ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے حکم پر نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ایک بار پھر مشتعل نظر آتے ہیں۔ لندن سے وطن واپسی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کے اشتعال کا اظہار بھی ہے۔ ان کے مستقبل کے ارادوں کا پتہ بھی دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملکی حالات کے بارے میں بہت سے وسوسوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔ ان کے بیان کا ردعمل بھی اس انداز کا آرہا ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ ادارے آستینیں سونت کر ایک دوسرے کے مدمقابل آرہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا اتفاقاً ہورہا ہے۔ جذباتی اور اشتعال کا ردعمل ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا اسکرپٹ کے مطابق کھیل ہے یا از خود معاملات ایک تباہ کن انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مقتدر اور سوچنے سمجھنے والے حلقوں کو اس سوالات کے جوابات تلاش کرنا ہوں گے۔ اگر اب بھی ان کے جوابات تلاش کرکے معاملات کو بگڑنے سے نہ بچایاگیا جو پھر وقت گزرنے کے بعد ہم محض کف افسوس میں مل سکیں گے۔
سابق وزیراعظم کا اشتعال فطری ہے کہ وہ خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں اور اس کے صلے میں اسٹبلشمنٹ کو مضبوط کرتے رہے ہیں اور اس بدمست ہاتھی کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں لیکن ہیتھرو ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا وہ پہلی بار کہا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر دھمکی دی ہے وہ عدلیہ کے دوہرے معیار کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بنچ (سریم کورٹ کے بنچ) نے میرے خلاف عمران خان کا کیس لڑا۔ نیازی سروسز کے بارے میں عمران خان کے اعتراف اور ویڈیو کے باوجود بنچ نے ان کی صفائی پیش کی۔ جو فیصلہ آیا وہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے۔ جو نظریہ ضرورت 50 سال پہلے شروع ہوا تھا اب اس کا انجام ہونے والا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مارشل لائوں کو تسلیم کریں اور آمروں کو کہیں کہ آئین اس کی (آئین کی) ایسی تیسی پھیریں۔ جو چاہیں آپ اس میں ترمیم کریں جو اختیار ججوں کے پاس نہیں وہ ڈکٹیٹر کو کیسے دے سکتے ہیں۔ ہمارے لیے انصاف کے تقاضے اور ان کے لیے کچھ اور۔ایسا اب نہیں چلے گا۔ ہم دہرے معیار کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے۔انصاف کے دو ترازو نہیں چلیں گے۔ لاکھوں پونڈز کے کاروبار کو یہ اثاثہ نہیں کہہ رہے لیکن میری خیالی تنخواہ کو اثاثہ مان لیا۔ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے مقدموں میں مجھے نااہل کیا جائے گا۔
عدالتوں کے فیصلے کبھی سب کو قبول نہیں ہوتے۔ عدالت کو ریکارڈ‘ شواہد اور ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے دینا ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس سے کون ناراض ہوتا ہے اور کس کو خوشی ہوتی ہے۔ وہ معمول کے ردعمل کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ فریقین اپنی نجی گفتگو پر تنقید کرتے ہیں اور بعض اوقات کوئی فریق یا اس کے وکیل عدالت سے باہر یا میڈیا پر آکر فیصلوں کے خلاف تنقید بھی کرتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فریق یا اس کا وکیل کمرۂ عدالت میں بھی اپنا ردعمل ظاہر کردے۔ لیکن عمومی طور پر عدالتیں ان معاملات سے صرف نظر کرتی ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ جس فریق کے خلاف فیصلہ آیا ہے اس کا غصے اور اشتعال فطری ہے اگر وہ اس کا اظہار کرتا ہے تو اسے نظرانداز کردینا چاہیے دوسری جانب بعض زیادہ حساس ججوں کا خیال ہے کہ بعض اوقات فیصلے میں عدالت کی کسی منشاء کے بغیر کسی حقدار کو کوئی تکلیف یا نقصان پہنچ جاتا ہے اس پر ردعمل اس فریق کا حق ہے اگرچہ فیصلے میں کوئی بدنیتی شامل نہیں ہوتی۔ افراد کے مقابلے میں سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کے پاس چونکہ بہتر مواقع موجود ہوتے ہیں ان کے پاس اظہار کے پلیٹ فارم بھی ہوتے ہیں اور ان میں جرأت اظہار بھی ہوتا ہے اس لیے سیاسی کارکن اور لیڈڑ کسی خوف کے بغیر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
جسٹس منیر او ران کے بعض فیصلوں پر اس ملک کے سیاسی رہنما اور دانشور 50کی دہائی سے اب تک تنقید کرتے چلے آرہے ہیں۔ عدلیہ کے نظریۂ ضرورت پر سب نے تنقید کی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے اس وقت بھی قبول نہیں کیا تھا اور وہ آج بھی اس پر تنقید کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو اس فیصلے کو عدلیہ کا فیصلہ نہیں بلکہ فوجی آمر ضیاء الحق کا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ بھٹو دور حکومت میںعوامی نیشنل پارٹی (نیپ) پر پابندی کی عدالتوں نے توثیق کی۔ نیپ کے لیے یہ کوئی پسندیدہ فیصلہ نہیں تھا۔ ان کے اس فیصلہ پر تحفظات بھی تھے۔ جس کا تھوڑا بہت اظہار بھی ہوا لیکن خان عبدالولی خان اور ان کی جماعت نے فیصلے کو بڑی حد تک قبول کیا۔ چاہے مجبوراً ہی ۔ مگر اس پر زیادہ واویلا نہیں کیا۔ پی سی اوز کے تحت ججوں کے حلف۔ مارشل لا اقدامات کو قانونی و آئینی تحفظ‘ پرویز مشرف کو کسی استدعا کے بغیر تین سال تک حکومت کا اختیار دینا‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بنیادی استدعا کے بجائے توہین عدالت میں نااہلی جیسے فیصلے تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ کچھ نے بداحتیاطی بھی کی ہوگی لیکن عمومی طور پر اختلاف اور تنقید کے باوجود احتیاط برتی جاتی رہی ہے کہ جس قانون کی حکمرانی کی بات کی جاتی ہے اس کی قوت حاکمہ کی تذلیل سے قانون کی حکمرانی نہیں آسکتی۔ اس لیے دور تک دیکھنے والے سیاستدان نقصان برداشت کرلیتے ہیں۔ غصے پی جاتے تھے مگر عدلیہ کو زیر تنقید لاکر بری مثال بننا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے ماضی میں سیاستدانوں کی عدلیہ پر تنقید تو ہے۔ وہ نظام عدل کی بہتری کے لیے تجاویز بھی دیتے ہیں لیکن عدلیہ کے خلاف ماضی میں بلکہ انگریزی برطانوی راج کی عدلیہ کے خلاف بھی کسی نے تحریک کی بات نہیں کی۔ یہ تحریک کتنی کامیاب ہوتی ہی اور کتنی ناکام یہ الگ بحث ہے۔ اس سے بھی زیادہ سے زیادہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور آمد پر جتنے لوگ تھے زیادہ سے زیادہ اتنے لوگ شامل ہوسکتے ہیں لیکن یہ لوگ تو ان کی نااہلی کو ختم کراسکے نہ اقتدار میں واپسی کا راستہ نکال سکے۔ جبکہ عمران خان کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف عدلیہ کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر لائے تو وہ بھی عوام کو نکالیں گے گویا تصادم کی ایک صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ جو نہ جمہوریت کے لیے اچھا ہے نہ ملک و قوم کے لیے۔ نواز شریف نے منگل کے روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد بھی تحریک چلانے کی بات کی ہے۔ ہیتھرو ایئرپورٹ اور احتساب عدالت کے باہر انہوں نے عدلیہ کے دوہرے معیار کی بات کی ہے۔ وہ تین بار وزیراعظم اور دو بار سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ رہے تب تو انہوں نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔ عدلیہ کا اگر دوہرا معیار ہے تو یہ اس وقت بھی کچھ نہ کچھ ہوگا۔ لیکن جب وہ ذاتی طو رپر متاثر ہوئے تو انہیں دوہرا معیار نظر آنے لگا۔ یہ ایک قومی لیڈر کی سوچ نہیں بلکہ ذاتی مفاد کے اسیر ایک عام سے شہری کی اپروچ ہوسکتی ہے۔ ان کا یہ الزام بڑا سنگین ہے کہ بنچ نے میرے خلاف عمران کا کیس لڑا۔ لیکن اس کے کوئی ثبوت انہوں نے نہیں دیا۔ اس ضمن میں اور ایک قدم آگے بڑھتے ہیں کہ بنچ نے عمران خان کی صفائی پیش کی ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو کوئی شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ حدیبیہ کیس میں بنچ نے شریف خاندان کی صفائی پیش کی ہے۔ نواز شریف نے یہ موقف بھی اپنایا ہے کہ جو اختیار ججوں کے پاس نہیں وہ ڈکٹیٹر کو کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر عدلیہ نے ایسا کوئی اختیار جنرل ضیاء الحق کو دیا تھا تو آپ نے نہ صرف اس کا فائدہ اٹھایا بلکہ بعد میں بھی کچھ اس پر شرمساری کا اظہار نہیں کیا۔ جونیجو حکومت کی برطرفی پر عدالت نے جو گول مول سا فیصلہ دیا تھا آپ اس پر نہیں بولے تھے۔
دوسری جانب لاہور میں پاکستان بار کونسل کے سیمینار اور جوڈیشل اکیڈمی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بھی دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ ہم پر دبائو ڈالنے والا پیدا نہیں ہوا۔ ہم کسی منصوبے یا پلان کا حصہ نہیں۔ پلان کا حصہ ہوتے تو حدیبیہ کا یہ فیصلہ نہ آتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدلیہ قوم کا بابا ہے۔ خلاف فیصلے آنے پر گالیاں نہ دیں۔ گویا عدلیہ کے سربراہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی تنقید اور زبان کو گالیاں قرار دے رہے ہیں جو تشویشناک بات ہے کہ تنقید میں زبان کی احتیاط ضروری کی جائے۔ عدلیہ کے سربراہ نے تنقید سے نہیں روکا لیکن گالیوں کی زبان پر خفگی اور افسوس کا اظہار کیا ہے جو ہر طرح قابل غور ہے۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ اب مشاہد اللہ خان بھی آستینیں سونت کر عدلیہ کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔ وہ زیادہ بے احتیاط آدمی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق جیسے سنجیدہ اور سینئر رہنما اب تک احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ کاش نواز شریف بھی ایسا کرلیں ورنہ ایک طرف ان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی شدید ہوجائے گی دوسری جانب عمران خان خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئیں گے۔ اور تیسری جانب ان توہین آمیز ریمارکس اور بیانات کا عدلیہ بھی نوٹس لے سکتی ہے۔ یہ ایک چومکھی لڑائی ہے۔ جس کے نہ اصول واضح ہیں اور نہ نتائج نواز شریف اس لڑائی سے بچیں۔ یہ انہیں بھی نقصان پہنچائے گی اور ملک وقوم کو بھی۔