سرد ہوا میں ناک کیوں بہنے لگتی ہے؟

موسمِ سرما کے دوران سرد ہوا میں سفر کرتے وقت اکثر ناک سے پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سردی اور الجھن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟
طبی زبان میں یہ عمل ’کولڈ انڈیوسڈ رائنِٹس‘ کہلاتا ہے اور 50 سے 90 فیصد افراد کو اس کیفیت کا سامنا ہوتا ہے۔ دمے کے مریضوں، بخار کی کیفیت اور ایگزیما کے شکار افراد پر اس کا حملہ زیادہ شدید ہوتا ہے۔
ہماری ناک کے بہت سے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ پھیپھڑوں کے اندر جانے والی ہوا کو گرم اور نم دار رکھے تاکہ وہ پھیپھڑوں تک پہنچ کر ان کے خلیات کو کسی سوزش اور بے چینی میں مبتلا نہ کرسکے۔
اگر باہر بہت سردی ہو تو بھی ناک کے اندر داخل ہونے والی ہوا کا درجہ حرارت 26 درجے سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جو کبھی کبھی بڑھ کر 30 درجے سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے لیکن ہر حالت میں ناک کے اندر تک نمی 100 فیصد ہوتی ہے خواہ ہم کتنی ہی سردی میں سانس کیوں نہ لے رہے ہوں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناک کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ پھیپھڑوں تک جانے والی ہوا گرم اور نمی سے بھرپور رہے۔ اب سرد اور خشک موسم میں ناک کے اندر کے اعصاب ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے متحرک ہوجاتے ہیں جس کی خبر دماغ تک جاتی ہے۔ اس کے ردِعمل میں دماغ، ناک میں خون کی گردش بڑھاتا ہے اور ناک کے اندر اعصاب اور رگیں گرم ہونے لگتی ہیں۔
دوسری جانب خنکی اور خشکی کی وجہ سے ناک کے اندر خلیات مائع خارج کرتے ہیں تاکہ اندر جانے والی ہوا میں نمی کی ا?میزش ہوسکے۔ اسی طرح جسمانی دفاعی نظام ناک کے خلیات کو تحریک دیتا ہے اور یوں ناک سے پانی خارج ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اندازہ ہے کہ ہماری ناک بہتر طور پر کام کرنے کیلیے 300 سے 400 ملی لیٹر پانی خارج کرتی ہے۔
۰اس دوران ناک کے اندر خون کی روانی بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو سانس میں دقت اور چھینکوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔

فیس بک پر اپ کی تصویر پوسٹ ہونے پر خبردار کرنے والا سافٹ ویئر

تیزی سے مقبول ہوتا ہوا فیس بک اپنے پلیٹ فارم پر ا?رٹی فیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کا دائرہ وسیع کررہا اور اس ضمن میں ایک نئے فیچر پر کام ہورہا جو فیس بک پر کہیں بھی اپ کا چہرہ اپ لوڈ ہونے پر اپ کو مطلع کردے گا۔اس ضمن میں چہرہ شناسی (فیشل ریکگنیشن) کیتین طاقتور الگورتھمز پہلے ہی پیش کیے جاچکے ہیں جن میں سے ایک خراب بصارت والے افراد کو بتائے گا کہ تصویر میں کیا کیا اشیا موجود ہیں۔ دوسرے اپشن میں اگرکوئی اپ کی پروفائل تصویر چراتا ہے یا اس پر کمنٹ کرتا ہے تو فیس بک اپ کو اس سے اگاہ کرے گا۔ان میں سب سے اہم الگورتھم مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے نوٹ کرتا ہے کہ جب کوئی اپ کی اپنی تصویر فیس بک پر کہیں بھی اپ لوڈ کرے تو وہ اس کی اطلاع اپ تک پہنچائے گا خواہ ا?پ کو ٹیگ کے ذریعے اگاہ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔
ان میں سے پہلی سہولت بہت اچھی ہے جس کے ذریعے متاثرہ بینائی والے افراد بھی تصویر کے احوال سے واقف ہوسکیں گے جبکہ دوسرے اپشن کے ذریعے جعلی اکاؤنٹس اور لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کا تدارک ہوگا۔ تیسرا اپشن اپ کی پرائیویسی برقرار رکھتے ہوئے اپ کی اجازت کے بغیر کہیں بھی تصویر کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے گا۔ اس فیچر سے خواتین کا بہت بھلا ہوگا جن کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں۔
اس سے کئی فوائد حاصل ہوں گے اور فیس بک کے پورے پلیٹ فارم پر شفافیت میں اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب اس سے پرائیویسی کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

