پاکستان میں اداروں کے درمیان ٹکراو اور محاذ آرائی آگے بڑھ رہی ہے ۔ اداروں کے درمیان موجود بداعتمادی نے پورے ریاستی نظام کو کمزور کردیا ہے۔ کچھ اہل دانش اداروں کے درمیان ٹکراو کی بحث کو محض آسان انداز میں لیتے ہیں یا اسے حکومت مخالف ایجنڈا سمجھ کر اہمیت نہیں دی جاتی ۔جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کمزور ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کے بگاڑ کی بنیادی وجہ اداروں کی عدم فعالیت اور سیاسی مداخلت سے جڑا ہوا عمل ہے ۔
یہ سب کچھ محض کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوا ،بلکہ ریاستی اور حکمرانوں کے باہمی گٹھ جوڑ اور ایک دوسرے کے ذاتی مفادات کے کھیل کو تقویت دینے کے لیے سب فریقوں نے اداروں کو قومی مفاد سے زیادہ اپنے حق میں استعمال کیا ہے ۔ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ حکمراں بہتر طور پر ریاستی نظام چلارہے ہیں ،،لیکن عملی طور پر ریاستی نظام داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سنگین نوعیت پر مبنی مسائل کی نشاندہی کررہا ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کا ادراک ہمارے ریاستی اور حکومت اور اداروں کو نہیں ہے کہ ان کے سامنے صرف طاقت کی لڑائی ہے او راس لڑائی میں نتائج کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ اداروںکے درمیان ٹکراو کی کہانی نئی نہیں ۔ جب بھی اس ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوا یا سیاسی نظام کی بساط کو لپیٹا گیا تو اس کے پیچھے سیاسی اور ریاستی ادراوں کے درمیان ٹکراو تھا او راس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری تسلسل بھی جاری نہیں رہ سکا ۔
حال میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور میں پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام ہونے والے سیمینار میں جو خطاب کیا ہے وہ یقینی طور پر سیاسی ، قانونی اور حکومتی اداروں کے درمیان بداعتمادی کے منظر کو نمایاں کررہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے بالخصوص پانامہ کے مقدمے سے لے کر اس کے حتمی فیصلے کے بعد حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے نظر آتے ہیں ۔ خاص طور پر حکومت، وفاقی وزرا، بعض سیاست دانوں، میڈیا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف جن کو عدالتی فیصلہ کے تحت نااہلی کا سامنا کرنا پڑا وہ کھل کر عدالت ، ججوں اور ان کے فیصلوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔یقینی طور پر عدالتی فیصلوں پر تنقید ہوسکتی ہے ،لیکن اس تنقید کا دائرہ کار بھی ہوتا ہے ۔مگر یہاں تمام حدودو قیود کو عبور کرکے براہ راست عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔نواز شریف کا بنیادی بیانیہ یہ ہے کہ جو کچھ اس ملک میں عدالتی محاذ پر ہورہا ہے وہ عدلیہ یا ججوں کے فیصلے نہیں بلکہ ان کو اسٹیبلیشمنٹ کے دبائو کے تحت مسلط کیا جارہا ہے اور عدلیہ کی حیثیت ایک ہتھیار کی ہے جسے کسی کی مخالفت میں استعمال کیا جارہا ہے ۔یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کے تحت نواز شریف کی ساری مہم اپنی حمایت میں چل رہی ہے اور اسی بیانیہ کو بنیاد بنا کر عدلیہ کے خلاف ایک بڑا محاذ تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ ملک و قوم کے لیے اس کھیل کے نتائج کیا نکلیں گے ، ان کے نزدیک اپنے ذاتی مفادات زیادہ اہم ہیں ۔
اس پس منظر میں جو کچھ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے گفتگو کی ہے وہ ایک خطرناک امر کی نشاندہی کرتی ہے جو توجہ طلب ہے ۔ اول ان کے بقول یہ ایک سنگین نوعیت پر مبنی الزام ہے کہ عدلیہ یا عدالتی فیصلے کسی ’’گیم پلان‘‘ یا کسی دبائو کے تحت دیے جارہے ہیں ۔ دوئم یہ تاثر دینا کہ عدلیہ میں کوئی تقسیم ہے عدلیہ کو خراب کرنے کی کوشش ہے ۔ سوئم ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھائی ہے اور مخالف فیصلہ آنے پر عدلیہ کو گالیاں نہ دی جائیں ۔ چہارم ملک میں انصاف میں تاخیر کا بڑا سبب ملک میں عدلیہ اور ججوں پر بڑھتی ہوئی تنقید ہے جو عدالتی عمل کو متاثر کررہی ہے ۔پنجم اگر مقنہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرے گی تو ہمیں آگے آنا ہوگا کیونکہ کسی بھی نظام میں خلازیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ششم اگر واقعی ہم کسی گیم پلان کا حصہ ہوتے تو حکومت کے حق میں حدیبیہ کا فیصلہ سامنے نہیں آتا اور بلاوجہ اداروں پر تنقید سے اداروں میں باہمی ٹکرائو کا تاثر ابھارا جارہا ہے ، جو خطرناک رجحان ہے ۔