صوبہ خیبر پختونخوا کے دار الخلافہ پشاور میںزرعی تربیتی مرکز کے ہاسٹل پر حملے کے چند ہی دن بعد دہشتگردوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے کوئٹہ کا انتخاب کیا۔اس بار ان کا نشانہ کوئٹہ کا زرغون روڈ پر واقع میتھوڈیسٹ چرچ تھا۔ یہ حملہ اتوار 17 دسمبر کے دوپہر بارہ بجے کیاگیا ۔ اس وقت چرچ کے اندر دعا ہورہی تھی۔ دو دہشتگرد فائرنگ کرتے ہوئے گیٹ پھلانگ کر داخل ہوئے۔ حملہ آوروں کو چرچ کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے مشکل پیش آئی۔ وہ اس طرح کہ دہشتگردوںنے داخل ہونے سے قبل چرچ کی حفاظت پر تعینات اہلکار کونشانہ بنانے کی کوشش کی ۔اہلکار چرچ کی دیوار کے اوپر چیک پوسٹ پر موجود تھا۔ دہشتگردنے نیچے سے فائرنگ کی تو اہلکار نے بھر پور جواب دیا ۔اسی لمحے گیٹ پر موجود چوکیدار نے بھی حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دروازہ فوری بند کردیا۔ تاہم ایک دہشتگرد گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوا اور گیٹ کھول کر دوسرے کو بھی آنے دیا۔ چرچ کے اندر موجود پولیس اہلکار اس دوران پوزیشن سنبھال چکے تھے یوں فائرنگ کا تبادلہ شرو ع ہوا۔ ایک دہشتگرد کو داخل ہوتے ہی ٹانگ میں گولیاں لگیں۔ دوسرا فائرنگ کرتے ہوئے چرچ کے داخلی دروازے پر پہنچا اور دھماکا کردیا۔ پہلے ہی فائرنگ سے زخمی ہونیوالے دہشتگرد کو پولیس اہلکار نے تقریباً بیس منٹ کے مقابلے کے بعد سر میں گولی مار کر ختم کردیا۔ اس دہشتگرد کے جسم پر بھی بارود بندھا ہوا تھا۔ حملے کے وقت چرچ میں چار سو کے لگ بھگ مرد و خواتین اور بچے موجود تھے۔ حملہ آوروں کے پاس کلاشنکوف تھے ،دستی بم اور خنجر سے بھی لیس تھے۔ ان کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ چرچ کے اندر گھس کر پہلے پہل فائرنگ سے ایک ایک کرکے لوگوں کو مارنا تھا۔ گولیاں ختم ہونے کی صورت میں خنجروں کے وار سے فرداً فرداً مارنے کی نیت تھی ما بعد خود کو اڑانا تھا۔ مگر اللہ کی قدرت سے ان کایہ خونی منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔یقینا دہشتگردوں نے 9معصوم شہریوں جن میں بچے اور خواتین شامل تھیںکا خون ناحق کیا۔ تاہم وہ بڑے پیمانے پر مرد م کشی نہ کرسکے۔ یہ چرچ زرغون روڈ پر واقع ہے جو ریڈو زون یعنی گورنر اور وزیراعلیٰ ہائوس سے تقریباً ساڑھے تین یا چار سو گز کے فاصلے پر ہے۔ چرچ کے بالکل سامنے ڈی ایس ریلوے کوئٹہ کا دفتر ہے یعنی ریلوے اسٹیشن بھی چند قدم پر واقع ہے۔ ریڈزون ہی سے متصل سول سیکریٹریٹ موجود ہے ۔ اس لحاظ سے چرچ کی یہ عمارت انتہائی حساس زون میں واقع ہے۔ بہر حال دہشتگرد گروہ کیلئے شہر کے اندر اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا آسان بھی نہیں ہے۔ ایسے بہت سے حملے ان کے ناکام بھی بنائے جاچکے ہیں۔ بلوچستان میں چرچ پرحملہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل پاک افغان سرحدی شہر چمن میں حملہ ہوچکا ہے اور کوئٹہ میں شاہ زمان روڈ پر واقع چرچ پر بھی دستی بم حملہ کیا جاچکا ہے لیکن خودکش بمبار کا حملہ پہلی بار ہوا ہے۔ یہ حملہ سول ہسپتال میں وکلاء اور پولیس ٹریننگ کالج کی طرح ایک بڑی تیاری کا شاخسانہ ہے۔اگر بات شہر کوئٹہ میں سیکورٹی کے بندوبست کی کی جائے تو اس حوالے سے خاطرخواہ اقدامات اٹھائے جاچکے ہیں۔ پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی واقعہ رونما ہوہی جاتا ہے۔ ماضی کی طرح چر چ حملے کی تیاری بھی افغانستان میں ہوئی ہوئی ہے۔ مقامی افراد کو حملہ آور اور سہولت کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ملک کے اندر کارروائیاں بلا تخصیص ہوتی ہیں۔