاغ سے بھرا ہوا مزاح بکھیرتے ہیں اسی طرح تحریر میں بھی اُن کے مزاح کا بانکپن سر چڑھ کر بولتا ہے۔
مظفر اعجاز کے تمام کالم پاکستانی قوم اور امتِ مسلمہ کا درد لیے ہوئے ہیں۔ آج جب نظریاتی صحافت کے موضوع پر بات کرنے والے بھی کم کم رہ گئے ہیں، مظفراعجاز پورے قد کے ساتھ ایک نظریاتی صحافی کے طور پر کھڑے نظر آتے ہیں کہ یہ اُن کی چالیس سالہ صحافت کا اعجاز اور اُن کی ذات کا فخر ہے۔ حالانکہ تیس پینتیس برسوں سے نظریاتی بنیادوں پر ووٹ لینے والے اب کہیں جاکر اپنے آپ کو نظریاتی بتا رہے ہیں، جب اُن کے نظریات کا قبلہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ مگر مظفراعجاز کا قبلہ بھی وہی ہے، نظریات بھی وہی اور ان نظریات کے لیے جدوجہد بھی وہی ہے۔
مظفراعجاز نے اس کتاب میں اپنے کالموں کو میڈیا، بین الاقوامی مسائل، شخصیات اور ’’سیاہ سیات‘‘ کے موضوعات میں جکڑنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے ہر کالم میں سچائی اور مقصد نظر آرہا ہے۔ میڈیا کالموں میں انہوں نے میڈیا کی بعض خرابیوں پر گرفت کی ہے اور شخصیات کے زیر عنوان آنے والے کالموں میں شمیم صاحب، مسعود جاوید اور ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے ساتھ ملالہ یوسف زئی پر بہت قلم اٹھایا ہے۔ ’’یہ کس کا حسین حقانی ہے… نئی نوکری‘‘ کے زیر عنوان اُن کا کالم آج بھی تازہ ہے۔ اگر اسے حسین حقانی پڑھ سکیں تو خود اُن کا بھلا ہوگا۔ مختصر اً یہ کہ ’’قلم رو‘‘ آج بھی ایسے کالموں کا مجموعہ ہے جو تازگی لیے ہوئے ہیں، جس پر انہیں کتابی شکل دینے والے تمام احباب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب صحافیوں، طلبائے صحافت اور نظریاتی صحافت پر کام کرنے والوں کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے۔