ٹی بی کی شناخت دنوں میں نہیں گھنٹوں میں ممکن

ہم جانتے ہیں کہ ٹی بی کے ٹیسٹ اب بھی بہت وقت لیتے ہیں لیکن امریکی ماہرین نے پیشاب کے ذریعے ٹی بی شناخت کرنے والا ایک ٹیسٹ وضع کرلیا ہے جس سے اس جان لیوا مرض کی فوری شناخت ممکن ہے۔
ٹی بی اب تک دنیا کا ایک تکلیف دہ اور جان لیوا مرض بنا ہوا ہے جس کے زیادہ ترشکار غریب ممالک کے افراد ہورہے ہیں۔ دوسری جانب تپ دق کے سامنے ہماری دوائیوں کے ہتھیار بے کار ہوتے جارہے ہیں کیونکہ اس کے جراثیم بہت چالاکی سے خود کو بدل کر طاقتور ترین ادویہ کو بھی بے اثر بنارہے ہیں۔
سال 2016 میں دنیا بھر میں ٹی بی کے ایک کروڑ سے زائد مریض نوٹ کیے گئے جبکہ ہر سال 17 لاکھ افراد اس موذی مرض کے ہاتھوں جان سے جارہے ہیں۔ 40 فیصد معاملات میں ٹی بی کا انفیکشن اس وقت سامنے نہیں آتا جب تک اس کی ظاہری علامات نمودار نہیں ہوجاتیں۔اس وقت ٹی بی معلوم کرنے کا ایک طریقہ جلد کا ٹیسٹ ہوتا ہے یا پھر ممکنہ مریض کا بلغم لے کر اس میں بیکٹیریا دیکھے جاتے ہیں۔ ٹی بی کے ان دونوں طریقوں میں کئی دن لگتے ہیں جس کےلیے تربیت یافتہ خرد حیاتیات داں (مائیکرو بیالوجسٹ) کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکی ریاست ورجینیا میں جارج میسن یونیورسٹی کی پروفیسر ایلی ساندرا لیوشینی اور ان کے ساتھیوں نے پیشاب کے ذریعے ٹی بی شناخت کرنے کا ایسا ٹیسٹ وضع کیا ہے جو صرف 12 گھنٹے میں نتائج دیتا ہے۔ یہ پیشاب میں موجود وہ شکریات (شوگرز) معلوم کرتا ہے جو ٹی بی کے بیکٹیریا سے جڑتی ہیں اور پیشاب میں ان کی انتہائی معمولی مقدار خارج ہوتی رہتی ہے۔اس ٹیسٹ کےلیے چھوٹے چھوٹے سالماتی پنجرے (مالیکیولر کیجز) بنائے گئے ہیں جن میں خاص رنگ (ڈائی) استعمال کیا گیا ہے۔ یہ دونوں مل کر شکر کے سالمات کو جکڑ لیتے ہیں اور یوں ٹی بی کا پتا چل جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اتنا حساس ہے کہ پیشاب میں موجود ٹی بی سے وابستہ شکریات کی معمولی سی مقدار میں موجودگی کا انکشاف بھی کرتا ہے، اس طرح یہ پیشاب کے ذریعے ٹی بی کے بقیہ ٹیسٹ سے 1000 گنا بہتر ہے۔اگلے مرحلے میں اس ٹیسٹ کو ٹی بی کے 48 مریضوں پر آزمایا گیا تو اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ اب ماہرین اس ٹیسٹ کو آسان اور کمرشل بنانے پر کام کررہے ہیں۔