میجر صدیق سالک نے ڈھاکا میں کیاکیا ڈوبتے دیکھا؟۔

سقوط ڈھاکا پاکستان کی تاریخ ہی کا نہیں اسلامی تاریخ کا عظیم سانحہ ہے۔ اس سانحے کے سلسلے میں صدیق سالک کی تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ کو کئی اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس کتاب کی ایک اہمیت یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا کے وقت صدیق سالک نہ صرف یہ کہ میجر تھے بلکہ سقوط ڈھاکا کے عینی شاہد تھے۔ وہ سقوط ڈھاکا سے دو سال قبل ڈھاکا پہنچے اور انہوں نے دو سال کے عرصے میں اہم ترین سیاسی و عسکری واقعات کو اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے دیکھا۔ صدیق سالک صاحب کی ایک اہمیت یہ ہے کہ وہ ڈھاکا میں موجود اہم ترین عسکری ‘ سیاسی اور صحافتی کرداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ طاقت کے اہم مراکز میں کیا ہورہا ہے اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ طاقت کے اہم مراکز میں کیا نہیں ہورہا ہے۔ صدیق سالک کے مشاہدے اور تحریر میں موضوعیت اورمعروضیت یعنی Subjectivity اور Objectivityکا حسین امتزاج موجود ہے۔ یعنی صدیق سالک نے مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکا کے سانحے کو جس طرح دیکھا اس میں Attached out Look بھیموجود ہے اور Detached out Lookبھی موجود ہے۔ اس طرح کی کتابوں میں یہ دونوں خوبیاں شاذ ہی پائی جاتی ہیں۔ صدیق سالک کی کتاب کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ کتاب سقوط ڈھاکا کے فوراً بعد لکھی گئی۔ چنانچہ اس کتاب میں برجستگی ہے اور کتاب میں کہیں بھی ’’حقائق‘‘ کو ’’شعوری‘‘ طورپر مسخ یا Distortکرنے کی خواہش یا کوشش نظر نہیں آتی۔ صدیق سالک کتاب میں نہ سول نظر آتے ہیں نہ فوجی وہ صرف ’’پاکستانی‘‘ نظر آتے ہیں۔ ان کی ہمدردیاں سابق ’’مشرقی پاکستان‘‘ کے ساتھ تھیں نہ ’’مغربی پاکستان‘‘ کے ساتھ۔ ان کی ہمدردیاں صرف ’’پاکستان‘‘ کے ساتھ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حقائق کو کسی نفسیاتی یا ذہنی تحفظ کے بغیر بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا سقوط ڈھاکا کے حوالے سے اہم قومی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ دستاویز ہم نے پہلی بار اس وقت پڑھی جب ہم انٹر کے طالب علم تھے۔ اس کتاب کو چند روز قبل دوبارہ پڑھا تو محسوس ہوا کہ ہم نے اس کتاب کو پہلی بار پڑھا ہے۔ کتاب کا مطالعہ ختم ہوا تو خیال آیا کہ کتاب کے اہم نکات فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کو بھی شریک کیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ 288 صحافت پر مشتمل کتاب کی تلخیص ممکن نہیں اس لیے ہم اپنے کالم میں صرف کتاب کے ان اہم پہلوئوں کا ذکر اور تجزیہ کریں گے جو ہماری قومی زندگی کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ آیئے ایک بار پھر کتاب کے اہم نکات پر نظر ڈالتے ہیں اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ میجر صدیق سالک نے ڈھاکا میں کیا کیا ڈوبتے دیکھا؟
صدیق سالک سقوط ڈھاکا سے تقریباً دو سال قبل جنوری 1970 ء میں ڈھاکا پہنچے۔ وہ ڈھاکا کے ہوائی اڈے پر کھڑے تھے کہ ایک فوجی جیپ ان کے پاس آکر رکی۔ پھر کیا ہوا صدیق سالک کی زبانی سنیے۔


’’حوالدار نے مجھے اسمارٹ سا سلیوٹ کیا او رپاس سے گزرتے ہوئے ایک بنگالی لڑکے کو بھبک دار لہجے میں حکم دیا۔ ’’صاحب کا اٹیچی کیس جیب میں رکھو۔‘‘ سہمے ہوئے لڑکے کو یہ بھبک ناگوار تو گزری مگر اپنے ’’آقا‘‘ پر احتجاجی نظر ڈالتے ہوئے حکم بجا لایا… میں نے اپنا ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالا اور چند سکے اس غریب لڑکے کو دینا چاہے۔ مگر حوالدار نے پرزور لہجے میں کہا ’’سر ان حرامزادوں کی عادت نہ بگاڑیے‘‘ میں نے مشورہ مان لیا… اور بنگالی لڑکا ایک نفرت بھری نگاہ مجھ پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ 13-)
حوالدار نے بنگالیوں کو جس انداز میں ’’حرامزادے‘‘ کہا اس سے ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ صرف اس حوالدار تک محدود نہ تھا۔ ہوتا تو صدیق سالک اس پہ چونک جاتے شاید اپنے جونیئر کو جھڑک دیتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بنگالیوں کے بارے میں یہ زبان و بیان عام تھی اور اس کا استعمال کسی کو نہ حیران کرتا تھا نہ چونکاتا تھا۔ سقوط ڈھاکا ابھی دو سال دور تھا مگر صدیق سالک کا مذکورہ بیان بتا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی بڑی تعداد مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کے اراکین کو ’’آقا‘‘ سمجھتی تھی اور ان میں سقوط ڈھاکا سے بہت پہلے اپنے ’’آقائوں‘‘ کے لیے نفرت پیدا ہوچکی تھی۔
صدیق سالک ڈھاکا پہنچ کر اپنے فوجی بھائیوں سے ملے تو انہوں نے صدیق سالک کو کیا مشورے دیے، یہ ملاحظہ کیجیے۔
’’گھر کے لیے ہرگز بھاری چیزیں نہ خریدنا کیا معلوم کب کن حالات میں یہاں سے بسترا گول کرنا پڑے۔ اپنا روپیہ پیسہ شہر کے کمرشل بینک کے بجائے (فوجی) چھائونی کے نیشنل بینک میں رکھوانا۔ اپنے پیش رو کے فلیٹ میں ٹکے رہنا۔ صندوق نما فلیٹ بڑا محفوظ ہے۔ اس میں کوئی شرپسند آسانی سے بم نہیں لڑھکاسکتا۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۔13)
صدیق سالک کا یہ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ اگرچہ ابھی سقوط ڈھاکا دو سال دور تھا مگر مشرقی پاکستان میں تعینات فوجی کسی ’’علم‘‘ یا ’’احساس‘‘ کے تحت یہ سوچ رہے تھے کہ انہیں کسی بھی دن اچانک مشرقی پاکستان سے نکلنا یا بھاگنا پڑسکتا ہے۔ یہ احساس اگر سقوط ڈھاکا سے ایک ماہ پہلے موجود ہوتا تو کوئی خاص بات نہ ہوتی مگر اس احساس کی سقوط ڈھاکا سے دو سال پہلے موجودگی حیران کن ہے۔ اس احساس کی موجودگی اس تجزیے کو تقویت پہنچاتی ہے کہ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ سقوط ڈھاکا سے بہت پہلے اپنے دل اور دماغ میں سقوط کا مرتکب ہوچکا تھا اور وہ مشرقی پاکستان کو ایک ’’اجنبی سرزمین‘‘ کی طرح دیکھ رہا تھا۔
