اک ستارہ تھے وہ کہکشاں ہوگئے

نجمہ نسیم
میرے پیارے ابو جی! شیخ رفیق احمد 26 نومبر 1944ء کو شیخ حاجی یار محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ دین دار گھرانے میں ماں باپ اور بڑے بہن بھائیوں کی شفقت میں تربیت حاصل کی۔ اور آگے رواں دواں رہے۔ کالج کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ سے اور پھر 1971ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری دن 28 نومبر 2013ء تک 42 سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔ اپنے فرائض انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے، اس دوران آپ 14 سال نائب امیر جماعت اسلامی کراچی بھی رہے۔
میرے پیارے ابو جی! جنہیں ہم سے بچھڑے 4 سال گزر گئے ہیں مگر اب بھی ابو کی وفات کا یقین نہیں آتا۔ 29 نومبر2013 ء جمعرات کی صبح کا ہر منظر بالکل واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔ جب ابو کی تدفین کے لیے میرے بھائیوں اور میرے شوہر نے غسل دے کر آپ کو تیار کیا تو دل میں یہ خیال بے چینی اور غم بڑھا رہا تھا کے ابو اب دوبارہ نظر نہیں آئیں گے۔ میں اپنی پوری کوشش کرکے بغیر پلکیں جھپکائے انہیں ٹک دیکھ رہی تھی۔ کیونکہ یہ شفیق چہرہ ہم سے ہمیشہ کے لیے دور ہونے والا تھا۔
دل چاہتا تھا کچھ دیر اور روک لیں مگر حکم خداوندی جلدی کی ہدایت کرتا ہے۔ میرے ابو کے دانت نہیں تھے وہ بتیسی استعمال کیا کرتے تھے۔ انتقال کے بعد دانت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا پرنور چہرہ دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ مسکرا رہے ہوں۔ سب سے ہنس کر بات کرنے والے سخت سے سخت بات کو نرمی سے ادا کرتے۔ اچھے پیرائے میں درسِ قرآن دینے والے۔ یہ سب نبی کریمؐ کی سنتیں ہیں اور میں نے ابو کو سنتوں پر عمل کرتے ہوئے پایا۔ وہ ایک خوش اخلاق، سچے اور انسان دوست درویش آدمی تھے۔
وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ زندگی بھر 3 باتوں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور ان کے درمیان فرق کو زندہ رکھتے تھے۔ 1۔ حرام، حلال میں فرق، 2۔ جھوٹ، سچ میں فرق اور سب سے اہم اور خاص فرق جو ہمارے معاشرے میں بھلایا جا رہا ہے، محرم نا محرم کا فرق کہ کون محرم ہے کون نہیں ہے۔
اگر ہم ان 3 باتوں کو اپنی زندگی میں اہمیت دیں تو ہماری آدھی زندگی کے معاملات درست ہو جائیں گے۔
میری امی راحت رفیق جو ابو کی بہت خدمت گزار تھیں (وہ کہتی ہیں، میرے شوہر ایک مثالی شوہر اور والد تھے انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود گھر کا، گھر والوں کا، تمام رشتے داروں کا بہت خیال رکھا۔ ہر معاملے میں باہمی مشاورت کواہمیت دی۔ میری زندگی میں ان کے نا ہونے سے بہت بڑا خلا ہے۔ آج بھی جب میں کسی بات پر پریشان ہو جاتی ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسا انہوں نے میرا 45 سالہ ازدواجی زندگی میں خیال رکھا ویسے ہی آج بھی میری پریشانی کے وقت وہ فوراً خواب میں آجاتے ہیں تو مجھے بڑی تسلی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بلند ترین مقام پر فائز فرمائے۔ آمین!
میں نجمہ نسیم ابو کی سب سے بڑی بیٹی ہوں اور ابو کے گھر سے قریب ترین رہائش کی وجہ سے میں ہر دن ایک بار ضرور ابو کے گھر جاتی اور اپنے والدین کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتی۔ دو بہنیں دور رہائش پذیر تھیں۔ اس دن شام کو ابو کی طبعیت ناساز سن کر ملنے چلی گئی۔ بہنیں اور بھائی بھی آگئے۔ ابو نے امی سے کہا کھانا بنا لو آج سب بچے جمع ہیں۔ ہم تو کھانا کھا کر 11 بجے رات گھر آگئے مجھ سے چھوٹی بہن سلمیٰ اسماعیل رک گئی۔
وہ اُس دن کا ذکر کرکے بتاتی ہے۔
جب میرے والد محترم کا انتقال ہوا۔ میں ابو کے گھر تھی ابو کی طبعیت معمولی خراب تھی ،خیال تھا صبح تک نارمل ہو جائیں گے۔ مگر اللہ کا حکم ہو چکا تھا۔ انتقال کو 4 سال ہوئے مگر سب بالکل سامنے ہے۔ ہم بہنیں جاگ رہی تھیں۔ نماز تہجد کے لیے تیاری کی اور تہجد پڑھتے پڑھتے سجدے میں ہی اپنے خالق سے جا ملے۔ انتقال کے بعد میں نے ابو کے پیر کے انگوٹھے باندھے۔ گھر میں شدید غم کا عالم تھا مگر میری حالت عجب تھی۔ میں نے جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو چونک گئی میرے ہاتھوں سے ایسی خوشبو آرہی تھی،جو میں نے دنیا میں کبھی محسوس نہیں کی۔ میں نہ جب تک ہاتھ دھوئے نہیں وہ خوشبو میرے ہاتھوں میں بسی رہی۔ ابو کا جسدِ خاکی جس کمرے میں رکھا تھا۔ وہاں پوری رات عجیب سی خوشبو اور تازگی پھیلی رہی۔ پورے گھر میں غم اور سوگ کا عالم تھا مگر اس کمرے میں عجیب سا نور تھا۔ سبحان اللہ، اللہ ابو کو جنت الفردوس میں اعلیٰ منصب پر فائز فرمائے۔ میری تیسرے نمبر کی بہن عائشہ عزیر سب سے آخر تک رکی ہوئی تھی وہ کہتی ہے میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کے اپنے گھر چلی جائوں یا رک جائوں،ہمیں خیال تھا کہ ہمیشہ کی طرح ابو رات آرام کریں گے تو صبح تک ٹھیک ہو جائیں گے ،ہم ابو سے مل کر گھر آگئے مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ ان سے میری آخری ملاقات ہے، ہمارے گھر آنے کے کچھ دیر بعد ذہن کو مفلوج کرنے والی خبر نے ہواس معطل کر دیے کہ میرے بابا جانی اب اس دنیا میں نہیں رہے، وہ وقت زندگی کا سب سے کٹھن وقت تھا۔ مگر صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بس ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہم سے دور چلے گئے! اللہ ہماری والدہ اور ہم سب پر رحمت کی خاص نظر فرمائے اور میرے بابا جانی کو جنت الفردوس میں بلند درجہ عطا فرمائے۔ آمین!
