عبدالقادر ملّا شہیدؒ کی یاد میں

پہلے یوم پاکستان 14 اگست1948ء کو مشرقی پاکستان کے ضلع فریدپور کے ایک گائوں امیر آباد کے ایک متوسط درجے کے معزز گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس عظیم بچے کی پیدایش پر بڑی خوشی منائی گئی۔ بچے کا نام عبدالقادر رکھا گیا۔ ملّا ان کا فیملی نام تھا۔ عبدالقادر ملّا نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی۔ وہ بچپن ہی سے نہایت سنجیدہ اور محنتی تھے۔ بچوں کی سی شرارتیں ان کے اندر بہت کم دیکھی گئیں۔ ان کے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ زندگی بھر اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے۔ ان کے بچپن کے ساتھیوں نے ان کی سنجیدگی و متانت کی وجہ سے ہمیشہ ان کی عزت کی خواہ ان کے ساتھ اختلافات بھی رکھتے ہوں۔ راجندرہ کالج فرید پور سے عبدالقادر ملّا نے سائنس کے مضامین میں 1968ء میں بیچلر ڈگری حاصل کی۔ اسی کالج میں تعلیم کے دوران وہ1966ء میں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) میں شامل ہوئے۔ مقامی جمعیت کے ناظم بھی رہے اور کالج کی مختلف سوسائٹیوں میں بھی کئی مناصب پر ان کو کامیابی حاصل ہوئی۔
جمعیت کا رہنما
بی ایس سی کرنے کے بعد 1968ء ہی میں عبدالقادر ملّا نے ڈھاکا یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔ یہاں بھی وہ جمعیت کے اہم رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے۔ جناب مطیع الرحمان نظامی اور عبدالمالک شہید کے ساتھ انھوں نے اس عرصے میں جمعیت کے پلیٹ فارم سے اسلام کے لیے شاندار جدوجہد کی تاریخ رقم کی۔ اسی زمانے میں ان سے غائبانہ تعارف ہوا۔ ان کے ناظم عبدالمالک شہید میرے ساتھ دو مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی مجلس شوریٰ میں کُل پاکستان بنیاد پر رکن منتخب ہوئے۔
عبدالمالک شہید
عبدالمالک کو اگست 1969ء میں ڈھاکا یونیورسٹی میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ نے نہایت سفاکی کے ساتھ شہید کردیا تھا۔ عبدالمالک کی شہادت سے اسلامی جمعیت طلبہ کا ہر کارکن ملک کے دونوں حصوں میں ازحد آزردہ اور غم زدہ تھا۔ خود سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان کی شہادت پر شدید الم و کرب کے انداز میں تعزیتی بیان جاری کیا تھا جس میں فرمایا تھا کہ عبدالمالک کی شہادت (راہِ حق میں) پہلی تو ہوسکتی ہے، آخری نہیں۔ عبدالمالک کی شہادت پر مارشل لا کے دور میں بھی مشرقی و مغربی پاکستان میں طلبہ نے بھرپور احتجاج کیا۔ لاہور میں ہم نے دو پروگرام کیے، ایک ناصر باغ میں بہت بڑا تعزیتی جلسہ اور غائبانہ نمازِ جنازہ تھی اور دوسرا سعید منزل کی چھت پر تعزیتی ریفرنس۔ میری دونوں پروگراموں کی تقاریر پر میرے خلاف مارشل لا کے تحت مقدمات قائم ہوئے اور مجھے جیل بھیج دیا گیا۔ میری رہائی کے لیے مشرقی پاکستان میں جمعیت نے بڑے مظاہرے کیے۔ مجھے بعد میں مشرقی پاکستان سے آنے والے ہر ساتھی نے بتایا کہ ہر جگہ یہ نعرہ لگتا تھا ’’ادریس بھائی، مکتی چائی‘‘ یعنی ادریس بھائی کو رہا کرو۔‘‘
عملی زندگی
عبدالقادر ملّا نے اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ملازمت شروع کی مگر ساتھ ہی جماعت کی رکنیت بھی اختیار کرلی۔ ان کا تقرر بطور سینئر ٹیچر بی ایس نور محمد پبلک کالج میں ہوا جہاں انھوں نے چند سال فرائض سرانجام دیے۔ بعد میں وہ اس ادارے کے پرنسپل بھی رہے۔ عبدالقادر ملّا کو صحافت سے دلچسپی تھی اور ان کی ڈگری انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے میں تھی۔ ان کو دو مرتبہ رپورٹرز یونین کا ممبر بھی منتخب کیا گیا۔
قیمتی ہیرا