صدیق سالک کے بقول ان کے بیوی بچوں کے ڈھاکا آنے کے اگلے روز ہی بنگالیوں کا ایک ہجوم ان کے گھر پر ٹوٹ پڑا۔ پھر کیا ہوا صدیق سالک سے سنیے۔
’’مگر وہ شرپسند نہ تھے۔ محض محنت مزدوری کرنے والی عورتیں تھیں جو ’’آیا‘‘ کے طو رپر ملازمت کرنے کی خواہشمند تھیں۔ بنگالی عورتیں مغربی پاکستان کے گھروں میں ملازمت کو ترجیح دیتی تھیں، جیسے تقسیم ہند سے پہلے ہندوستانی خانسامے اور بیرے کسی انگریز کے ہاں نوکری کو بہتر سمجھتے تھے۔ دوسرے تیسرے دن معلوم ہوا کہ میری بیوی نے دو نوکرانیاں ملازم رکھ لی ہیں۔ بظاہر یہ سراسر فضول خرچی تھی۔ مگر جب بیوی سے جواب طلبی کی تو وہ کہنے لگی۔ فکر نہ کیجیے ان دونوں کی تنخواہ ہمارے راولپنڈی والے واحد ملازم کی تنخواہ سے کم ہوگی…میں راستے میں جہاں جہاں رکا بھک منگوں کے غول کے غول مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے محسوس کیا کہ بنگال کا عام غریب آدمی مغربی پاکستان کے انتہائی غریب آدمی سے بھی غریب تر ہے۔ میں اپنے آپ کو مجرم محسوس کرنے لگا۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۔13-14 )
صدیق سالک کا یہ بیان بتارہا ہے کہ جس معاشی احساس محرومی نے بالاخر ایک بہت ہی بڑے مسئلے کی صورت اختیار کی وہ من گھڑت افسانہ نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان کے عام لوگ مغربی پاکستان کے عام لوگوں سے کہیں زیادہ غریب تھے۔ حالانکہ 1971 ء تک مشرقی پاکستان قومی وسائل یا قومی آمدنی کا زیادہ بڑا حصہ فراہم کررہا تھا۔ لیکن مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کو بہت کم وسائل فراہم کررہا تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 1956ء میں جو پانچ سالہ منصوبہ بنایاگیا اس کا حجم 9230ملین ر وپے تھا۔ اس رقم میں سے 56 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان کے لیے صرف 3000 ملین روپے مختص کیے گئے جبکہ 44 فیصد آبادی والے مغربی پاکستان کے لیے 2730 ملین روپے رکھے گئے۔ مرکز بشمول کراچی کے لیے منصوبے میں 2730 ملین روپے تجویز کیے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ مرکز کی رقم کا بیشتر حصہ اخراجات کی صورت میں مغربی پاکستان پر صرف ہوتا تھا۔
(The Separation of East Pakistan-By Hasan Zaheer, Page-55)
بہرحال صدیق سالک نے اس صورتحال کا ذکر اپنے دوست کیپٹن چودھری سے کیا تو وہ الٹا بنگالیوں کو کوسنے لگا، کہنے لگا کہ بنگالی کاہل اور نااہل ہیں۔ صدیق سالک کے بقول کیپٹن چودھری نے نفرت کے ساتھ کہا کہ بنگالی صرف خاندانی منصوبہ بندی کی خلاف ورزی میں اچھے ہیں۔ صدیق سالک کے مطابق کیپٹن چودھری انہیں اگلے دن شہر گھمانے لے گئے۔ صدیق سالک لکھتے ہیں۔
’’ہم شہر کے شاندار علاقوں میں گھومتے رہے۔ جن میں اسٹیٹ بینک ‘ گورنمنٹ ہائوس‘ ہائی کورٹ‘ انجینئرز انسٹی ٹیوٹ‘ ریلوے اسٹیشن‘ یونیورسٹی کیمپس اور ایسی ہی بارعب عمارتیں شامل تھیں۔ ان عمارتوں کا چکر لگانے کے بعد کیپٹن چودھری نے اہانت آمیز لہجے میں کہا۔ پہلے یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ یہ سب 1947ء کے بعد بنا۔ کیپٹن چودھری نے کہا کہ ضرورت ہے کہ کوئی آئے اور شیخ مجیب کے اقتصادی استحصال کے الزامات کی قلعی کھول دے۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔صفحہ 15 )
بلاشبہ اقتصادی حوالے سے عمارتوں کی تعمیر بھی اہم ہوتی ہے لیکن اگر خوشحالی انسانوں کی زندگی سے ظاہر نہ ہو تو ایسی خوشحالی مصنوعی خوشحالی کہلاتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار کہا تھا کہ ان کے دور میں ملک خوشحال ہوگیا ہے۔ اس کی مثال انہوں نے یہ دی تھی کہ آبادی کے بڑے حصے کے پاس موبائل فون موجود ہیں۔ مگر جنرل پرویز جب یہ بات کہہ رہے تھے تو ملک کی 35 یا 40 فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر یا اس سے بھی کم تھی۔ مزید 20 سے 25 فیصد لوگ وہ تھے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر یا اس سے کم تھی۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ مشرقی پاکستان اور بھارت کی سرحد 2700 کلو میٹر طویل تھی۔ اتنی طویل سرحد کے دفاع کے لیے مشرقی پاکستان میں صرف 25 ہزار باضابطہ فوجی تعینات تھے۔ مشرقی پاکستان میں حالات مزید خراب ہوئے تو مغربی پاکستان سے کمک بھیج دی گئی اور مشرقی پاکستان میں باضابطہ فوجیوں کی تعداد 45 ہزار ہوگئی۔ صدیق سالک کے بقول 73 ہزار افراد نیم فوجی دستوں پر مشتمل تھے۔
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ 20 اور صفحہ 179 )
یہاں سوال یہ ہے کہ وہ کیا سیاسی اور عسکری ذہنی سانچہ تھا جو بھارت جیسے دشمن کا مقابلہ صرف 25 ہزار فوجیوں سے کرنے والا تھا اور وہ بھی 2700 کلو میٹر طویل سرحد پر؟ کیا یہ بھی بنگالیوں‘ بھارت یا کسی بین الاقوامی طاقت کی سازش تھی کہ 1947 ء سے 1970 ء تک صرف 25 ہزار فوجی مشرقی پاکستان کی حفاظت کرتے رہے؟ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان، بھارت کو طشتری میں رکھ کر پیش کیا ہوا تھا۔ یہ اور بات کہ بھارت نے 1971 ء سے قبل اس طشتری پر توجہ نہ کی۔ لیکن ایسا بلاسبب نہ تھا۔ مغربی پاکستان کے جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کریں گے۔
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ 172 )