چیف جسٹس کی تقریر کوئی اچھی روایت نہیں کیونکہ ججوں کو تقریر سے زیادہ اپنے فیصلوں پر توجہ دینی چاہیے ۔لیکن جب چاروں اطراف ردعمل کی سیاست غالب ہو تو عدلیہ بھی اس کا شکار ہوسکتی ہے اور حالیہ عدلیہ کے ردعمل کو ان پر بڑھتی ہوئی تنقید کے زٖمرے میں دیکھا جانا چاہیے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری عدلیہ کا اپنا ریکارڈ بھی کوئی شاندار نہیں ہے اور ماضی میں بھی اس نے کئی طرح کے سمجھوتے کیے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عدلیہ کو کیسے آزادانہ بنیادوں پر آگے کی طرف بڑھنا چاہتی ہے تو ہم اس کی راہ میں رکاوٹ کیونکر پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ واقعی المیہ ہے جس کی نشاندہی چیف جسٹس نے کی ہے کہ اس ملک میں جس کی حمایت میں فیصلہ ہو وہ عدلیہ کی آزادی اور جس کی مخالفت میں فیصلہ ہو وہ عدلیہ کو گالیاں دیتا ہے۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چیف جسٹس کے بیان اور عمران خان کی نااہلی کے مقدمہ کے فیصلے کے بعد ایک بار پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف عدلیہ پر برس پڑے۔ان کے بقول ججوں اور بنچ نے میرے خلاف عمران خان کا مقدمہ لڑا اور اس دو عملی پر مبنی معیار کے خلاف و ہ عدلیہ یا عدالتی فیصلہ کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے ۔یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ گذشتہ ایک برس سے حکومت اور بالخصوص نواز شریف ، مریم نواز سمیت ان کے قریبی ساتھی کا براہ راست نشانہ عدلیہ اور کچھ جج ہیں ۔ ان محض عدالتی فیصلوں پر تنقید ہی نہیں ہورہی بلکہ ججوں کی ذاتیات کو موضوع بحث اور متنازعہ بنا کر صورتحال کو اور زیادہ پے چیدہ بنایا جارہا ہے ۔ پر نواز شریف کا طرز عمل عدلیہ کو ٹکراو کی جانب دھکیل رہا ہے۔
مسئلہ یہاں محض عدلیہ کا نہیں ،بلکہ فوج کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ کیونکہ نواز شریف کا بیانیہ یہ بھی ہے کہ ججوں کے پیچھے اصل کھیل اسٹیبلیشمنٹ کا ہے جو ہر صورت میں ان کو دیوار سے لگانا چاہتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بیانات میں جو حکومتی اور وزرا کی سطح پر تلخی ہے اس میں فوج بھی نشانے پر ہے ۔حکومتی سطح پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ فوج اور عدلیہ کا باہمی گٹھ جوڑ ہے اور اس کے آلہ کار کے طور پر عمران خان ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ حکومت کی مشکل یہ ہے کہ وہ اگر نہیں بھی چاہتی کہ ریاستی سطح پر اداروں کے ساتھ ٹکراو کا تاثر نہ بڑھنے دیا جائے ، مگر مسئلہ نواز شریف ، مریم نواز اور سخت گیر مزاج کے ان حکومتی لوگوں کا ہے جو ہر صورت میں مفاہمت کی بجائے مزاحمت یا ٹکراو کی پالیسی کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی حکمران جماعت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بیانات اور طرز عمل سے حکومت اور جماعت دونوں کو بند گلی سے باہر نکالیں ، جو حکومت، جماعت اور خود نواز شریف کے بھی مفاد میں نہیں ۔ان کے بقول بطور حکمران جماعت ہمیں بھی بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکلنا ہوگااور ہمیں جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینا ہوگا ۔کیونکہ ہمارے بیانات محاز آرائی اور تصادم کی کیفیت پیدا کررہے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کے بعض ساتھیوں کا خیال ہے کہ اس وقت مفاہمت کی سیاست کا مقصد نواز شریف کی سیاست پر سمجھوتہ کرنا ہے کو ان کو فوری طور قابل قبول نہیں ۔ اس کیفیت نے پارٹی کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ۔
بدقسمتی سے اس وقت مختلف اداروں میں ٹکراو کی جو پالیسی ہے وہ ملک کے مفاد میں نہیں ۔ کیونکہ اس وقت ملک اور ریاست اہم ہونی چاہیے ،کیونکہ اگر ریاست او رملک کا نظام کمزور ہوگا اور ہم استحکام کے مقابلے میں عدم استحکام کی سیاست کو طاقت فراہم کریں گے تو یہ ملک اور اس کا استحکام بہت پیچھے چلا جائے گا ،اس کے لیے کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ ساری سیاسی جماعتوں کو متفق ہونا ہوگا کہ ہمیں عدم استحکام پیدا کرنے کی بجائے استحکام کی سیاست کے ایجنڈے کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا چاہیے اور اسی پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