عبدالقادر مُلّا 13دسمبر 2013ئکو تختۂ دار پر کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے زندۂ جاوید ہوگئے۔ وہ ہمیشہ یاد آتے ہیں، مگر آج ان کی یاد کچھ زیادہ ہی شدت سے دل و دماغ میں موج زن ہے۔ عبدالقادر مُلّا جب 2002ء میں پاکستان تشریف لائے تو اُن سے خاصی طویل اور مفید ملاقاتیں رہیں۔ وہ اُس وقت ڈھاکا جماعت کے امیر تھے اور راقم الحروف امیر جماعت اسلامی پنجاب کے طور پر خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ دورِ طالب علمی اور میری گرفتاری ورہائی کا بھی انھوں نے بالخصوص تذکرہ کیا۔ پھر دونوں ملکوں کے حالات اور سانحۂ سقوطِ ڈھاکا پر انتہائی اہم معلومات سے مجلس کو مطلع فرمایا۔
عبدالقادر مُلّا جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ وہ ڈھاکا کے امیر، مرکزی شوریٰ کے رکن اور پھر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بنگلہ زبان میں جماعت اسلامی کے معروف روزنامے ’’سنگرام‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ان پر 18دسمبر 2011ء کو1971ء کے واقعات کی بنیاد پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے کہ انھوں نے بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے دوران ڈھاکا کے علاقے میرپور میں 344 آدمیوں کو قتل کیا۔ اس کے علاوہ یہ جھوٹے الزامات بھی لگائے گئے کہ انھوں نے آتش زنی اور عصمت دری کا ارتکاب کیا ہے۔ واضح رہے کہ وہ اُس زمانے میں ڈھاکا میں موجود ہی نہ تھے۔ شہید کی شخصیت اور ان کے کیس کے بارے میں ہم نے اپنی کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد پنجم میںتفصیلاً تذکرہ کیا ہے۔
لغو الزامات
جو لوگ عبدالقادر مُلّا کو جانتے ہیں وہ خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر بغیر کسی خوف کے یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات لغو، بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ عبدالقادر مُلّا نہایت رحم دل، نیک نفس، پاکباز اور خوفِ خدا سے مالامال مخلص مسلمان تھے۔ ان کو نام نہاد ٹریبونل نے عمرقید کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف بنگلہ دیش حکومت نے اپیل کی تو سپریم کورٹ نے ان کی عمرقید کو سزائے موت میں بدل دیا۔ پھر ان کی نظرثانی کی درخواست سنجیدگی سے سماعت کے بغیر ہی مسترد کردی گئی۔ 12 اور 13دسمبر 2013ء کی درمیانی رات کو مقامی وقت کے مطابق سوا نو بجے انھیں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
عبدالقادر مُلّا کے اس عدالتی اور ظالمانہ قتل کے بعد ان کی میت کو سرکاری حراست میں ان کے گاؤں لے جاکر فجر کی اذانوں سے پہلے ہی دفن کردیا گیا۔ نہ تو ان کے اہلِ خاندان پوری طرح ان کے جنازے میں شریک ہوسکے، نہ ان کے لاکھوں عقیدت مندوں کو ان کا جنازہ پڑھنے کا موقع دیا گیا۔ عبدالقادر مُلّا نے آخری وقت میں اپنے اہل وعیال سے ملاقات کے دوران اپنے بیٹے حسن جمیل کو وصیت فرمائی کہ نہ تو وہ ان کی شہادت پر آنسو بہائیں اور نہ ہی ظالم حکمرانوں سے رحم کی اپیل کریں۔ شہید کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ شہید نے اپنی بیوی کے نام خط میں بہت ایمان افروز نصیحتیں تحریر کی ہیں:
وصیت
شہیدِ وطن عبدالقادر مُلّا کے اہلِ خانہ جب آخری دفعہ جیل میں ان سے ملے تو انھوں نے ان کو وصیت کی:
’’میری شہادت کے بعد تحریک اسلامی کے سارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان صبر و استقامت کے ساتھ میرے خون کو اقامتِ دین کے کام پر لگائیں۔ کسی طرح کے بگاڑ یا فساد میں ہمارے وسائل ضائع نہیں ہونے چاہئیں۔ جن لوگوں نے میرے لیے احتجاج کرتے ہوئے جان دی ہے ان لوگوں کی قبولیتِ شہادت کے لیے اللہ سے دعا کرتا اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ اللہ سب کو آخرت میں کامیاب کرے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مکمل غیر قانونی انداز میں یہ حکومت مجھے قتل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ میں مظلوم ہوں، میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے تحریک اسلامی کی قیادت کی۔ صرف اس وجہ سے مجھے حکومت قتل کررہی ہے۔ میں اللہ، اس کے رسولؐ اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ موت شہادت کی موت ہے اور شہیدوں کی جگہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اللہ اگر مجھے شہادت کی موت دے دے تو یہ میری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہوگا جسے میں اپنے لیے افتخار سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ حکومت 14 دسمبر کو مجھے قتل کرنا چاہ رہی تھی لیکن اللہ نے میری موت کا فیصلہ اُس وقت نہیں کیا تھا، جب اللہ کا فیصلہ ہوگا تب ہی موت آئے گی۔ شہادت کی موت سے بڑھ کر بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے! ہمیشہ میں اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں اور آج بھی کررہا ہوں کہ وہ مجھے سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائے۔‘‘
شہید کا مقدس خون
’’میری درخواست ہے کہ میری شہادت کے بعد تحریک اسلامی کے کارکن استقامت کا ثبوت دیں۔ ان کو کوئی غیرقانونی طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ شہادت کے خونیں راستے کے ذریعے سے فتح ضرور آنے والی ہے۔ اللہ جس کی مدد کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ عبدالقادر مُلّا کو قتل کرکے ظالم حکمران اسلام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ میری شہادت کے ہر قطرۂ خون سے تحریک اسلامی اور بھی آگے بڑھے گی اور یہ ظالم حکومت کی تباہی کا باعث ہوگی۔ اپنی اہلیہ کے لیے میرا پیغام ہے کہ میں خاندان کا ذمہ دار اور کفیل تھا، میرے بعد میرا اللہ خود اس کا ذمہ دار اور محافظ ہے۔ تمھارا کام صرف دیکھ بھال کرنا ہے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اس ذمہ داری کے بعد اللہ تمھیں میرے پاس لے آئے۔‘‘
جناب عبدالقادر مُلّا نے کہا کہ ’’میں نے احتجاجی تحریک کے دوران دیکھا کہ حسینہ واجد کی ظالم حکومت کی طرف سے دس سال کے معصوم بچوں کو بھی قتل کیا گیا ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے خون سے پورا ملک خون آلود ہے۔ اس کا پورا بدلہ اللہ ضرور دے گا۔ میں جس مشکل صورتِ حال سے دوچار ہوں، اس میں سارے مسلمانوں سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ میری یہ تمنا ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ میری زندگی کے بدلے میں تحریک اسلامی اور ملک کی آزادی کوقائم ودائم رکھے‘‘۔
اپنے آخری خط میں جو تختۂ دار کی طرف جانے سے کچھ لمحات پہلے لکھا، وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم وبہ نستعین
قیدی نمبر379، سکنہ: کال کوٹھڑی، سنٹرل جیل ڈھاکا:
مجھے نئے کپڑے فراہم کردیے گئے ہیں۔ نہانے کا پانی بالٹی میں موجود ہے۔ سپاہی کا آرڈر ہے کہ جلد از جلد غسل کرلوں۔ کال کوٹھڑی میں بہت زیادہ آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ہر سپاہی جھانک جھانک کر جارہا ہے۔ کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے۔ ان کا بار بار آنا جانا میری تلاوت میں خلل ڈال رہا ہے۔ میرے سامنے سیّد مودودیؒ کی تفہیم القرآن موجود ہے، ترجمہ میرے سامنے ہے: ’’غم نہ کرو، افسردہ نہ ہو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘۔ سبحان اللہ! کتنا اطمینان ہے ان کلمات میں… میری پوری زندگی کا حاصل مجھے ان آیات میں مل گیا ہے… زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں، یہ رب کے سوا کوئی نہیں جانتا… مجھے اگر فکر ہے تو اپنی تحریک اور کارکنان کی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے۔ آمین