یہاں سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیسے کیا جاسکتا تھا؟ اس لیے کہ دونوں حصوں کے درمیان ڈیڑھ ہزار کلو میٹر طویل خلیج حائل تھی اور مغربی پاکستان کے پاس ایسی کوئی خصوصی عسکری اہلیت نہ تھی جس کو بروئے کار لاکر بھارت میں گھسا جاسکے اور بھارت کو زیر کیا جاسکے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کے دفاع کا خیال حماقت‘ پاگل پن اور ملکی وحدت و سلامتی کے خلاف ایک سازش تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سازش کو کبھی کسی نے بھی چیلنج نہ کیا۔ نہ کسی فوجی نے‘ نہ کسی سیاست دان نے نہ کسی دانشور یا صحافی نے۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘ میں صفحہ 43 اور 44 پر دعویٰ کیا ہے کہ بنگالیوں کو فوج میں شمولیت سے دلچسپی نہ تھی تاہم جنرل ایوب نے بھرتی کے جسمانی معیار میں کمی کردی جس کے نتیجے میں فوج میں مشرقی پاکستانیوں کی تعداد میں پہلے 100 اور پھر 500 فیصد اضافہ ہوا۔ لیکن حال ہی میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے لکھی گئی کتاب
Creation of Bangladesh Myths Exploded
کے خالق ڈاکٹر جنید احمد نے جیو نیوز پر حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں انکشاف کیا ہے کہ اگرچہ پاک فضائیہ اور پاک بحریہ میں بنگالیوں کی شمولیت 1947 ء سے شروع ہوگئی تھی مگر بری فوج میں 1962ء تک بنگالی موجود نہ تھے۔ مذکورہ بالا پروگرام 14 دسمبر 2017 ء کو رات 8 بجے نشر ہوا۔ ڈاکٹر جنید احمد نے کہا کہ مسئلہ صرف فوج کا نہیں تھا بلکہ 1971 ء تک مغربی پاکستان کی سول بیورو کریسی نے کسی بنگالی کو چیف سیکرٹری‘ سیکرٹری داخلہ‘ فنانس سیکرٹری اور پلاننگ سیکرٹری نہ بننے دیا۔ ہمارے ایک دوست نے جو 1971 ء کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہوئے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے 50 تھانوں میں سے 46 کے ایس ایچ او غیر بنگالی تھے۔ ایک طرف بنگال میں بے پناہ غربت تھی اور دوسری طرف بنگالیوں کو فوج کیا سول سروس اور پولیس میں آنے سے دلچسپی نہ تھی۔ کیا یہ بات کسی معقول اور انصاف پسند شخص کی سمجھ میں آسکتی ہے؟ صدیق سالک نے اپنی کتاب میں اس مسئلے پر بھی ’’روشنی‘‘ ڈالی ہے۔ صدیق سالک کے بقول جنرل یحییٰ نے 28جولائی 1969 ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ افواج پاکستان میں بنگالیوں کی تعداد دوگنی کردی جائے گی اور یہ اقدام بنگالیوں کی شکایت دور کرنے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ (صفحہ 21 ) سوال یہ ہے کہ جنرل ایوب کے دور میں اگر فوج میں بنگالیوں کی تعداد پہلے ہی 100بلکہ 500 فیصد بڑھ چکی تھی تو جنرل یحییٰ کو اس میں مزید اضافے کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہاں یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ جو بنگالی فوج میں شامل ہونے کے لیے تیار ہی نہ تھے ان کی تعداد میں پہلے سو فیصد اور پھر 500 فیصد اضافہ کیسے ہوا؟ صدیق سالک نے لکھا کہ وہ ایسٹ بنگال رجمنٹ کے دورے پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ بنگالی فوجی پنجوں کے بل کھڑے ہوکر اپنے قد کو بلند کرنے کی مشق کررہے ہیں جو صدیق سالک کے بقول ان کی کسی نفسیاتی الجھن کا پتا دے رہی تھی اور صدیق سالک کے بقول چونکہ ان کا قد 6 فٹ تھا اس لیے ان کی موجودگی میں بنگالی فوجیوں کی الجھن میں اضافہ ہوگیا تھا۔ (صفحہ ۔23 )صدیق سالک کے اس بیان میں قد کے ذکر کی اہمیت یہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک بنگالیوں کو یہ کہہ کر فوج میں شامل نہ کیا گیا کہ ان کے قد چھوٹے ہیں اور وہ پنجابیوں‘ پٹھانوں اور مہاجروں کی طرح 6 فٹ قد کے حامل نہیں ہوتے۔ سوال یہ ہے کہ اس اعتراض کا کیا عسکری اور اخلاقی جواز تھا؟جدید نظام حرب میں جسمانی طاقت اور قدوقامت کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔خیر صدیق سالک ایسٹ بنگال رجمنٹ پہنچے تو ان کی ملاقات ایک بنگالی کرنل سے ہوئی۔ اس نے صدیق سالک سے کہا۔
’’بنگالیوں کا کوٹہ دگنا کرنے کا کیا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتے ہو۔ چھوڑو اس کو‘ کیونکہ اگر صدر کے حکم پر سو فیصد عمل ہوگیا تو بھی افواج میں بنگالیوں کی تعداد بمشکل 15 فیصد ہوجائے گی حالانکہ وہ مغربی آبادی کا 56 فیصد ہیں۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ 23- )
یہ صورتحال بتارہی ہے کہ فوج میں بنگالیوں کے 500 فیصد اضافے اور جنرل یحییٰ کے اعلان پر عمل کے بعد بھی بنگالی فوج میں ایک معمولی اقلیت رہتے۔ اہم بات یہ ہے کہ میجر صدیق سالک نے بنگالی کرنل کے بیان کی تردید نہ کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگالی کرنل غلط بیانی نہیں کررہا تھا۔
پاکستان میں انتخابات ہوئے اور شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ انتخابات کے دوران عوامی لیگ نے ہر جگہ من مانی کی اور فوج نے کسی بھی جگہ اس کی مزاحمت نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فوج کو صرف امن و امان برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (صفحہ 43- )
انتخابات کے بعد یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر شیخ مجیب نے چھے نکات پر مبنی آئین ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کا راستہ کون روکے گا؟ اس سوال کے جواب میں جنرل یحییٰ کے ایک معتمد جنرل (جس کا صدیق سالک نے نام نہیں لکھا) نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں ہم ان کالے حرامیوں کو اپنے اوپر ہرگز حکومت نہ کرنے دیں گے۔ یہ دسمبر 1970 ء کی بات ہے۔ (صفحہ 45- )