درگاہوں ،مساجد، اہل تشیع ، مسیحی عبادت گاہوں پر حملے ہوچکے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ فوج ، ایف سی اور پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں پر حملے ہوئے ۔ بلوچستان میں اب تک پولیس کے آٹھ سو سے زائد افسران اور سپاہی لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی گرجا گھروں پر حملے ہوئے ہیں۔2015ء میں لاہور کے یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں میں پندرہ لوگ قتل کردیئے گئے تھے۔ پشاور کے ایک چرچ میں تو90کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ اسی طرح بہاولپور اوراور اسلام آباد میں بھی گرجا گھروں پر حملے ہوچکے ہیں۔ کوئٹہکے گرجا گھر پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلیا ہے۔ یقینا داعش کا نیٹ ورک افغانستان میں قائم ہے جن کے قبضے میں مختلف علاقے آچکے ہیں۔ کے پاس دنیا کی بہترین آرمی اور جدید و خطرناک ترین اسلحۃ موجود ہے۔ اپنے جدید ترین جنگی سازو سامان کے ساتھ داعش کا قلع قمع کرنا امریکہ کے لیے مشکل ہونا چاہیے مگر شاید امریکہ افغانستان میں داعش کا خاتمہ چاہتاہی نہیں۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ افغانستان سے متصل بلوچستان کا بارہ سو کلو میٹر سرحد محفوظ بنایا جائے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان اور پاک فوج کام کررہی ہے۔ چنانچہ اس پر برق رفتاری سے کام لازم ہے۔ یقینا پورے ملک کے عوام ، سیاسی قیادت اور سیکورٹی حکام نے کوئٹہ واقع پر اپنے اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور پورے ملک کے اندر دہشتگردوں کے خلاف یکجہتی کا عنصر نمایا ہے۔ لہٰذا یہ جنگ عوام اور فوج کو مل کر لڑنی ہے۔ گورنر بلوچستان،وزیراعلیٰ، صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی، کمانڈر سدرن کمانڈ ، آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس نے سول ہسپتال میں زیر علاج زخمیوں کی عیادت کی۔وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے پسماندگان کیلئے دس دس لاکھ جبکہ زخمیوں کیلئے پانچ پانچ لاکھ روپے امداد کا اعلان بھی کیا۔ وزیراعلیٰ نے بہادری سے دہشتگرد کا مقابلہ کرنیوالے پولیس اہلکار کی جوانمردی کو سراہا ۔وزیراعلیٰ نے چرچ میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کیلئے پندرہ لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ۔صدارتی ایوارڈ کیلئے سفارش بھی کی جائے گی۔ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تشویش اور عزم کا اظہار کیا۔ یقینا دہشتگرد ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں لہٰذا حکومت اور اداروں کو حالات کے اس نازک اور حساس پہلو کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہے ۔ یاد رہے کہ میتھوڈیسٹ چرچ کے قریب امداد چوک پر ایف سی اہلکار بھی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔
سانحے کے دن ایف سی اہلکاروں کی موجودگی کا ذکر نہ ہوا۔ دیکھنا چاہیے کہ آیا حملے کے وقت ایف سی اہلکار موجود تھے یا نہیں۔ اگر نہیں تو اس کی باز پرس ہونی چاہیے اور اگر ڈیوٹی پر تھے تب تو ان کی گرفت ہونی ضروری ہے، ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ دہشتگرد چرچ کے باہر جب فائرنگ کررہے تھے تو انہیں روکا یا مارا کیوں نہ گیا؟۔بشپ آف بلوچستا ن اینڈ کراچی ڈینئل صادق نے مسیحی عوام سے متنازع ویڈیوز اپ لوڈ کرنے اور بیانات اور احتجاج نہ کرنے کا کہا ہے۔ اور بہت اچھی بات کہی کہ ’’دہشتگردوں نے ہم سب پر حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان کی سالمیت پر کیا گیا ہے۔ دہشتگرد گرجا گھروں، مساجد، امام بارگاہوں سمیت ہر قسم کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