میرے سب سے چھوٹی بہن صائمہ کہتی ہے ،ابو اس رات ہمارے سامنے تہجد کی نماز کے لیے وضو کر کے گئے نماز پڑھنے سے پہلے پانی پیا۔ اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں ایک شور ابو کے کمرے میں سنا تو میں اور میری بہن ابو کے کمرے میں گئے ان کا منہ تھوڑا ساکھلا ہوا تھا۔ ان کو اس حال میں دیکھا تو سب سمجھ میں آگیا۔ جذبات کی شدت سے میں نے ابو کا پر نور چہرہ اپنے ہاتھوں سے خوب چوما ابو کو بہت پکارا مگر وہ اپنے دائمی سفر پر روانہ ہو چکے تھے۔ اتنا جلدی لمحوں میں اللہ کی بارگاہ میں حاضری نیک بندوں کے بس کی بات ہے۔ اللہ ابا جان کو بلند ترین درجات عطا فرمائے۔ آمین!
سعد رفیق میرا سب سے چھوٹا بھائی ابو کی آنکھ کا تارا۔ وہ اس سے بالکل غیر ضروری کام نہ لیتے، کہتے بڑے دونوں بھائیوں اور بہنوئیوں کی موجودگی میں سعد کیا کام کرے گا۔ سعد کہتا ہے 28 نومبر کی رات نماز تہجد کے دوران جب وہ عظیم دوست رہنما۔ اور والد بہت سی آنکھوں کو اشکبار کر گئے۔ جب میرے پیارے ابو رخصت ہو گئے تو احساس ہوا۔ ان کا سایہ کیا تھا؟ دنیا کیسی ہے؟ ابو اپنے اندر ایک عالم، طبیب، مدرس اور استاد تھے۔ بے شمار خصوصیات کے مالک تھے۔ حسن گفتار ایسا کے جس سے بات کرتے اپنا بنالیتے۔ اللہ میرے ابو کو کروٹ کروٹ سکون نصیب فرمائے۔
میرے بچے ہر دن ملتے تو بہت پیار کرتے میری بچی حفصہ کہتی ہے نانا ابو میرے نانا ابو ہی نہیں تھے، وہ میرے دادا ابو بھی تھے کیونکہ میرے دادا جی حیات نہیں ہیں۔ وہ ہم سے بہت پیار کرتے۔ ہم ہر دن انہیں دین کی خدمت میں مشغول دیکھتے۔
میرا بیٹا عبدالرحمن نسیم کہتا ہے۔
مجھے نانا ابو سے بہت پیار ہے۔ انہوں نے ہی مجھے نماز کی عادت ڈالی ہے۔ جب میں ان کے گھر جاتا وہ لازمی مجھے اپنے ساتھ مسجد لے کر جاتے ۔
میری چھوٹی بچی حدیقہ نسیم کہتی ہے۔
میرے نانا ابو مجھے بہت یاد آتے ہیں وہ نیک انسان تھے ہم سب سے بہت پیار کرتے تھے۔ جب ہم ان کے گھر جاتے تو وہ جمعرات کو ہمارے لیے پاپ کارن اور پھل خرید کر لاتے مجھے اور میرے ماموں ذار بھائی ریان کو اپنے موبائل پر نظمیں سناتے جب وہ صبح آفس جانے کے وقت ناشتہ کرتے تو مجھے اور میرے بھائی عبدالرحمن اور آپی حفصہ کو بھی اپنے ساتھ شہد کھلاتے تھے۔ ان کا انتقال ذکر الٰہی میں ہوا۔
اللہ میرے نانا کو سب سے بلند مقام پر رکھے آمین۔
آج دین کا خدمت گار دنیا سے رخصت ہوا۔ اللہ دین کی خدمت کرنے والوں اور کرکے جانے والوں کی خدمات کو قبول فرمائے۔