انتخابات کے بعد مجیب بھٹو کشمکش نے بحران پیدا کیا تو جنرل یحییٰ 12جنوری 1971 ء کو ڈھاکا پہنچے اور انہوں نے شیخ مجیب سے ملاقات کی۔ ملاقات میں جنرل یحییٰ نے مجیب سے کہا کہ مجھے آپ کے چھے نکات منظور ہیں مگر آپ مغربی پاکستان کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔ مجیب نے کہا کہ ہم مغربی پاکستان کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ (صفحہ۔ 49 )جنرل یحییٰ 16 دسمبر کو ڈھاکا روانہ ہوئے تو انہوں نے ایک صحافی کے جواب میں کہا کہ آپ مستقبل کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ پوچھیں بلکہ شیخ مجیب سے سوال کریں کیونکہ وہی ملک کے آئندہ وزیراعظم ہیں۔(صفحہ 50 )
لیکن جنرل یحییٰ مغربی پاکستان لوٹتے ہی لاڑکانہ میں بھٹو سے ملنے پہنچے۔ اس سے مجیب الرحمن اور ان کے حامیوں نے یہ معنی اخذ کیے کہ شیخ مجیب نے جنرل یحییٰ کے ساتھ جس سخت رویے کا مظاہرہ کیا اس کی سزا لاڑکانہ میں بھٹو کے ساتھ ’’سازش‘‘ کرکے دی جارہی ہے۔ مجیب، بھٹو کشمکش بڑھی تو شیخ مجیب الرحمن کے ایک قریبی ذریعے نے صدیق سالک سے ملاقات کی اور انہیں پیغام دیا کہ شیخ مجیب چھے نکات میں ایسی ترامیم کے لیے تیار ہیں جن کے بعد مغربی پاکستان کو چھے نکات پر کوئی اعتراض نہیں رہے گا۔ اس نے صدیق سالک سے کہا کہ آپ یہ بات جنرل یحییٰ تک پہنچادیں اور ان سے کہیں کہ وہ فوراً مشرقی پاکستان کا دورہ کریں۔ صدیق سالک نے یہ بات جنرل صاحب زادہ یعقوب علی خان کو بتائی تو انہوں نے کہاکہ وہ یہ اطلاع پہلے ہی جنرل یحییٰ تک پہنچاچکے ہیں۔ مگر جنرل یحییٰ مشرقی پاکستان کے دورے پر نہ آئے۔ (صفحہ 56,57,58- )
جنرل یحییٰ نہ صرف یہ کہ مشرقی پاکستان کے دورے پر نہ آئے بلکہ 3 مارچ 1971 ء کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا۔ یہ فیصلہ خفیہ تھا۔ مجیب کو اس فیصلے کی اطلاع دی گئی تو اس نے کوئی منفی ردعمل ظاہر نہ کیا البتہ یہ کہا کہ اجلاس کی نئی تاریخ دے دی جائے تو میرے لیے اپنی جماعت کے انتہا پسندوں کو قابو میں رکھنا آسان ہوجائے گا۔ مجیب نے اس موقع پر اپنی رضاکارانہ گرفتاری کی پیشکش بھی کی۔ (صفحہ۔59 ) بہرحال اسمبلی کے اجلاس کے التوا کا اعلان کردیا گیا۔ اس التوا پر تبصرہ کرتے ہوئے صدیق سالک نے لکھا ہے کہ جنرل یحییٰ پر ان کے انتہا پسند ساتھی غالب آگئے۔ (صفحہ 60- )مجیب نے اجلاس کے التوا کے خلاف دھواں دھار پریس کانفرنس کی مگر شام گئے وہ فوجی افسروں سے ملنے آیا اور عاجزی سے کہنے لگا کہ اگر اجلاس کے انعقاد کی تاریخ دے دی جائے تو وہ حالات پر قابو پالے گا۔(صفحہ61- )
جنرل یحییٰ نے نہ صرف یہ کہ اسمبلی کے نئے اجلاس کی تاریخ نہ دی بلکہ جنرل صاحب زادہ یعقوب علی خان کی کوششوں کے باوجود مشرقی پاکستان آنے پر بھی آمادگی نہ ظاہر کی چنانچہ جنرل یعقوب نے استعفیٰ دے دیا۔ مشرقی پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ 7 مارچ 1971 ء کا دن قریب آگیا۔ خیال تھا کہ اس دن مجیب، مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کرے گا مگر 6 مارچ کو جنرل یحییٰ نے مجیب کو تار کے ذریعے مطلع کیا کہ وہ اس کو چھے نکات سے بھی زیادہ دینے پر آمادہ ہیں۔ اس رات شیخ مجیب کے آدمیوں نے اعلیٰ فوجی اہلکاروں سے ملاقات کی اور کہا کہ شیخ مجیب کہہ رہے ہیں کہ مجھ پر انتہا پسندوں کا دبائو بڑھ گیا ہے اس لیے آپ مجھے اپنی تحویل میں لے لیں۔(صفحہ75- ) اعلیٰ فوجی اہلکاروں نے شیخ مجیب سے کہاکہ وہ 7 مارچ کو جلسہ کریں ہم تمہارے انتہا پسندوں سے نمٹ لیں گے۔ شیخ مجیب نے جلسہ کیا اور آزادی کا اعلان نہ کیا بلکہ مشرقی پاکستان سے مارشل لا اٹھانے اور فوج کو بیرکوں میں واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ اعلیٰ فوجی اہلکاروں نے اسے سخت حالات میں بہترین تقریر قرار دیا لیکن صدیق سالک کے بقول کسی نے بھی اس تقریر کو مجیب کی حب الوطنی کی دلیل نہ سمجھا ۔ (صفحہ ۔76 )
حالات مزید بگڑے تو جنرل یحییٰ 15 مارچ کو ڈھاکا پہنچے۔ فوجیوں کے ایک اجلاس میں ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے جنرل یحییٰ سے کہا کہ سر یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اسے سیاسی طور پر حل کریں۔ صدیق سالک کے بقول اس فوجی افسر کو سبکدوش کردیاگیا۔ (صفحہ ۔86 ) جنرل یحییٰ نے ڈھاکا میں شیخ مجیب سے دو ملاقاتیں کیں مگر اب مجیب ایک بدلا ہوا مجیب تھا۔ چنانچہ فریقین بحران کا کوئی حل تلاش نہ کرسکے۔ ذوالفقار علی بھٹو 21 مارچ 1971 ء کو ڈھاکا پہنچے اور مجیب سے ملے مگر تصفیہ کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ اس دوران جنرل یحییٰ نے جنرل ٹکا خان سے کہا کہ ’’وہ حرامی گڑبڑکررہا ہے آپ تیار رہیں۔‘‘ (صفحہ ۔88 )
23 مارچ 1971ء کو ڈھاکا میں ہر طرف بنگلہ دیشی پرچم لہرا رہے تھے۔ پاکستانی پرچم صرف گورنمنٹ ہائوس پر نظر آرہا تھا۔ 24 مارچ کو عوامی لیگ نے ملک کے دونوں حصوں کے لیے دو الگ آئین تیار کرنے کی تجویز دی۔ اس دن بھٹو اور یحییٰ خان کی ملاقات ہوئی۔ جس میں اس امر پر اتفاق رائے پایا گیا کہ عوامی لیگ ملک کی خودمختاری کو پھلانگ چکی ہے۔ جنرل یحییٰ نے 26 مارچ کو قوم سے خطاب کیا مگر انہیں اس خطاب کے سلسلے میں مشرقی پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت نے جو مشورے دیے تھے انہیں جنرل یحییٰ نے یکسر نظرانداز کردیا۔ ان میں سے ایک مشورہ یہ تھا کہ مجیب کو غدار قرار نہ دیا جائے۔ اس کی گرفتاری کو جرم کا نتیجہ قرار نہ دیا جائے بلکہ کہا جائے کہ انہیں حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔ جنرل یحییٰ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ مشرقی پاکستان کی خودمختاری کی حدود کا اعلان کریں۔(صفحہ۔96 )