اللہ پاکستان کے مسلمانوں اور میرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر آسانی فرمائے۔ دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنادے۔ (آمین)۔ عشا کی نماز کی تیاری کرنی ہے، پھر شاید وقت ملے نہ ملے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم سب نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس پر ڈٹے رہیں… میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ راستہ سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے۔
آپ کا مسلمان بھائی
عبدالقادر مُلّا‘‘۔
فتح و شکست کا معیار
عبدالقادر مُلّا کی اہلیہ بھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی رکن ہیں۔ انھوں نے اپنے خاوند سے آخری ملاقات کے وقت جن جذبات کا اظہار کیا ان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پورا خاندان تحریکِ اسلامی کو اچھی طرح سمجھ کر قافلۂ حق میں شامل ہوا ہے۔ وہ فرماتی ہیں:
’’مجھے فخر ہے کہ میں کسی بزدل کی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے بہادر رکن کی بیوی ہوں اور اس جماعتی تعلق کی وجہ ہی سے ان سے شادی کی تھی۔ امید کرتی ہوں کہ وہ آخری وقت تک عہدِ رکنیت نبھائیں گے۔ ان کی شہادت کی صورت میں جماعت اسلامی کے کارکنان احتجاج میں اپنی جانیں دینے کے بجائے اپنی صلاحیتیں اس ملک میں اسلامی نظام لانے کے لیے وقف کریں۔ قافلۂ حق کے ساتھیو! اگر ہم شہید ہوجائیں تو بھی ہم کامیاب ہیں، اگر زندہ رہیں تو بھی جیت ہماری ہے۔ دونوں صورتوں میں ہم ہی فاتح ہیں۔‘‘
سچی بات یہ ہے:’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘۔
ظالم بزدل ہوتا ہے
عبدالقادر مُلّا کی شہادت پر حکمرانوں نے جس انداز میں ان کو دفن کیا ہے اس سے ان کی اسلام دشمنی، بزدلی اور ظالمانہ ذہنیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ عبدالقادر مُلّا شہید ہر لحاظ سے عظیم تھے۔ انھوںنے جس جرأت کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما اس نے عبدالقادر عودہ شہیدؒ (1954ء) اور سید قطب شہیدؒ(1966ء) کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ ان کا خط ایک ایسی دستاویز ہے جو قیامت تک اہلِ حق کے لیے روشنی اور عزیمت کا سامان فراہم کرتا رہے گا۔ چوری چھپے ان کا جنازہ پڑھانے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس مردِ مجاہد اور عظیم شہیدِ وفا کے جنازوں میں پورے عالم اسلام حتیٰ کہ مغربی دنیا میں بھی اہلِ اسلام نے جتنی بڑی تعداد میں اور جس محبت وعقیدت کے ساتھ شرکت کی ہے وہ ایک میزان ہے جس میں کھرے اور کھوٹے کو تولا جاسکتا ہے۔
برادرِ عزیز عبدالقادر! تم زندہ ہو۔ ہم تمھیں سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے عظیم شہدا کے قافلہ سالار تم ہو، تمھیں سبقت حاصل ہے۔ قمر الزمان شہید، علی احسن محمد مجاہد شہید، صلاح الدین فضل قادر شہید، مطیع الرحمان نظامی شہید، میر قاسم علی شہید جو تختۂ دار پہ لٹکائے گئے، تمھارے پاس پہنچ چکے۔ باقی اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ آپ کے اور ہمارے مربی و استاد پروفیسر غلام اعظمؒ اور مولانا اے کے ایم یوسفؒ بھی جنت مکین ہوچکے ہیں۔ ان عظیم ساتھیوں کی رفاقت! سبحان اللہ! ’’وحسن اولئک رفیقا‘‘۔