ترکی اور رجب طیب اردوان پر امریکی ’’فرد جرم‘‘ ۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کی ہیئت اور حیثیت میں یکطرفہ تبدیلی مشرق وسطیٰ میں ایک نئی صف بندی کو جنم دیتی نظر آرہی یے جسکی طرف ہم نے گزشتہ ہفتے اشارہ کیا تھا۔ اب ایران اور ترکی شام کے قضئے کو بات چیت سے طئے کرنے پر تیار نظر آرہے ہیں اور روس ان دونوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہاہے۔ امریکہ کو ابھرتے ہوئے اتحاد کا اندازہ ہے اور واشنگٹن نے پیش بندی شروع کردی ہے۔ 12 دسمبر کو صدر ٹرمپ کے مشیرِ قومی سلامتی ڈاکٹر جنرل مک ماسٹر نے ترکی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسکے دودن بعد یعنی 14 دسمبر کو اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی Nikki Haileyنے ایران پر چڑھ دوڑیں۔
ترکی اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کافی عرصے سے جاری ہے اور نیٹو اتحادکا یہ واحد مسلمان ملک وقتاً فوقتاً امریکہ بہادر کی تنقید کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ جناب طیب رجب اردوان ایک عرصے سے فلسطینیوں کے حقوق کی کھل کر حمائت کررہے ہیں۔مئی 2010 میں ترکی نے کشتیوں کیایک ‘غزہ آزادی کارواں’ یاGaza Freedom Flotillaکا اہتمام کیا جس میں دنیا بھر کیسماجی کارکن کشتیوں کے قافلے می?ں غزہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ سب لوگ نہتے تھے اور ایک کشتی پر پاکستان کے معروف صحافی طلعت حسین بھء سوار تھے۔ اسرائیلی بحریہ نے قافلے کوروکا۔ اسکے چھاپہ مار ان کشتیں پر سوار ہوگئے اور فائرنگ کرکے 9 نہتے کارکنوں کو قتل کردیا۔ جناب اردوان نے جو اسوقت ترکی کے وزیراعظم تھے اسرائیلی کی اس جارحیت پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے تل ابیب سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے۔ جناب اردوان کے اس فیصلے پر اسرائیل کے ساتھ امریکہ نے بھی برہمی ظاہر کی اور ان دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہوگئی۔ حالیہ زبانی جھڑپ کا آغاز چند ماہ پہلے ہوا جب امریکہ نے شام میں ترکی کی کردش ڈیموکریٹک پارٹی یا PKKکے دہشت گرد ونگ عوامی دفاعی محاذ یا YPGکو مسلح کرنا شروع کردیا جس پر ترکی کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا۔صدر بشاالاسد کی حکومت کو بھی YPGکی دہشت گردی کا سامنا ہے اور دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر شدید اختلافات کے باوجود ترکی اور شام کے درمیان محدود عسکری معاونت دیکھی گئی۔
امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردینے کے خلاف صدر اردوان کی جانب سے مسلم دنیا میں رائے عامہ ہموار کرنے کی مہم پر واشنگٹن ترک صدر سے ایک بار پر ناراض ہے جسکا اظہار امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی نے بہت ہی اشتعال انگیز پیرائے میں کیا۔12 دسمبر کو واشنگٹن میں ایک برطانوی مرکز دانش (Think Tank) پالیسی ایکسچینج’ Policy Exchangeکے ‘بدلتی دنیا میں امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات’ کے موضوع پر ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ایچ آر مک ماسٹر نے کھل کر الزام لگایا کہ:
•قطر کی طرح ترکی شدت پسند نظریہ پھیلانے کے لیے رقوم کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے اور ترکی بھی ان گروہوں کو مالی مدد فراہم کررہا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں
•مغربی افریقہ سے جنوب مشرقی ایشیا تک ہر جگہ ترکی ملوث دکھائی دے رہا ہے۔
•ترکی کی غیر ضروری مداخلت سے بلقان کی صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے۔
•ترکی 1970ء کی دہائی کے سعودی عرب کے نقش قدم پر عمل پیرا ہے۔
•مدارس، مساجد اور نام نہاد خیراتی ادارے انتہا پسند نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں
• ترکی کی برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی AKPکے اخوان المسلمون سے تعلقات ہیں۔
•AKPنے سول سوسائٹی اور رفاحی کاموں کے ذریعے اپنے اثرورسوخ کو پھیلا کر ملک میں اجارہ داری قائم کرلی ہے اور AKP ترکی کو مغرب سے دور لے جارہی ہے


میڈیا میں یہ تقریر پڑھ کر اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں کو بہت حیرت ہوئی۔جنرل مک ماسٹر سپاہی سے زیادہ دانشور سمجھے جاتے ہیں کہ وہ پی ایچ ڈی اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ عام طور سے جذباتی اور غیر زمہ دارانہ گفتگو نہیں کرتے اور پھر یہ سمینار امریکہ وبرطانیہ کے ہاہمی تعلقات کے بارے میں تھا جس میں ان موضوعات پر بات کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ جنرل صاحب نے ایک ہی سانس میں تین ملکوں یعنی ترکی، قطر اور سعودی عرب کو نام لے کر رگید دیا۔ حالانکہ 70 کی دہائی میں سعودی عرب عرب نے یمن، عراق، لیبیا، شام میں جو کچھ کیا وہ امریکہ پالیسی کا حصہ تھا اور ریاض عرب دنیا میں بعثی انقلاب کا راستہ روکنے کیلئے سی آئی اے سے مل کر کام کررہا تھا۔ 1979 کے بعد افغانستان میں سعودیوں نے جو بھی کردار ادا کیا وہ امریکہ کے ایک مخلص حلیف کی حیثیت سے تھا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سعودی عرب سی آئی اے کا Financerتھا۔ جنوب ایشیا کا ذکر کرکے امریکہ نے برمی پناہ گزینوں کیلئے ترکی کی مدد پر اعتراض کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ نسل کشی کا شکار مظلوم روہنگیا سے دنیا کے امن کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ کہنا کہ مدارس، مساجد اور نام نہاد خیراتی ادارے کس طرح انتہا پسند نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں انتہائی اشتعال انگیز اور سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے جسکے بارے میں اس قسم کے تبصرے غیر ضروری اور مذہبی رواداری کے خلاف ہیں۔ ترک وزرات خارجہ نے جنرل صاحب کے ان ارشامک ماسٹر کے الزامات کا نکتہ وار جواب دیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ اگر امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہے تو اسے فوری طور پر YPGجیسے دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی بند کردینی چاہئے۔ ترجمان نے یاد دلایا کہ امریکہ اور یورپی یونین دونوں نے کردش ڈیموکریٹک پارٹی یا PKKکو دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے لیکن امریکہ اسکے عسکری ونگ YPGکو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔
ترکی پر حملے کے دودن بعد ایران کی خبر لی گئی اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ نکی ہیلی نے اخباری کانفرنس کا اہتمام کیا۔اس نشست کیلئے صحافیوں کو واشنگٹن میں امریکی بحریہ اور فضائیہ کے مشترکہ اڈے پر طلب کیا گیا تھا جو Joint Base Anacostia-Bolling یا JBABکہلاتا ہے۔ 9 سوایکڑ پر محیط JBABامریکہ کا جدید ترین فوجی اڈہ ہے اور وہائٹ ہاوس سمیت اہم فوجی تنصیبات کی حفاظے بھی JBABکی ذمہ داری ہے۔ پریس کانفرنس اڈے کے وئرہاوس Warehouseمیں منعقد کی گئی جہاں اس میزائل کا ایک بڑا ٹکڑا رکھا ہوا تھا جس سے مبینہ طور پر یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے سعودی دارالحکومت ریاض کو نشانہ بنایا تھا لیکن اسے امریکی ساختہ میزائل شکن نظام نے ناکارہ کردیا۔ نکی ہیلی نے کہا کہ ملبہ ایرانی ساختہ منجنیقی (Ballistic) میزائل کاہے جو اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ایران سعودی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے حوثیوں کو خطرناک اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ ان میزائلوں پر جوہری ہتھیار نصب کئے جاسکتے ہیں۔ سفیر صاحبہ کا موقف تھا کہ ایران کی یہ سرگرمیاں اس جوہری معاہدے کی صریح خلاف وزری ہے جس پر اپریل 2015میں امریکہ سمیت سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان، جرمنی اور یورپی یونین نے دستخط کئے تھے۔ معاہدے کے تحت ایران نے معاشی پابندیاں ہٹانے کے عوض یورینیم کی افزودگی منجمد کردینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں عالمی ایٹمی توانائی کمیشن کا وفد ہرچھ ماہ بعد ایران کا دورہ کرکے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہاں کی تمام جوہری بھٹیاں ٹھنڈی پڑی ہیں۔ امریکہ کے علاوہ معاہدے کے تمام فریق مطمعن ہیں کہ ایران اس معاہدے کی پوری طرح پاسداری کررہا ہے اور کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کی اب تک کوئی اطلاع نہیں ملی۔ تاہم صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیھن یاہو کا خیال ہے کہ ایران نے یہ معاہدہ کرکیسلامتی کونسل کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے اور بقول صدر ٹرمپ ایسی احمقانہ دستاویز انھوں نے آج تک نہیں دیکھی۔ امریکی صدر یہ معاہدہ فوری طور پر منسوخ کردینے کے خواہشمند ہیں۔ لیکن انکے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں کہ اس پر امریکہ کے علاوہ 5 دوسرے ملکوں نے بھی دستخط کئے ہیں جو سب کے سب اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ معاہدے کی نگرانی کرنے والی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی بھی پوری طرح مطمعن ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گئیترس نے سلامتی کونسل کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں امریکہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایران جوہری سمجھوتے کو منسوخ کرنے سے باز رہے کہ اس قسم کے یکطرفہ اقدام سے خطہ ایک نئے بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔اب امریکہ چاہتا ہے کہ بیلسٹک میزائل کے تجربے، تیاری اور ترقی پر پابندی کو بھی معاہدے کا حصہ بنادیا جائے۔ جسکے جوا ب میں ایران کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے پر پوری طرح کاربند ہے اور تہران نے جوہری ہتھیار بنانے کا منصوبہ ختم کردیا ہے لیکن میزائل پروگرام اسکی دفاعی ضروت ہے جس سے وہ کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہوگا۔ اپنی رپورٹ میں جہاں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے امریکی صدر سے جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کی درخواست کی ہے وہیں ایران پربھی زور دیا ہیکہ وہ اپنے میزائل پروگرام کی ضمن میں معاہدے کے جملہ دستخط کنندگان کی تشویش اور تح?فظات رفع کرنے کی کوشش کرے۔
نکی ہیلی نے الزام لگایا کہ کہ ایران یمن میں حوثیوں کو ایسے دورمار میزائل فراہم کررہا ہے جن سے یہ دہشت گرد سعودی عرب کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ نکی ہیلی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ حوثیوں نیجولائی اور نومبر میں سعودی عرب پر وہ میزائل داغے جو انھیں ایران نے فراہم کئے تھے۔ چنانچہ ایران اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہاہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہیہتھیاروں پر پابندی ایران جوہری معاہدے کی روح ہے اور تہران نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ چوہری معاہدے پر عملدرآمد میں مخلص نہیں۔ایرانی حکومت نے حوثیوں کومیزائل دینے کی سختی سے تردید کی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ تہران یمن بحران کے پرامن حل کیلئے پرعزم ہے اور وہ سعودی عرب سمیت خطے کے تمام ملکوں سے دوستی کا خواہشمند ہے۔