25 مارچ کو فوجی آپریشن شروع ہوچکا تھا۔ بھٹو کو اس کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے فرمایا۔’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔‘‘(صفحہ ۔107 ) فوجی آپریشن نے بظاہر حالات پر قابو پالیا تو جنرل رائو فرمان نے تجویز دی کہ ہمیں عوامی لیگ کے کارکنوں کے لیے عام معافی کا اعلان کردینا چاہیے تاکہ وہ بھارت کے ہاتھ میں نہ جاسکیں مگر ایک سینئر جرنیل نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ سیاست کا وقت گزر چکا۔ (صفحہ 124-125- ) اس دوران نہ جانے کس کی تجویز پر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی 10 اپریل کو ڈھاکا پہنچے۔ صدیق سالک کے بقول ارباب اقتدار کا خیال یہ تھا کہ بنگال کے ٹائیگرز پر قابو پانے کے لیے پنجاب کا ٹائیگر بھیجنا ضروری ہے۔ (صفحہ 125-) جنرل نیازی نے ڈھاکا پہنچتے ہی چارج لے لیا۔ صدیق سالک نے جنرل نیازی کی شخصیت کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھا۔
’’انہیں وردی‘ رینک اور چھاتی پر تمغے سجانے کا بہت شوق تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ان کی شخصیت زیادہ باوقار لگتی ہے۔(یہ باتیں مجھے بعد میں معلوم ہوئیں جب انہوں نے مجھے تاکید کی کہ اخباری نمائندے کو لانے سے قبل میں دیکھ لیا کروں کہ وہ وردی میں ہیں؟ جنرل خادم راجہ نے بتایا کہ جب وہ فوج کی کمان جنرل نیازی کے سپرد کرچکے تو جنرل نیازی نے پوچھا ’’اپنی داشتائوں کا چارج کب دو گے۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔صفحہ۔125 )
پاکستان کے جس داخلی بحران نے دسمبر 1971ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کی اس کی ابتداء مارچ میں ہوچکی تھی۔ (صفحہ۔131) مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے بعد بھارت نے عوامی لیگ کی درپردہ عملی اور کھلے عام اخلاقی حمایت شروع کردی۔ بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے 27 مارچ 1971 ء کو لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں لوگ سبھا کے اراکین کو یقین دلاتی ہوں جنہوں نے ہمیں مشرقی پاکستان کے سلسلے میں بروقت درست فیصلے کرنے کی تاکید کی ہے کہ بروقت فیصلوں کی واقعی بہت اہمیت ہے۔27 مارچ1971 ء ہی کو بھارت کے ایک اہم ادارے کے سربراہ سبرامنیم سوامی نے صاف کہا کہ بھارت کا مفاد پاکستان کی شکست و ریخت ہے اور ہمیں ایسا موقع پھر نہ ملے گا۔ (صفحہ ۔131 )
صدیق سالک نے لکھا ہے۔
’’فوجی کارروائیوں کے دو ران بعض فوجی لوٹ مار‘ قتل و غارت او رآبرو ریزی کے بھی مرتکب ہوئے۔ ان معدودِ چند اشخاص کی حرکتوں سے پوری فوج کی رسوائی ہوئی۔ آبروریزی کی کل نو وارداتوں کی اطلاع ملی اور نو کے نو مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی گئیں۔ مگر ان سزائوں سے رسوائی کا داغ نہ دھویا جاسکا۔ مجھے ایسے واقعات کی مجموعی تعداد کا اندازہ نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ایک بھی واقعہ ساری فوج کو رسوا کرنے کے لیے کافی تھا۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۔140 )
ڈاکٹر جنید احمد نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب
Creation of Bangladesh Myths Exploded
میں بنگلہ دیش سے متعلق تین اساطیر یا Myths کو توڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔ مثلاً شیخ مجیب اور عوامی لیگ کہتی رہی ہے کہ مشرقی پاکستان میں 30لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا گیا۔ ڈاکٹر جنید کی تحقیق یہ ہے کہ 3 لاکھ افراد قتل ہوئے۔ بھارت کی مؤرخ شرمیلا بوس نے اپنی تصنیف Dead Reckoning (مردہ شماری) میں بھی 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کو افواہ اور افسانہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک جگہ دو بھارتی افسروں کا تخمینہ پیش کیا ہے۔جن کے مطابق مشرقی پاکستان میں 3سے 5 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ۔ (Dead Reckoning- Page-178)دوسری جگہ انہوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر ہلاکتوں کا تخمینہ 50 ہزار سے ایک لاکھ لگایا ہے۔
(Dead Reckoning- By Sarmila Bose- Page-181)
ڈاکٹر جنید احمد نے اپنی کتاب میں جس دوسرے Myth کو تہہ و بالا کیا ہے وہ یہ ہے کہ 1971 ء میں پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ ڈاکٹر جنید کی تحقیق کے مطابق ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کی تعداد صرف45 ہزار تھی۔ سرمیلا بوس نے بھی اپنی کتاب مردہ شماری میں کہا ہے کہ 45 ہزار ریگولر فوجیوں اور 10 ہزار سول مددگاروں نے ہتھیار ڈالے 90 یا 93ہزار نے نہیں۔ (مردہ شماری صفحہ۔174 ) لیکن 1971 ء کی جنگ کے شریک و شاہد صدیق سالک کا کہنا یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بحران سے پہلے صرف 25 ہزار فوجی تھے۔ یہ بحران شروع ہوا تو مزید کمک بھیجی گئی اور ریگولر فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 45 ہزار ہوگئی مگر ان کے بقول مزید 73 ہزار نیم عسکری نفری بھی موجود تھی۔ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ 179 ) اس طرح مشرقی پاکستان میں موجود ریگولر او رنیم فوجی دستوں کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ 18ہزار ہوجاتی ہے۔
شیخ مجیب اور عوامی لیگ نے ایک دعویٰ یہ بھی کر رکھا ہے کہ دو لاکھ بنگالی عورتوں کی آبروریزی کی گئی۔ تاہم ڈاکٹر جنید نے اپنی تحقیقی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ تعداد بھی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہے۔ ان کے مطابق مشرقی پاکستان میں دو لاکھ خواتین نہیں 2680 خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 30 لاکھ کے بجائے تین لاکھ یا ایک لاکھ ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔93 ہزار 90ہزار فوجیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ 45 ہزار یا 55 ہزار نے ہتھیار ڈالے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ صرف جنرل نیازی بھی ہتھیار ڈالتے تو یہ بھی ایک شرمناک بات تھی۔ آبرو ریزی کا قصہ تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ 2680 خواتین کی تعداد بھی کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔ صدیق سالک نے بالکل درست کہا ہے کہ آبرو ریزی کا ایک واقعہ بھی لشکر کو بدنام کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس حوالے سے صورتحال اس لیے بھی افسوسناک ہے کہ 1971 ء کے بحران کے ایک اہم کردار میجر جنرل خادم حسین راجہ نے اپنی کتاب Stranger in my own Country میں کہا ہے کہ جنرل نیازی ڈھاکا آئے تو انہوں نے فرمایا کہ بنگالیوں کی نسل تبدیل کردوں گا، یہ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں؟ جنرل خادم حسین کے بقول یہ سن کر ایک بنگالی افسر باتھ روم میں گیا اور اس نے خود کو گولی مارلی۔
