آج کا کام آج اور ابھی

دنیا کا ہر فرد کامیاب ہونا چاہتا ہے اور کامیابی کے حصول کے لیے ہر ممکن حد تک تگ و دو بھی کرتا ہے، مگرجو لوگ زندگی میں کامیابی حاصل کرتے ہیں وہ ’آج اور ابھی‘ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ آج کا کام کل پر ٹالنے یا ماضی میں غلطاں رہنے والے اور مستقبل کے خیالی منصوبے بنانے والے لوگ کبھی زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ گزرا وقت لوٹ کر نہیں آتا بلکہ ماضی بنتا جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگ پھر ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص روزانہ اپنے بہتر مستقبل، اپنی شخصیت کے نکھار، اپنے شوق کی تکمیل اور اپنے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ آخرت کی فلاح اور اپنی ابدی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سوچتا ہے، لیکن یہ سارے منصوبے صرف سوچ کی حد تک ہی رہ جاتے ہیں، اور ہم یہ سوچ کر کہ ’کل سے کریں گے‘ خود کو تسلی دے لیتے ہیں۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ آج کا کام کل پر ہرگز نہ ٹالا جائے۔ ’کل کرلیں گے‘ کا مطلب ہوتا ہے کام کو ٹالنا… اور پھر وہ کام کبھی انجام نہیں ہوپاتا۔ کیونکہ جس کام کے لیے ہم آج وقت نہیں نکال پا رہے کل کیسے نکال پائیں گے! کل کے دن کے اور بے شمار نئے کام، نئے منصوبے اور نئی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اس طرح ہمارے کام مؤخر ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہم کبھی مصروفیت اور کبھی وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔
بے شمار طالب علم تعلیمی میدان میں کامیابی کے خواہاں رہتے ہیں اور اس کے لیے اپنی لکھائی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، کم وقت میں زیادہ سوالات کے جوابات لکھنے کی مشق کرنا چاہتے ہیں لیکن وقت ہی نہیں ملتا۔ کل کرلیں گے، ویک اینڈ پر کریں گے، آنے والی چھٹیوں میں کرلیں گے… ہم خود کو یہ بہانے بناکر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور امتحانات سر پر آپہنچتے ہیں۔ اس طرح ہماری بہتر نتیجہ لانے کے لیے کی جانے والی کوششیں صرف ہماری سوچ تک ہی محدود رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح تعلیمی سال کا آغاز ہوتے ہی اساتذہ لیکچر کے بعد اس کے نوٹس بنانے، اس کو دہرانے اور ذہن نشین کرنے پر زور دیتے ہیں۔ مگر طلبہ و طالبات ’کل سے پڑھیں گے، ابھی تو بہت وقت پڑا ہے‘ کہہ کر عموماً ٹال دیتے ہیں۔ یوں وقت پَر لگا کر اُڑ جاتا ہے اور امتحانوں کے دن آتے ہی ایسے طلبہ و طالبات بوکھلائے پھرتے ہیں، اور نتیجہ آتے ہی چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنے اور صحیح منصوبہ بندی کے تحت پڑھنے والے طلبہ و طالبات کبھی پریشانی کا شکار نہیں ہوتے۔
امتحانات کے اختتام پر عموماً نوجوان بڑے پُرجوش ہوتے ہیں۔ خاصے منصوبے بھی بن رہے ہوتے ہیں کہ نتیجہ آنے تک یہ کورسز کریں گے۔ کوئی پارٹ ٹائم جاب کرلیں گے۔کوئی زبان سیکھ لیں گے وغیرہ۔ لیکن ایک ہی بات عموماً ذہن میں گردش کرتی ہے کہ ابھی امتحان ختم ہوئے ہیں، کچھ دن آرام کرلیں، پھر سب کرلیں گے۔ اور پھر یہ آرام طویل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی روٹھے یا ناراض دوست کو منانا ہے یا کسی کا دل دُکھایا ہے اور معافی مانگنی ہے تو بھی ہم محض سوچتے رہتے ہیں اور پھر بعض اوقات زندگی انہیں اتنا دور لے جاتی ہے کہ پچھتاوے مقدر بن جاتے ہیں۔ اپنی شخصیت کو بہتر بنانے اور اس میں نکھار لانے کے لیے وزن کم کرنے کا آج کل جنون پیدا ہوچلا ہے۔ ہر نوجوان اپنا وزن کم کرنا چاہتا ہے لیکن جم جانے، ورزش کرنے، چہل قدمی، تیراکی اور دوڑنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ روزانہ ہم اپنے منصوبوں کو کل تک کے لیے ملتوی کردیتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے مشاغل اور اپنے شوق محض آج کا کام کل پر چھوڑنے کی وجہ سے نہیں کرپاتے۔ غرض آج کا کام کل پر ٹالنا محض ہماری چند لمحوں کی سستی اور کاہلی ہوتی ہے لیکن ذرا غور کریں، وہ ہمیں کامیابی سے، ہماری منزل سے کتنا دور کردیتی ہے اور ہم زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں آج اور ابھی کی اہمیت کو نہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ عمل پیرا بھی ہونا ہوگا۔
سب سے پہلے اپنے روزمرہ معمولات کو بروقت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پورے دن کا شیڈول بنائیں۔ اپنے تمام کاموں کو وقت کے مطابق تقسیم کرتے چلے جائیں۔ شیڈول کے مطابق روزمرہ کے کام سرانجام دے کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ بہت سارا وقت بچ گیا! اس میں آپ وہ تمام کام کرسکتے ہیں جو کل پر ٹال دیتے تھے۔ یہ بچا ہوا وقت وہ ہوگا جو آپ ٹی وی دیکھنے، موبائل پر فارورڈ میسج کرنے، فون پر باتیں کرنے یا دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگانے یا دیگر کسی مثبت سرگرمی میں صرف کرتے ہیں۔ ہر کام کا وقت مقررکرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ وقت کی اہمیت کو پہچانیں۔ غرض آپ اگر وقت مقرر کرکے اپنے کام انجام دیں تو آپ کے پاس وقت بھی ہوگا اور آپ ہر مقررہ کام انجام بھی دے سکیں گے۔ آج کا کام آج کرنے، اپنے تعمیری منصوبوں اور مثبت ارادوں کوآج ہی عملی جامہ پہنانے سے آپ کی شخصیت میں سکون، خوشی اور اطمینان سے وہ نکھار پیدا ہوگا جو آپ کی ذات کو اعتماد بخش کر آپ کو معاشرے میں ممتاز مقام عطا کرنے میں معاون کردار ادا کرسکے گا۔
…مالک خان سیال…