مشرق وسطیٰ کے غیر جانبدار حلقوں کا خیال ہے کہ بیت المقدس کی ہیئت اور حیثیت میں یکطرفہ تبدیلی سے مسلم امت میں امریکہ کے ?خلاف نفرت پیدا ہوئی ہے اور اس قدم کی پرزور مخالفت نہ کرنے پر خلیجی حکمرانوں کو خود اپنے عوام کے غیض و غضب کا سامنا ہے۔اس مرحلے پر ایران عرب کشیدگی عرب رائے عامہ کے رخ کو تبدیل کرکے بیت المقدس کامعاملہ پس پشت ڈالا جاسکتا ہے۔ ترک حلقوں کا کہنا ہے کہ اسکی مثالی معیشت سے امریکہ اور اسرائیل حسد کا شکار ہیں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگاکر وہ معاشی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔حالیہ جائزے کے مطابق ترکی میں معیشت کی شرحِ نمو دنیا کی 20 ترقی یافتہ معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔ 30ستمبر کو ختم ہونے والی تیسری سہ ماہی کے اختتام پر قومی معیشت کے مجموعی حجم میں 11 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ پنڈتوں نے 8.5فیصد ا?ضافے کی پیشن گوئی کی تھی۔ سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ تیسری سہ ماہی کے دوران صارفین نے خریداری پر 11 فیصد زیادہ رقم خرچ کی لیکن اسی دوران سرکاری اخراجات میں اضافہ صرف 3فیصد سے بھی کم رہارہا یعنی معیشت میں بہتری سے عام لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں اور قومی خزانہ سرکاری اللے تللے پر ضائع نہیں ہورہا۔
اس ضمن میں ایک اور پہلو کا ذکر قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ یعنی اب خود اسرائیل کے اندر بھی بے چینی محسوس کی جارہی ہے اور کٹر یہودیوں نے صیہونیت کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ یہودیوں کا ہاسد Hasidic فرقہ بیت المقدس کی حیثیت میں تبدیلی پر بے حد مشتعل ہے۔ اس فرقے کی تشکیل اٹھارھویں صدی میں ہوئی جسکی بنیاد توحیدِ خالص اور توریت کی تعلیمات پر ہے۔ ہاسد تحریک کا آغاز رومانیہ کے شہرساتومیری Szatmárnémeti سے ہوا تھا اسلئے اسے Satmar Hasidic فرقہ بھی کہتے ہی۔ ہاسد وں کے یہاں تمام رسومات و طریقہ عبادت کا ماخد توریت ہے اور وہ اپنے مذہب میں درآنے والی یونانی بدعات کے سخت مخالف ہیں۔ قومیت Nationalism اور قومی ریاست کا انکے یہاں کوئی تصور نہیں اسی بنا پر یہ صیہونیت کو کفر اور صیہونیت کی بنیاد پر قائم ریاست اسرائیل کو یہودی عقیدے کے خلاف سمجھتے ہیں۔ انکا ایمان ہے کہ حضرت سلیمان نے جس اسرائیلی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی وہ دراصل توحید اور بندگی رب کی تحریک تھی نہ کہ سیاسی اور قوم پرست ریاست۔ انکے خیال میں اسی تصور پر حضرت اسرائیل (حضرت یعقوب) یہودیوں کو منظم کرنا چاہتے تھے لیکن بعد میں یونان کے فلسفہ قوم پرستی سے متاثر ہوکر یہودیوں کو تحریک کے بجائے قوم بنادیا گیا۔ہاسدوں کے یہاں خاندانی منصوبہ بندی سخت گناہ ہے اور انکے خیال میں شادی کا مطلب ہی فروغِ آبادی ہے۔ہفتہ 8 دسمبر کو برونکس Bronx کے نیویارک ایکسپو سینٹر میں ہزاروں امریکی یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے ہاسد ربائی ایرون ٹیٹلبام Aaron Teitelbaumنے کہا کہ ہم یروشلم کو صیہونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتے۔انھوں نے کہا کہ یروشلم متبرک اور پاک شہر ہے۔ یہ اہل تقویٰ کی بستی ہے اسے صیہونیت کے پنجے میں نہیں جانے دیا جائیگا۔ہمارے روحانی آباواجداد نے یروشلم کو عبادت و ریاضت کیلئے بسایا تھا لیکن اب وہاں پارلیمان ہے جہاں دن رات جھوٹ بولا جاتا ہے اور توریت کی تعلیمات کے خلاف قانون سازی ہوتی۔ وہاں کی کچہری اور عدالت میں جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں۔ ربائی ٹیٹلبام نے کہا کہ ہم یروشلم کو صیہونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتے بیشک صدر ٹرمپ جو چاہیں اعلان کرتے رہیں ہم اس اعلان کو اسی طر?ح مسترد کرتے ہیں جیسے ہمارے بزرگوں نے 1948 میں امریکی صدر ہیری ٹرومن کی جانب سے اسرائیل کے اعلان کو مسترد کردیا تھا۔ نہ ہم صیہونی ریاست کو مانتے ہیں اور نہ اسکے سیاسی دارالحکومت کو۔ یروشلم نیکی، پرہیزگاری، خدا ترسی و تقویٰ کا مرکز ہے اور ہم تصوف وروحاینت کے اس مرکز کو دنیا داروں کا پناہ گاہ نہیں بننے دینگے۔ اسی طرح کے مظاہرے اب یروشلم میں بھی شروع ہوگئے ہیں۔خیال ہے کہ ربائی ٹیٹلبام جلد ہی اسرائیل جاکر یروشلم کو صیہونی سیاست سے پاک کرنے کی تحریک کا اغاز کرینگے۔ چند ہفتہ پہلے یروشلم پوسٹ میں شایع ہونے والے رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق شہر میں آباد 5 لاکھ یہودیوں کی ایک چوتھائی تعداد قدامت پسند ہاسدوں پر مشتمل ہے اور ربائی صاحب کی تحریک اسرائیلی حکومت کیلئے مشکلات پیداکرسکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی نئی صف بندی بڑی دلچسپ شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔
ترک ایران تعاون، شام سے ممکنہ مصالحت، الفتح اور حماس کے مابین گفتگو، معاشی مقاطعے کے دوران ترکی اور ایران کی جانب سے قطر کی مدد اور اب اسرائیل کے اندر صیہونیت کے خلاف تحریک سے لبنان، حزب اللہ اور حماس و تحریک آزادی فلسطین کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ ترکی اور خلیجی ممالک کے معاملے میں شامی حکومت کے روئے میں بھی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ سب سے بڑھ کر عرب دنیا میں بیت المقدس کے معاملے پر سخت غم و غصہ ہے۔ اس پس منظر میں ابھرتے نئے علاقائی رجحان سے اسرائیل، امریکہ اور انکے خلیجی اتحادیوں کا اضطراب بہت واضح ہے۔ عرب و عجم کشیدگی بڑھانے، شیعہ سنی تعصب کو ہوا دینے اور ترکی کی عسکری طاقت کا ہوا اسی اضطراب کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
امریکہ‘ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا‘ جیمز میٹس
امریکہ نے باور کرایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرے گا لیکن ان (سرگرمیوں) کے سدباب کے لیے کسی عسکری کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔اقوا م متحدہ میں امریکہ کی سفیر نیکی ہیلے نے خصوصی پریس کانفرنس کی تھی اور یمن کے باغی حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر مارے جانے والے میزائل کے شواہد پیش کیے تھے کہ وہ ایرانی ساختہ ہیں۔ اسی حوالے سے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس سے ایک نامہ نگار نے خصوصی طور پر سوال کیا کہ کیا امریکہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں امریکہ کے وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ تاحال فوجی کارروائی کا کوئی امکان نہیں،پینٹاگون میں صحافیوں سے بات چیت میں جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر ہیلے نے ذرائع ابلاغ کو ٹھوس ثبوت پیش کیے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران‘ یمن کے حوثی باغیوں کو بیلسٹک میزائل فراہم کررہا ہے۔ جیمز میٹس نے واضح کیا کہ امریکہ صرف سفارتی سطح پر پس پردہ ایرانی سرگرمیوں کو بے نقاب کررہا ہے اور خطے میں ایرانی اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے خطے میں استحکام کی کوشش میں مصروف ہے۔ جیمز میٹس نے ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ یمن میں حوثیوں کی مدد کے علاوہ خطے میں دیگر غیر ریاستی عناصر کی معاونت میں ملوث ہے۔
چین‘ فرانس‘ روس‘ برطانیہ اور امریکہ نے جولائی 2015 ء میں ایران سے جوہری معاہدہ کیا تھا، جس کے بعد امریکہ اور یورپی یونین نے تہران پر عائد اقتصادی اور سفارتی پابندی اٹھانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس ضمن میں جنوری 2016 ء میں ایران کی جانب سے معاہدہ کی پاسداری کے بعد سفارتی اور اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا آغاز کیا گیا تھا۔ اسی کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے میں شریک جاپان اور روس نے معاہدے کے برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ معاہدے کی حمایت نہ کرنے سے معاملات مزید پیچیدہ ہوجائیں۔