ملک احمد سرور
پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا جب کہ سیکولر ازم میں دو قومی نظریے کا کوئی تصور ہی نہیں‘ اس کے باوجود روز اوّل سے دانشوروں اور سیاست دانوں کا ایک بہت بڑا گروہ یہ ثابت کرنے پر لگا ہوا ہے کہ قائداعظمؒ سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہی بنانا چاہتے تھے۔ یہ گروہ یا تو سیکولرازم سے نا آشنا ہے یا قائداعظمؒ کے افکار سے بے خبر یا پھر دانستہ و ناداستہ عالمی استعمار کا حصہ بن کر پاکستان کی نظریاتی اساس کو ختم کرکے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا کر ایک بار پھر اسے عظیم ہندوستان کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ ذیل کی سطور میں قائداعظم کے اپنے فرمودات کی روشنی میں ان کے سیاسی نظریہ و عقیدہ کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
مسلم قومیت کی بنیاد:
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے‘ نہ وطن نہ نسل… ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال‘ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘ 8 مارچ 1944ء)
تمام مسلمان جسد واحد کیسے؟
وہ کون سا رشتہ ہے جس نے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہوگئے۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے‘ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ‘ وہ چٹان‘ وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے‘ ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا‘ ایک رسولؐ‘ ایک کتاب اور ایک امت۔ (اجلاس مسلم لیگ‘ کراچی 1943ء)
پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟
مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔ (مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کے اجلاس سے خطاب‘ 12جون 1947ء)
قرآن و سنت زندہ و جاوید قانون:
تحریک پاکستان کے کارکن سید بدرالدین احمد نے 26 نومبر 1946ء کو قائداعظم سے پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے پوچھا۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے فرمایا:
’’میرا ایمان ہے کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر ریاست پاکستان‘ دنیا کی بہترین اور مثالی ریاست ہوگی۔ مجھے اقبالؒ سے پورا اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل اسلام سے بہتر نہیں ملتا۔ ان شاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الٰہ الہ الااللہ ہوگی اور یہ ایک فلاحی و مثالی ریاست ہوگی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان بن گیا تو چند دن بھی نہیں زندہ نہیں رہ سکے گا لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا۔ (بحوالہ کتاب اسلام کا سفیر‘ ازجناب محمد متین خالد میں ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کا مضمون ’’قائداعظمؒ سیکولر نہیں تھے۔‘‘)
نجات کا واحد ذریعہ:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ سنہری اصولوں والے اس ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون‘ پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ ’’ملک کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروںسے کیا کرو۔‘‘ (سبی دربار بلوچستان‘ 14 فروری 1948)
قرآن مجید ہمہ گیر ضابطۂ حیات:
قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی‘ سماجی‘ شہری‘ کاروباری‘ فوجی‘ عدالتی‘ تعزیری اور قانونی ضابطۂ حیات جو مذہبی تقریبات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک‘ روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک‘ تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک‘ اخلاق سے لے کر جرم تک‘ اس دنیا میں جزا اور سزا سے لے کر اگلے جہان تک کی سزا وجزا تک کی حد بندی کرتا ہے۔ (پیامِ عید‘ 1945ء)
قران آخری اور قطعی رہبر:
اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بنا کر شیوۂ صبر و رضا پر کاربند ہوں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی ایک طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ہم فتح یاب ہوں گے‘ اسی طرح جس طرح مٹھی بھر مسلمانوذں نے ایران اور رو م کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیے تھے۔ (جلسہ عام‘ حیدرآباد دکن‘ 11 جولائی 1946ء)
