پاکستان کو درپیش خطرات

برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارلیمان سے کہا ہے کہ وہ دفاعی اور خارجہ امور کے بارے میں قومی پالیسی وضع کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کریں‘ ہم اس پر عملدرآمد کریں گے۔ قومی پالیسی سازی میں خلا پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ بری فوج کی سربراہی میں عسکری قیادت نے پہلی بار پارلیمان کو قومی سلامتی کے امور کے بارے میں اعتماد میں لیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی دعوت پر ایوان بالا کی تمام کمیٹیوں کے سربراہوں کے اجلاس کے سامنے پیش ہوئے۔ ان کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن‘ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر بھی موجود تھے۔ انہوں نے 4 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے بند کمرے کے اجلاس میں ایوان بالا کے اراکین کے سوالات کے جواب بھی دیے‘ اجلاس کے بعد برّی فوج کے سربراہ نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔ اجلاس بند کمرے میں ہوا ہے اور اس کی تفصیلات بیان نہیں ہوئی ہیں‘ لیکن یہ اجلاس جس پس منظر میں ہوا ہے وہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنی نئی حکمت عملی جاری کرچکے ہیں‘ اس تناظر میں امریکی صدر نے پاکستان کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نئے تو نہیں ہیں البتہ اب پہلی بار امریکی قیادت کی جانب سے جو کھلے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں‘ اس نے پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ پاکستان کے اندر موجود داخلی سیاسی بحران کی وجہ سے قومی سلامتی اور اس سے متعلق امو رپر قومی ہم آہنگی کا تاثر مجروح ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قومی سلامتی کے امور میں بہت سی باتیں سرعام نہیں کی جاسکتیں لیکن ملک و قوم کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتفاق رائے پہلی شرط ہے۔ حالات کی سنگینی عالم اسلام میں ہونے والی تباہیوں سے ظاہر ہے‘ اس حوالے سے قوم کو نہ صرف اعتماد میں لینا چاہیے‘ ساتھ ہی ایسے اقدامات بھی ضروری ہیں جن سے قوم کو بھی اپنی قیادت اور حکمرانوں پر اعتماد ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے نہ حکمرانوں کو اپنے عوام پر اعتماد ہے اور نہ ہی عوام کو یقین ہے کہ ملک و قوم کی حفاظت جن ہاتھوں میں ہے ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستانی مسلمانوں کی سیاسی قیادت بے اثر ہوگئی اور غیرملکی آقائوں یعنی انگریز کی غلامی اور ملت کی خیانت کرنے والی اشرافیہ نے حکومت و سیاست پر قبضہ کرلیا۔ ملک کی نصف تاریخ فوجی مارشل لا میں گزر گئی۔ سیاسی قیادت نے بھی ملک و قوم کی نمائندگی کرنے کے بجائے امریکی مدد اور سرپرستی کو ہی طاقت کا سرچشمہ سمجھا ‘چاہے عوام کی طاقت کے نعرے لگائے جاتے رہے ہوں۔ اصل حقیقت اللہ کی قوت و طاقت ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی قوت او رطاقت نہیں ہے۔ اس پوری کائنات پر اللہ کی حکمرانی ہے لیکن ہر دور میں کوئی فرعون‘ کوئی نمرود اپنی خدائی‘ طاقت اور حکمرانی کا اعلان کرتا رہا۔ نہ جانے خدا کے کتنے باغی حکومت و اقتدار کے تکبر میں آکر خدا کے بندوں کے لیے آگ کے گڑھے کھودتے‘ قتل کرتے‘ تشدد کرتے‘ جلاوطن کرتے‘ جیلوں میں ڈالتے‘ زندگی اور موت کے فیصلے کرتے اور خداکی زمین کو ظلم اور فساد سے بھر ڈالتے۔ آج بھی یہی صورتحال ہے اور امریکی صدر فرعونی تکبر کو اختیار کرتے ہوئے ہر خودمختار اور آزاد قوم کو دھمکی دے رہا ہے۔ اس نے تازہ ترین دھمکی پاکستان کو دی ہے‘ جس کا تعلق ’’امریکی وارآن ٹیرر‘‘ سے ہے۔ ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ نے پاکستان کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں او ریہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ جس وقت امریکی حکم پر سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی قومی سلامتی اور داخلی خود مختاری سے دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ کا آلۂ کار بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی وقت خدا کا خوف رکھنے والے اہلِ دانش نے سمجھایا تھا کہ غلط کام کا غلط انجام ہوگا۔ ملتِ اسلامیہ سے خیانت کرنے کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ لیکن آج 16 برس گزر جانے کے بعد ہماری قیادت کے سامنے یہ حقیقت واضح ہورہی ہے کہ امریکہ پاکستان دوستی اصل میں امریکہ پاکستان غلامی کا رشتہ ہے۔ امریکہ 40 ملکوں کی فوجوں اور جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کے ہمراہ افغانستان پر قابض ہوا‘ لیکن آج تک وہ اپنی فتح کا اعلان نہیں کرسکا۔ اب وہ اپنی شکست کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر پیسے لینے کا طعنہ دے رہا ہے۔ پاکستان کی قیادت کی جانب سے امریکہ کو جو لفظی جوابات دیے گئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ افغان مجاہدین کی مزاحمت نے عالمی منظر نامہ بدل دیا ہے۔ قربانیاں افغانوں نے دیں اور فوائد دیگر قوموں نے اٹھائے‘ اس کشمکش کا یہ پیغام ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا مقابلہ نہیں کرسکتی‘ اس لیے امریکہ اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے جہاد اور شہادت کے تصور کو بدنام کرنے کے لیے ہر مسلمان ملک میں دہشت گرد تنظیمیں پیدا کی ہیں‘ جن کے حقیقی سرپرستوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔یہ بات پہلی بار پاکستان کی جانب سے کھلے الفاظ میں کہی گئی ہے‘ وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے قومی سلامتی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی امریکہ کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ افغان جنگ ہار چکا ہے‘ وہاں طالبان مزید مضبوط ہورہے ہیں‘ اسے شکست ہضم نہیں ہورہی‘ اس لیے وہ پاکستان پر الزام عائد کررہا ہے۔ اور جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے خطاب کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے بھی امریکہ کو سخت جواب دیا گیا ہے اور اسے خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی سرپرستی کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ پاکستان کو امریکی مذموم عزائم کی وجہ سے جن خطرات کا سامنا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ سے علیحدگی ضروری ہے اور اسلامی نظریاتی بنیادوں پر نئی دفاعی اور خارجہ پالیسی کی تشکیل ضروری ہوگئی ہے۔ عسکری قیادت نے پارلیمان کو دفاعی اور خارجہ امور پالیسی میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے۔ ضروری ہے کہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والے سیاست دانوں اور اہل دانش سے ہوشیار رہا جائے۔