صدیق سالک نے اپنی کتاب میں ’’البدر‘‘اور ’’الشمس‘‘ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کی زبانی ملاحظہ کیجیے۔
’’’’البدر‘‘ اور ’’الشمس‘‘ رضاکاروں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔ وہ ہر وقت پاک فوج کے حکم پر لبیک کہتے۔ انہیں جو کام سونپا جاتا وہ پوری ایمانداری اور بعض اوقات جانی قربانی سے ادا کرتے، اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضاکاروں یا ان کے زیر کفالت افراد نے شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا۔ ان کی بعض قربانیاں روح کو گرمادیتی ہیں۔مثلاً نواب گنج تھانے میں واقع ایک گائوں گالمپور میں شرپسندوں کی سرکوبی کے لیے ایک دستہ بھیجا گیا۔ جس کی رہنمائی کے لیے ایک رضا کار اس کے ساتھ گیا۔ مشن کامیاب رہا اور باغیوں کو ٹھکانے لگادیا گیا لیکن جب وہ واپس اپنے گائوں پہنچا تو پتہ چلا کہ شرپسندوں نے اس کے تین بیٹوں کو شہید او رایک بیٹی کو اغوا کرلیا ہے۔ اسی طرح گالمپور (راجشاہی) میں ایک پل کی حفاظت کے لیے ایک رضارکار تعینات تھا۔ اسے باغیوں نے آدبوچا اور سنگین مار مار کر اسے مجبور کرنے لگے کہ ’’جے بنگلہ‘‘ کا نعرہ لگائو مگر وہ آخر ی دم تک ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کہتا رہا۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ141 )
افسوس کہ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مشرقی پاکستان میں تنہا چھوڑ آیا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش آج تک پاکستان سے وفاداری کی سزا بھگت رہی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کو اس پر احتجاج کی توفیق بھی میسر نہیں۔ لیکن یہ ایک اور ہی قصہ ہے۔
حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ جنرل یحییٰ نے 12 اکتوبر 1971 ء کو قوم سے خطاب کیا اور قوم کو یقین دلایا کہ آپ کی بہادر افواج وطن کی مقدس سرزمین کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔(صفحہ154- ) اس صورتحال میں سالک صاحب نے لکھا۔
’’قوم کو دھوکا دینے والے یحییٰ خان واحد شخص نہ تھے۔ جنرل نیازی اس میدان میں ان سے دو قدم آگے تھے۔ انہوں نے متعدد بار اعلان کیا کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو میدان کارزار بھارت کی سرزمین بنے گی۔ اس جنونی کیفیت میں وہ کبھی کلکتہ اور کبھی آسام پر قبضے کی دھمکی دیتے۔ میں نے رائے کے نقطہ نظر سے ان سے گزارش کی کہ وہ بے پر کی نہ اڑائیں کیونکہ اس سے بے جا توقعات بڑھتی ہیں جنہیں آپ پورا نہیں کرسکیں گے۔ اس پر انہوں نے کسی کتاب سے یہ رٹا رٹایا جملہ دہرایا کہ دھوکہ دہی بھی جنگ جیتنے کا ایک گُر ہے خواہ شیطانی ہی سہی… ادھر صورت یہ تھی کہ جو ان پڑھ سپاہی مغربی پاکستان سے یہ سن کر آئے تھے کہ حق و باطل کی جنگ ہورہی ہے اور کافر کو اس کی حرکت کا مزہ چکھانا ضروری ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کا سامنا تو بنگالی مسلمانوں سے۔ ہندو تو شاذونادر ہی دکھائی دیتاہے۔ وہ حیران تھے کہ یہ کیا حق و باطل کا معرکہ ہے جس میں مسلمان کو مسلمان کا سامنا ہے۔ ان مادی اور نفسیاتی عناصر نے انہیں سوچنے پر مجبور کردیا کہ آیا ان حالات میں جان کی قربانی دینا واقعی عظیم کارنامہ ہے جس کے عوض شہادت کا مرتبہ ملے گا۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ 154-155 )
جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی اگرچہ قوم سے کچھ او رکہہ رہے تھے مگر مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکلتا جارہا تھا۔ بھارت کی پیش قدمی جاری تھی۔ صدیق سالک لکھتے ہیں۔
’’جہاں تک بحری جنگ کا تعلق تھا پاک بحریہ 24 گھنٹوں ہی میں دم توڑ گئی۔ البتہ ساحلوں پر پہرہ دینے والے ’’دفاعی قلعوں‘‘ کا دفاع کرنے اور فوجی جوانوں اور سازو سامان کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جانے میں یہ آخری وقت تک فعال رہی۔ جب بحریہ اور فضائیہ جنگ کے ابتدائی ایام ہی میں اپنا اپنا کردار اد اکرکے میدان جنگ سے غائب ہوگئی تو ساری ذمے داری جنرل نیازی کے زیرکمان 45ہزار ریگولر فوج اور 73 ہزار نیم عسکری نفری پر آپڑی۔ اب جنگ کا فیصلہ دو باتوں پر تھا۔ فوج کی جسمانی بہادری اور اس کے کمانڈر کی اخلاقی جرأت۔ آیئے پہلے جنرل نیازی کی ایک جھلک دیکھتے چلیں… میں 4 دسمبر 1971ء کو دوپہر کے قریب آپریشن روم میں داخل ہوا تو سارے ماحول کو خوشی سے چہکتا ہوا پایا۔ حیران تھا کہ ہم نے چند گھنٹوں میں کون سا تیر مار لیا۔ پتہ چلا کہ امرتسر فتح ہوچکا ہے اور فیروز پور فتح ہونے والا ہے۔ میں نے پوچھا اگریہ خبر درست ہے تو جی ایچ کیو سے آنے والے سگنلز میں اس کا ذکرکیوں نہیں۔ ایک صاحب بولے جب تک ہماری پوزیشن مستحکم نہیں ہوجاتی جی ایچ کیو اس کا دعویٰ نہیں کرنا چاہتا۔ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ میں جنرل نیازی کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی کرسی سے اٹھ کر ڈنٹ پیلنے لگے۔ انہوں نے طعنے کے انداز میں کہا۔ دیکھا تم نے میں نے کہا تھا کہ جنگ چھڑی تو میدان جنگ بھارت کی زمین بنے گی۔ تم مجھے غیر ضروری خوش فہمی پیدا نہ کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے مگر اب دیکھ لو میرا بڑا بھائی (مغربی پاکستان) تو جنگ کو ہندوستان کے علاقے میں لے گیا۔مگر جی ایچ کیو فون کیا گیا تو خبر بے بنیاد نکلی۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ178-179-180)