ہماری نجات اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔ (شاہی دربار‘ سبی بلوچستان‘ 14 فروری 1947ء)
پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا:
پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہ مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے‘ وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا‘ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔ (8 مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب)
ہماری کشتی کا لنگر:
ہماری بنیاد کی چٹان اور ہماری کشتی کا لنگر اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ذات پات کیا‘ شیعہ سنی کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں بحیثیت ایک متحد قوم ہی کے آگے بڑھنا ہے۔ صرف ایک رہ کر ہی ہم پاکستان کو قائم رکھ سکیں گے۔ ہمارے لیے صرف اسلام ہی کافی و شافی ہے۔ (پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کانفرنس منعقدہ 19 مارچ 1944ء سے خطاب)
قرآن حکیم کے احکام ہی…
اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی‘ نہ کسی شخصی اور ادارے کی۔ قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و حکام کی حکومت ہے۔ (کراچی 1948ء)
غیر اسلامی قانون کی پابندی؟
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسی دستور ساز اسمبلی جس میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہوں‘ وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین منظور کرے گی جو شریعت کے قوانین سے مطابقت نہ رکھتے ہوں گے اور مسلمان کسی بھی حالت میں اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ وہ کسی غیر اسلامی قانون کی پابندی کریں۔ (1945ء کو پیر صاحب مانکی شریف کے نام قائداعظمؒ کا خط بحوالہ: اسلام کا سفیر‘ مرتبہ: محمد متین خالد)
اسلام ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے:
اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے‘ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ (اسلامیہ کالج‘ پشاور‘ 13جنوری 1948)
اسلام ضابطۂ حیات:
اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ ہر شخص سے انصاسف‘ رواداری اور مساوی برتائو اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ پھر کسی کو ایسی جمہوریت‘ مساوات اور آزادی سے خوف کیوں لاحق ہو جو انصاف‘ رواداری اور مساوی برتائو کے بلند ترین معیار پر قائم کی گئی ہو۔ ہم پاکستان کا دستور بنائیں گے اور دنیا کو دکھائیں گے کہ یہ ایک اعلیٰ آئینی نمونہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ آپؐ نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا‘ کامیابی نے آپؐ کے قدم چومے۔ تجارت سے لے کر حکمرانی تک‘ ہر شعبۂ حیات میں آپؐ مکمل طور پر کامیاب رہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کی عطیم ترین ہستی تھے‘ انہوں نے تیرہ سو سال قبل ہی جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھیں۔ اسلام محض رسوم‘ روایات اور روحانی تصورات کا مجموعہ نہیں ہے۔ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطۂ حیات بھی ہے جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی‘ اپنے افعال اور اعمال حتیٰ کہ سیاست و معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب کے لیے انصاف‘ رواداری‘ شرافت‘ دیانت اور عزت کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے۔ (25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب)
مولانا حسرت موہانی کی گواہی:
قیام پاکستان سے دو سال پہلے مولانا حسرت موہانی دہلی گئیٌ اور قائداعظمؒ سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے شام کا وقت تھا‘ مولانا نے اپنی آمد کی اطلاع کرانے کے لیے ملازمین سے کہا مگر ہر ایک نے معذوری ظاہر کی کہ ہم ان کی پاس نہیں جاسکتے‘ اس وقت وہ کسی سے ملاقات نہیں کریں گے۔ مولانا اپنی دھن اور ارادے کے بڑے پکے تھے‘ انہوں نے کہا کہ ہم بغیر ملے نہیں جائیں گے۔ نمازِ مغرب کا وقت تھا‘ مولانا نے کوٹھی کے لان میں نماز ادا کی اور وہیں ٹہلنے لگے۔ پھر سوچا کہ کسی طرح قائد اعظمؒ کا پتہ چلا کر بلا اطلاع وہاں پہنچ جائیں۔ یہ سوچ کر کوٹھی کے برآمدوں میں گھوم رہے تھے کہ ایک کمرے سے کسی کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ مولاناحسرت موہانی نے خیال کیا کہ قائد اعظم اس کمرے میں ہیں اور کسی سے گفتگو میں مصروف ہیں۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا‘ چنانچہ انہوں نے ایک کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش کی اور جو کچھ دیکھا وہ مولانا کے الفاظ میں کچھ اس طرح سے ہے:
’’اندر کمرے میں فرش پر مصلیٰ بچھا ہوا تھا‘ قائداعظمؒ گریہ و زاری میں مصروف تھے۔ زیادہ فاصلے کی وجہ سے ان کے الفاظ صاف سنائی نہ دیتے تھے لیکن اندازہ ہوتا تھا کہ ان پر رقت طاری ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور حصول آزادی کے لیے دعا و التجا کر رہے ہیں۔‘‘ (بحوالہ: قائداعظمؒ سیکولر نہیں تھے‘ از: ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر)
معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات:
میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوںگا کہ مجلس تحقیق‘ بینکاری کے ایسے طریقے کیوں کر وضع اور اختیار کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں‘ کیونکہ مغرب کے معاشی نظام نے انسان کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ہمیں دنیا کے سامنے مثالی نظام پیش کرنا ہے‘ جو سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ (جولائی 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائداعظمؒ کا خطاب)
اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں:
ایک انگریز دانشور نے قائداعظمؒ سے سوال کیا تھا ’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں تو کیا مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟‘‘ اس پر بابائے قوم نے فرمایا تھا:
’’آپ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے۔ میں زندگی کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں اپنی تاریخ ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظام عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے‘ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (انگریز دانشور ہیرولی نکلسن کی کتاب Verdict on India مطبوعہ 1944ء)
قائداعظمؒ کی واحد تمنا:
مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا‘ دولت‘ شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہوکہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی‘ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ میرا اپنا ایمان ‘میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح! تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم‘ اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔ (آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے ایک اجلاس منعقدہ 1939ء میں قائداعظمؒ کی تقریر سے اقتباس)
قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے:
مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن مجید میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔ (نومبر 1939ء میں عیدالفطر کے موقع پر مسلمانوں کے نام پیغام)
قرآن مجید… عظیم الشان کتاب:
میں کوئی مولوی یا ملا نہیں ہوں‘ نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے‘ البتہ میں نے قرآنِ مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنی طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی‘ سیاسی ہو یا معاشی‘ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات سے باہر ہو۔ (1941ء میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں خطبۂ صدارت)
قرآن مجید مکمل ضابطۂ حیات:
قائداعظم نے 1944ء میں مہاتما گاندھی کو لکھا ’’قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے‘ اس میں مذہبی‘ مجلسی‘ دیوانی‘ فوجداری‘ عسکری‘ تعزیری معاشی اور معاشرتی غرض یہ کہ سب شعبوںکے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک‘ روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک‘ اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک‘ زندگی کے جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک‘ ہر ایک قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔‘‘
