چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا۔ چین کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اس سہ ملکی اجلاس نے افغان طالبان کو امن کے عمل میں داخل ہونے کی دعوت دی ہے اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بیجنگ میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے بعد چینی وزیر خارجہ نے افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اجلاس میں کی جانے والی گفتگو کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور چین افغانستان میں امن چاہتے ہیں، تینوں ممالک کے درمیان مذاکرات اور تعاون قدرتی عمل ہے، چین پڑوسی ممالک افغانستان اور پاکستان سے دوستی مضبوط رکھنے پر کام جاری رکھے گا۔ چینی وزیر خارجہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری پر اتفاق کیا اور کہا کہ دونوں ممالک اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں گے۔ پاکستان نے تعلقات کی بہتری کے لیے عملی منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان افغان یکجہتی کے مواقع فراہم ہوں گے۔ ترجمان کے مطابق سہ فریقی مذاکرات سے قبل چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی دو طرفہ ملاقات بھی ہوئی۔
افغانستان کے مسئلے پر چین کے دارالحکومت بیجنگ میں پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ سہ فریقی مذاکرات خصوصی کے اہمیت کے حامل اور بدلتے عالمی حالات میں نئی صف بندی اور پیچیدہ کشمکش کی علامت ہیں۔ ان مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ چین سی پیک منصوبے میں افغانستان کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان پر امریکہ 16 برسوں سے قابض ہے۔ وہ افغانستان پر فوجی حملے کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ وہ دنیا کے سب سے غریب اور پسماندہ ملک پر نائن الیون کے بہانے 40 ملکوں کی ناٹو افواج کے ہمراہ حملہ آور ہوا تھا۔ امریکہ کے یورپی ساتھی تو میدان چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں، جبکہ امریکہ اب بھی فرعونی تکبر کے ساتھ پوری دنیا پر اپنا حکم چلا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرچکے ہیں، جس کے بعد پاکستان کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ امریکی نائب صدر مائک پنس ان مذاکرات سے قبل کابل آکر پاکستان کو براہِ راست دھمکی دے چکے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی صدر بھی اپنے عزائم چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں پر امریکی دبائو اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب حکومتِ پاکستان کے وزراء کی جانب سے بھی امریکہ کے خلاف ’’زبانی‘‘ ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کھلے الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ یعنی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ پاکستان کی جنگ نہیں تھی۔ یہ امریکہ کی جنگ ہے۔ امریکہ کی جانب سے ڈالروں اور امدادکی طعنہ زنی کے جواب میں وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’امریکہ کو ڈومور کے جواب میں حکومت نے نومور کردیا ہے، امریکہ کی امداد پر لعنت بھیجتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں بلکہ ہم پر مسلط کی گئی ہے‘‘۔ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے ان خیالات کا اظہار روس روانگی سے قبل کیا ہے۔ انہوں نے بظاہر تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ملک کا دفاع اور سلامتی محفوظ ہاتھوں میں ہے، لیکن جو لوگ عالمی حالات اور امریکہ سمیت مختلف قوتوں اور طاقتوں کے منصوبوں پر نظر رکھتے ہیں وہ اطمینان محسوس نہیں کرسکتے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکی ’’وار آن ٹیرر‘‘ کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے۔ آج تک دہشت گرد اور دہشت گردی کی کوئی متعینہ تعریف نہیں کی جاسکی ہے۔ جس وقت امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کا اعلان کیا تھا، اُس وقت کسی بھی ملک اور کسی بھی طاقت نے امریکی دعووں کو مسترد نہیں کیا تھا، لیکن افغان عوام کی مزاحمت نے عالمی منظرنامہ تبدیل کردیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ چین نے ’’ون روڈ، ون بیلٹ‘‘ کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کا ایک حصہ سی پیک بھی ہے۔ سی پیک منصوبے کو بجا طور پر گیم چینجر کہا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ افغان عوام اور مجاہدین کی غیرمعمولی اور تاریخی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کرکے افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیا تھا، لیکن اب امریکہ سمیت تمام علاقائی قوتیں بھی افغان طالبان کو مذاکراتی عمل میں شرکت کی دعوت دے کر انہیں ایک جائز اور نمائندہ سیاسی قوت تسلیم کرچکی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ بزدل اور غلام سیاسی قیادت ہے۔ افغان حکومت تو امریکی فوج کے سہارے قائم ہے۔ اس پس منظر میں چین نے افغان مسئلے پر پیش قدمی شروع کردی ہے۔ سہ فریقی وزرائے خارجہ کا اجلاس سیاسی اور سفارتی عمل کا تسلسل ہے، جو بہت عرصے سے جاری ہے، یہ عمل طاقت کے مراکز میں تبدیلی کی علامت ہے، لیکن مفاد پرست اور غلامانہ ذہنیت کے حامل عناصر ان مواقع کو قوم کے حق میں کیسے نتیجہ خیز بناسکتے ہیں…؟یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