اس منظر تک پہنچنے کے بعد جو کچھ ہوا اسے بھارت کی مسلسل پیشقدمی اور ہماری مستقل پسپائی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ 7 دسمبر کو جنرل نیازی گورنر ہائوس پہنچے جہاں گورنر مالک نے جنرل نیازی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کی طرح جرنیلوں کو بھی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی فتح سے ان کا چہرہ چمکنے لگتا ہے اور کبھی شکست کے سائے ان کی شہرت کو کجلا دیتے ہیں۔ یہ سنتے ہی جنرل نیازی بلک بلک کر رونے گے۔ 9 دسمبر کو جی ایچ کیو کے نام تار میں اعتراف کیا گیا کہ فضا میں دشمن کی برتری کے باعث ہماری بکھری ہوئی فوج کی صف بندی ممکن نہیں۔ ہماری فضائیہ معطل ہوچکی ہے اور ہمارے سپاہی گزشتہ 20 رات سے سو نہیں سکے ہیں۔ ادھر جنرل یحییٰ کو توقع تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو سفارتی محاذ پر کوئی معرکہ سر کرلیں گے چنانچہ جی ایچ کیو نے ڈھاکا کو مطلع کیا کہ ہمارے زرد دوست یعنی چین اور سفید دوست یعنی امریکی ہماری مدد کو آرہے ہیں۔ جنرل نیازی کو ایک بار پھر امید لاحق ہوگئی مگر یہ امید بھی جلد دم توڑ گئی۔ (صفحہ۔243-247-254 )
14 دسمبر 1971 ء حکومت مشرقی پاکستان کا آخری دن تھا۔ اس روز گورنمنٹ ہائوس کا ملبہ کیا بکھرا خود حکومت کا شیرازہ بکھر گیا۔ 14 دسمبر کو شام پانچ بجے جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی کے نام تار ارسال کیا ۔جنرل یحییٰ نے لکھا۔
’’گورنر کا پیغام مجھے مل گیا ہے۔ آپ نے نہایت کٹھن حالات میں نہایت دلیرانہ جنگ لڑی ہے۔ قوم کو آپ پر فخر ہے۔ دنیا آپ کی تعریف کررہی ہے۔ جہاں تک انسان کے بس میں ہے میں نے مسئلے کا قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب آپ ایسے مرحلے میں ہیں جہاں نہ مزید مزاحمت ممکن ہے نہ مزاحمت سے کوئی سود مند مقصد حاصل ہوسکتا ہے بلکہ اس سے مزید جان و مال کا نقصان ہوگا۔ آپ کو ان حالات میں مسلح افواج‘ مغربی پاکستان کے رہنے والوں اور دوسرے وفادار لوگوں کی سلامتی کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ میں نے اسی اثنا میں اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہندوستان سے مشرقی پاکستان میں جنگ بندی کرنے کو کہے اور اس سے ہماری مسلح افواج کے علاوہ ان تمام لوگوں کے تحفظ کی ضمانت مانگے جو شرپسندوں کی معاندانہ سرگرمیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘‘ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۔254-255)
اس تار کی اہمیت اس اعتبار سے تاریخی ہے کہ جنرل رائو فرمان نے How Pakistan got divded میں لکھا ہے کہ جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا نہیں جنگ بندی کا حکم دیا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہندوستان اور مکتی باہنی پورے مشرقی پاکستان پر قابض ہوچکے تھے تو ہندوستان کو ہتھیار ڈالنے سے کم پر کیسے راضی کیا جاسکتا تھا اور اقوام متحدہ اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرسکتی تھی؟ شاید یہی وجہ ہے کہ صدیق سالک نے جنرل یحییٰ کے تار کے مندرجات کا حوالہ دے کر یہ بات قارئین پر چھوڑ دی ہے کہ وہ اس تار کے مندرجات سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟ یہ کہ جنرل نیازی کو جنگ بندی کا حکم دیا گیا تھا یا ہتھیار ڈالنے کا۔ لیکن یہ المناک داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔
جنرل نیازی نے 14 دسمبر کو امریکی سفیر سے ملاقات کی مگر امریکی سفیر نے صاف کہا کہ میں آپ کی طرف سے بھارتی جنرل مانک شاہ سے جنگ بندی کے لیے مذاکرات نہیں کرسکتا۔ البتہ اس نے کہاکہ میں آپ کا پیغام جنرل مانک شاہ کو پہنچاسکتا ہوں۔ چنانچہ جنرل رائو فرمان نے ایک پیغام لکھا 15 دسمبر 1971 ء کو جنرل مانک شاہ کی جانب سے پیغام کا جواب آگیا۔ اس نے کہا کہ جنگ بندی ممکن ہے مگر آپ کو بہرحال ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔ یہ پیغام جی ایچ کیو بھیج دیا گیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ مانک شاہ کی شرائط پر جنگ بندی قبول کرلی جائے۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۔256-254 )
سوال یہ ہے کہ ان حقائق کی روشنی میں جنرل رائو فرمان کے اس بیان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ جنرل نیازی کو جنرل یحییٰ نے جنگ بندی کا حکم دیا تھا۔ ہتھیار ڈالنے کا نہیں۔ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت طے پایا کہ جنگ بندی کا اعلان 16 دسمبر کو شام 3 بجے کیا جائے گا۔ لیکن اس اعلان سے بہت پہلے 15 دسمبر کی صبح کو کیا ہوا صدیق سالک کے الفاظ میں سنیے۔
’’16 دسمبر کا سورج طلوع ہوا تو دشمن بوگرہ کے شمالی کنارے پر ریلوے کراسنگ تک پہنچ چکا تھا۔ وہاں وہ لائوڈ اسپیکر پر بار بار اعلان کررہاتھاکہ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ جنگ بندی ہوچکی ہے آئو اپنے ہتھیار ڈال دو اور اپنی جان بچائو‘ ناحق خون بہانے کا فائدہ ؟ آئو ہتھیار جمع کرائو اور سلامتی کی گارنٹی لو ‘ وغیرہ… تعجب کی بات یہ کہ ہمارے سپاہی یہ اعلان سن کر اپنی اپنی رائفل دبائے دشمن کی طرف بڑھنے لگے۔ بریگیڈیئر تجمل کو خبر ملی تو وہ ان ’’کالی بھیڑوں‘‘ کے کردار پر بہت برہم ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح ہتھیار ڈالنے کوئی جواز نہیں۔ اتنے میں ایک اسٹاف آفیسر ان کے پاس جنگ بندی کا پیغام لایا جو ایسٹرن کمان کی طرف سے ابھی ابھی موصول ہوا تھا۔ اس پر بریگیڈیئر تجمل نے سپاہیوں کو ان کے حال پر چھوڑا اور خود بوگرہ سے مغرب کی جانب نکل گئے۔ وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ مکتی باہنی کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس نے ان کی خوب خبر لی۔‘‘
(میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ202- )
16 دسمبر 1971 ء کی صبح بھارتی جنرل ایک گولی چلائے بغیر ڈھاکا میں داخل ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈھاکا غلامی میں ڈوب گیا۔(صفحہ۔259)
16 دسمبر کی سہ پہر کو کیا ہوا صدیق سالک کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’سہ پہر کو بریگیڈیئر صدیقی اپنے مدمقابل (یعنی بھارتی ایسٹرن کمانڈ کے چیف آف اسٹاف) میجر جنرل جیکب کو لینے ایئرپورٹ تشریف لے گئے۔ اسی اثنا میں جنرل نیازی اپنے ’’مہمان‘‘ میجر جنرل ناگرا کی تواضع لطیفوں سے کرتے رہے۔ میں ان لطیفوں کو دہرا کر اس المناک کہانی کو غلیظ نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۔259 )
یہاں جو بات صدیق سالک نے نہیں لکھی وہ یہ ہے کہ جنرل نیازی جنرل ناگرا کو گندے لطیفے سنارہے تھے۔ ملک ٹوٹ رہا تھا۔90 یا 45 ہزار ریگولر فوجی ہتھیار ڈال رہے ٹھے او رجنرل نیازی کو فحش لطائف یاد آرہے تھے۔ اللہ اکبر۔
مشرقی پاکستان پہ قبضے کے بعد بھارتی فوجیوں نے لوٹ مار شروع کردی۔ وہ جنگی ہتھیار ہی نہیں‘ خوراک کے ذخائر‘ فرج‘ قالین اور ٹیلی وژن تک لوٹ کر لے گئے۔ (صفحہ۔261 )
20 دسمبر کو صدیق سالک جنرل نیازی اور جنرل راؤ فرمان کے ساتھ جنگی قیدی بن کر کلکتہ روانہ ہوئے تو انہوں نے مشرقی پاکستان پر آخری نظر ڈالی انہوں نے لکھا۔
’’ڈھاکا ایئرپورٹ کو میں نے آخری بار 20 دسمبر کی سہ پہر کو دیکھا۔ اب یہ اس ایئرپورٹ سے بالکل مختلف تھا جس پر میں نے جنوری 1970 ء میں پہلی بار قدم رکھا تھا۔ ایک واضح تبدیلی یہ تھی کہ اب یہاں خاکی وردی کے بجائے سبزوردی نظر آرہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان دو سالوں میں بنگالیوں نے صرف آقا بدلے ہیں۔بنگالی مرد اور لڑکے اب بھی ہوائی اڈے کی بیرونی دیوار پر بیٹھے تھے جنہیں بھارتی سپاہی کتوں کی طرح دھتکار رہے تھے۔ میں جب یہاں پہلی بار پہنچا تھا تو سورج چمک رہا تھا۔ اب ایک ایسی رات پڑنے کو تھی جس کی سحر… کم از کم … مجھے نظر نہیں آرہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈھاکا ڈوب چکا ہے۔ آخری بار!‘‘ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صفحہ۔262 )
اس اقتباس میں ایک المناکی ڈھاکا کے ڈوبنے کی ہے اور دوسری المناکی یہ ہے کہ میجر صدیق سالک کو محسوس ہورہا تھا کہ گزشتہ دو برسوں میں بنگالیوں نے صرف آقا بدلے ہیں۔ دو سال پہلے بنگالیوں کا آقا مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ تھا او راب ان کا آقا بھارت تھا۔ اللہ اکبر۔ مگر یہ دل چیر دینے والی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ صدیق سالک جنرل نیازی کے ساتھ جنگی قیدی بن کر کلکتہ پہنچے تو انہوں نے قید کے دوران جنرل نیازی سے کچھ سوال کیے۔ صدیق سالک کے سوالات او رجنرل نیازی کے جوابات صدیق سالک کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’سوال: کیا آپ نے جنرل یحییٰ یا جنرل حمید کو کبھی صاف صاف بتایا کہ آپ کو جو وسائل دیے گئے ہیں وہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ناکافی ہیں؟‘‘
جواب: کیا وہ سویلین ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے مشرقی پاکستان کو بچانے کے لیے تین انفنٹیری ڈویژن ناکافی ہیں؟
سوال: مگر یہ الزام تو ہمیشہ آپ ہی پر رہے گا کہ آپ مشرقی پاکستان کا دفاع نہ کرسکے۔ اگر کم وسائل کے پیش نظر آپ کے خیال میں دفاعی قلعوں والی اسٹرٹیجی بہترین حکمت عملی تھی تو کیا وجہ ہے کہ آپ نے ڈھاکا میں دفاعی قلعہ نہ بنایا جہاں فوج کی ایک کمپنی بھی نہ تھی؟
جواب: یہ سب راولپنڈی والوں کا قصو رہے۔ انہوں نے مجھے نومبر کے وسط میں آٹھ پلٹنیں بھیجنے کا وعدہ کیا تھا مگر صرف پانچ بھیجیں۔ میں باقی تین کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آئیں تو انہیں ڈھاکا کے لیے استعمال کروں۔
سوال: لیکن 3 دسمبر کو جب آ پ پر واضح ہوگیا اب مزید نفری کا آنا ممکن نہیں تو آپ نے کیوں نہ اپنے وسائل میں سے کچھ جمعیت ڈھاکا کے لیے مخصوص کرلی؟
جواب: دراصل اس وقت حالات ایسے ہوگئے تھے کہ کسی محاذ سے ایک کمپنی کو نکالنا بھی ممکن نہیں رہ گیا تھا۔
سوال: جو تھوڑے بہت وسائل آپ کے پاس ڈھاکا میں موجود تھے آپ ان کو بھی صحیح طور پر استعمال کرلیتے تو جنگ کچھ دن اور جاری رہ سکتی تھی؟
جواب: مگر اس کا کیا فائدہ ہوتا؟ ڈھاکا کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔ گلیوں میں لاشوں کے انبار لگ جاتے۔ نالیاں اٹ جاتیں۔ شہری زندگی مفلوج ہوجاتی۔ لاشوں کے گلنے سڑنے سے طاعون اوردوسری بیماریاں پھوٹ پڑتیں۔ اس کے باوجود انجام وہی ہوتا۔ میں نوے ہزار بیوائوں اور لاکھوں یتیموں کا سامنا کرنے کے بجائے نوے ہزار قیدی واپس لے جانا بہتر سمجھتا ہوں۔
سوال: اگرچہ انجام وہی ہوتا مگر تاریخ مختلف ہوتی۔ اس میں پاکستان کی عسکری تاریخ میں سنہرا باب لکھا جاتا۔ آئندہ دشمن کو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔
جنرل نیازی خاموش رہے۔
ان سوالات و جوابات کے معنی عیاں ہیں۔ صدیق سالک جب جنوری 1970 ء میں ڈھاکا پہنچے تھے تو وہ میجر تھے۔ بعد ازاں وہ ترقی کرکے بریگیڈیئر بن گئے تھے۔ اس عرصے میں انہوں نے کبھی اپنی کتاب میں پیش کیے گئے حقائق پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہ کی۔