پاکستان کا دستور کیا ہوگا؟
قائداعظم 1942ء میں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں الٰہ آباد میں نواب سر محمد یوسف کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وکلاء کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا۔ ارکان وفد میں سے ایک وکیل نے قائداعظم سے پوچھا کہ ’’پاکستان کادستور کیا ہوگا؟ کیا پاکستان کا دستور آپ بنائیں گے؟‘‘
قائداعظمؒ نے فرمایا: ’’پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوں؟ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال پہلے بن گیا تھا۔‘‘ ایسا ہی ایک بیان 27 جولائی 1944ء کو دیا جب وہ کشمیر سے راولپنڈی پہنچے۔ قائداعظم کا رات کا کھانا ڈھیری حسن آباد کے عبدالغنی ٹھیکیدار کے ہاں تھا۔ کھانے کی میز پر راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر بیرسٹر محمد جان نے قائداعظم سے پوچھا ’’پاکستان کا دستور کیسا ہوگا؟‘‘ قائداعظمؒ نے جواب دیا ’’یہ تو اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کا کام ہوگا‘ البتہ ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں تیرہ سو سال پہلے کا دستور موجود ہے۔‘‘ (بحوالہ: قائداعظمؒ سیکولر نہیں تھے۔)
پاکستان کا آئین:
آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 1942ء میں کراچی میں منعقد ہوا۔ اس سالانہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے جن ممبران نے تجاویز بھیجی تھیں‘ ان کی میٹنگ نواب محمد اسماعیل خان کی صدارت میں ہوئی جس میں مختلف قراردادیں تیار کی گئیں۔ ان میں سے ایک قرارداد آئین کے حوالے سے مرتب کی گئی جس کے الفاظ یہ تھے ’’پاکستان میں جو آئین ہوگا‘ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگا اور رائج الوقت قوانین میں جلد شریعت کے مطابق تبدیلی کی جائے گی۔‘‘ تمام لوگوں نے اس تجویز کی حمایت کی۔ آخر میں قائداعظمؒ نے اپنی تقریر میں فرمایا ’’جہاں تک اس تجویز کا تعلق ہے‘ وہ ہر مسلمان کے دل کی پکار ہے اور پاکستان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے دین کا نظام قائم ہوگا۔‘‘
پاکستان کا آئین قرآن مجید ہوگا:
(1) مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت متعین کرنے والا کون ہوگا؟ میرے نزدیک مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا فیصلہ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے کر دیا تھا۔ (1946ء میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے صدارتی خطاب)
(2) اگر ہم قرآنِ مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بنا کر ثبات و استقامت سے کاربند رہیں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مغلوب نہیں کرسکتی۔ (11 جولائی 1946ء کو حیدرآباد دکن میں جلسہ عام سے خطاب)
(3) پاکستان کا آئین قرآن مجید ہوگا‘ میں نے قرآن مجید کو ترجمے کی ساتھ پڑھا ہے‘ میرا پختہ یقین ہے کہ قرآنی آئین سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہوسکتا۔ میں نے مسلمانوں کا سپاہی بن کر پاکستان کی جنگ جیتی ہے۔ میں قرآنی آئین کا ماہر نہیں‘ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کو میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ بیٹھ کر نئے قائم ہونے والے پاکستان کے لیے قرآنی آئین تیار کریں۔ (10 جولائی 1947ء کو اورنگزیب روڈ دہلی میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے استفسار پر قائداعظم کا جواب)
نواب بہادر یار جنگ کی تقریر (26 دسمبر 1943ء) سے ایک اقتباس:
حضرات! پاکستان کا حاصل کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا پاکستان کو بنانا اور قائم رکھنا مشکل ہے۔ آپ کے قائد نے ایک سے زائد مرتبہ اس کا اعادہ فرمایا ہے کہ مسلمان اپنی حکومتوں میں کسی دستور اور قانون کو خود مرتب کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ان کا دستور مرتب و متعین ان کے ہاتھوں میں موجود ہے اور وہ قرآن مجید ہے۔ کتنی صحیح نظر اور کتنے صحیح فیصلے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہم پاکستان صرف اس لیے نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جگہ حاصل کرلیں جہاں وہ شیطان کے آلۂ کار بن کر ان ہی دستایر کا فرانہ پر عمل کریں جن پر آج ساری دنیا کاربند ہے۔ اگر پاکستان کا یہی مقصد ہے تو کم از کم میں ایسے پاکستانی کا حامی نہیں ہوں۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ وہاں قرآنی نظام حکومت قائم ہو۔ یہ انقلاب ہوگا‘ یہ ایک نشاۃ ثانیہ ہوگی‘ یہ ایک حیاتِ نو ہوگی جس میں خوابیدہ تصورات اسلامی ایک مرتبہ پھر جاگیں گے اور حیاتِ اسلامی ایک مرتبہ پھر کروٹ لے گی۔ پلاننگ کمیٹی آپ کے لیے جو دستوی اور سیاسی نظام مرتب کرے گی‘ اس کی بنیادیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوں گی۔ سن لیجیے اور آگاہ ہو جائیں کہ جس سیاست کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے وہ شیطانی سیاست ہے اور ہم ایسی سیاست سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ (قائداعظمؒ نے زور سے اور بڑے جوش سے میز پر مکا مار کر فرمایا ’’بالکل درست کہتے ہو۔‘‘)
حضرات! لیجیے قائداعظمؒ نے میرے اس قول پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
نہیں‘ ہم مسلمان ہیں:
میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی‘ پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا؟ اگر مجھے اجازت دی جائے تو میں کہوں گا کہ یہاں آپ سب باہر کے آئے ہوئے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں بنگال کے اصلی باشندے کون تھے؟ وہ ہرگز نہیں جوآج کل بنگال میں رہتے ہیں۔ پس یہ کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں‘ ہم سندھی ہیں‘ ہم پٹھان ہیں؟ نہیں‘ ہم مسلمان ہیں۔ اسلام نے ہمیں یہی سبق دیا ہے اور آپ یقینا مجھ سے اتفاق کریں گے کہ آپ خواہ کچھ بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں‘ آپ اوّل و آخر مسلمان ہیں۔ (جلسہ عام‘ ڈھاکہ‘ 21 مارچ 1948)
اسلام کے اصولوں پر مشتمل دستور:
پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیںمعلوم کہ اس دستور کی شکل و ہئیت کیا ہوگی لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل۔ ان اصولوں کا اطلاق آج کی عملی زندگی پر بھی اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح 13 سو سال پہلے ہوا تھا۔ (امریکی نامہ نگار سے انٹرویو: فروری 1948)
اطاعت و وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات:
اسلامی حکومت کے تصورات کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی‘ نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے۔ (کراچی 1948ء‘ بحوالہ: قائداعظمؒ کا پیغام‘‘ مرتبہ: سید قاسم محمود)
اسلام اور جمہوریت کی بات:
آپ مجھ سے ایک فضول سوال کر رہے ہیں۔ گویا میں اب تک جو کچھ کہتا رہا ہوں‘ وہ رائیگاں گیا ہے۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی۔ (جناح‘ تقریریں اور بیانات‘ از: ایس ایم برک)
پاکستان میں کون سا قانون ہوگا؟
آپ نے سپاس نامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ ’’پاکستان میں کون سا قانون ہوگا؟‘‘ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانو کا ایک خدا‘ ایک رسولؐ اور ایک کتاب ہے‘ یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس… اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔ (نومبر 1945ء‘ پشاور‘ بحوالہ قائداعظمؒ کی شخصیت کا روحانی پہلو۔ از: ملک حبیب اللہ)
سیاست اور مذہب:
دنیا کے کسی مذہب میں سیاست مذہب سے الگ ہو یا نہ ہو‘ میری سمجھ میں اب خوب آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ (اسلام کا سفیر‘ صفحہ 159)
قرآن کریم کی اصولی ہدایات:
زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی‘ سیاسی ہو یا معاشی غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔ قرآن کریم کی اصولی ہدایات اور طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے لیے حسن سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ ہے اس سے بہتر تصور ناممکن ہے۔
(حیات قائداعظمؒ‘ صفحہ 427)
اسلام ہی ہمارا طرۂ امتیاز ہے:
میمن چیمبر آف کامرس بمبئی کی طرف سے ایک سپاس نامہ کے جواب میں قائداعظمؒ نے فرمایا ’’میں ان جماعتی ناموں کو بالکل ناپسند کرتا ہوں۔ آپ کو چاہیے کو اپنا نام ’’مسلم چیمبر آف کامرس‘‘ رکھیں اس لیے کہ اسلام ہی ہمارا طرۂ امتیاز ہے۔‘‘ (عظمت رفتہ‘ ص: 484‘ اسلام کا سفیر صحہ 165)
ماہِ صیام کا احترام:
شاہ انگلستان جارج ششم کے زمانے میں گفت و شنید کے لیے جن زعمائے ہند کو عوت دی گئی ان میں قائداعظمؒ بھی شامل تھے۔ اس گفت و شنید کے دوران قائد اعظمؒ کو بھی بکنگھم پیلس سے شاہی ظہرانہ کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ مدعوئین یہ دعوت نامہ پا کر پھولے نہ سمائے کیونکہ شاہی محل میں شہنشاہ معظم‘ شاہی خاندان کے معزز افراد اور بین الاقوامی شہرت کے مالک چوٹی کے رہنمائوں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کام و دہن کی تواضع کرنے کا شرف ان کو کبھی خواب میں بھی حاصل نہ ہوا تھا‘ اس لیے تمام مدعوئین بے تابی سے ظہرانے کا انتظار کرنے لگے مگر قائداعظمؒ نے معذرت نامہ بھیج دیا کہ ’’یہ رمضان کا مقدس مہینہ ہے‘ اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔‘‘ (بحوالہ: اسلام کا سفیر 168)
اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی:
مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات‘ اپنے تہذیبی ارتقا‘ اپنی روایات اور اسلامی قانون کے حکمرانی کر سکیں۔ (21 نومبر 1945‘ فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب)
دستور ساز اسمبلی اور شریعت:
مگر خان برداران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہر آلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین انحراف کرے گی‘ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے۔ (30 جون 1947ء کو ڈان میں قائداعظمؒ کا بیان)
قائداعظم کے مذکورہ بالا فرامین/بیانات سے عیاں ہے کہ قائداعظم سیکولر اور لادین نہیں تھے‘ وہ ایک سچے مسلمان تھے اور پاکستان کو سیکولر کے بجائے ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ جو لوگ قائداعظمؒ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ صرف پاکستان کی نظریاتی اساس کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں بلکہ درحقیقت وہ قائداعظم کو ایک ’’منافق‘‘ کے طور پر پیش کرکے ان کی کردار کشی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ وہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ قائداعظم کہتے کچھ اور تھے‘ چاہتے کچھ اور تھے یعنی زبان ان کی اسلامی تھی اور دل ان کا سیکولر تھا مگر قائداعظمؒ کی پوری زندگی اس کی تردید کرتی ہے۔ قائداعظمؒ کی سیرت اور کردار ہر قسم کی منافقت سے پاک تھا اور وہ ایک صاف گو انسان تھے‘ انہیں منافقت کا لبادہ اوڑھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ مزید یہ کہ سیکولر عناصرکا تحریک پاکستان میں کوئی کردار ہی نہیں‘ وہ غیر جانبدار تھے یا پھر ان کی ہمدردیاں ہندوئوں کے ساتھ تھیں‘ اس لیے ان کی کسی تحریر کو کوئی اہمیت دینے کے بجائے گندے نالے میں پھینک دینا چاہیے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے 6 مارچ 1948ء کو کراچی میں قائداعظمؒ نے کہا:
’’بھارت نے قیام پاکستان کو قبول نہیں کیا‘ اس نے ابھی سے ہی پاکستانیوں کو نظریاتی اساس سے ہٹانے اور تعصبات میں الجھانے کے لیے پاکستان میں سے ہی اپنے تنخواہ دار ایجنٹوں کا گروہ تیار کرلیا ہے‘ جو خوش نما نعرے لگا کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اللہ نہ کرے کہ اہل پاکستان ان سے غافل ہو کر ان کے دھوکے میں آجائیں۔‘‘ (بحوالہ: پاک فوج کا جریدہ ہلال شمارہ 12 مارچ 10 اپریل 1997)
آخر میں قائداعظمؒ کے بارے میں تاریخ پاکستان کے معروف محقق ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی کے تاثرات جو انہوں نے اپنی کتاب ’’تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان‘‘ میں لکھے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
’’قائداعظمؒ کی ایک نہیں متعدد تقریریں ہیں‘ جن میں انہوں نے اسلام کے اجزائے ترکیبی یعنی قرآن و سنت‘ کلمۂ توحید‘ اسلامی ضابطۂ اخلاق‘ مسلم تہذیب‘ مسلم روایات‘ اسلامی تصورات‘ امت واحدہ اور مسلم اتہاد کو پاکستان کی اساسی قدر قرار دیا ہے۔‘‘