کراچی میں بڑھتے ہوئے حادثات

ابو عبدالسلام احمد
موبائل فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔ کوئی پیغامبر تھا۔۔۔۔ لیکن معلوم نہ تھا کہ اک غمناک خبر سماعت کی منتظر ہے۔۔۔۔ شریک حیات سے بات کرنے کو کہا۔۔۔۔ مگر فون کرنے والے کو مجھ سے ہی بات کرنی تھی۔۔۔ ریسور کو کان سے لگایا ۔۔۔۔ تو گویا ایک دھماکا سا ہوا۔۔۔۔ دلشاد کی بیگم کا ٹریفک حادثے میں انتقال ہوگیا ہے۔۔۔۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔۔۔ پڑھا۔۔۔ استفسار کیا۔۔ کب ؟؟؟ کہاں ؟؟؟ کیسے؟؟؟ ارشاد رمضان کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ چکے تھے۔۔۔۔سسکتی آواز میں مختصر تفصیلات بتائی۔۔۔۔ پھر سارے مناظرکسی فلم کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔۔۔۔
ہفتے کی تو بات ہے بیوی بچوں کے ساتھ ان کے گھر پر تمام لوگوں سے ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ چند دن قبل ہی تو دلشاد نے ان کا ویزا بھجوایا تھا۔۔۔وہ تو اپنے شوہر کے پاس بیرونِ ملک جانے کی تیاریاں کررہی تھیں۔۔۔دونوں کی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے تھے۔۔۔ صرف تین ماہ۔۔۔ ٹیلی فون بند کیا۔۔۔ اور اہلِ خانہ کے ساتھ دلشاد کے گھر روانہ ہوگیا۔۔۔ خیالات اور احساسات کی دنیا میں گم موٹرسائیکل چلاتے ہوئے کب سخی حسن پہنچا۔۔۔ پتاہی نہ چلا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر حادثہ کی تفصیلات سنی تو تڑپ اُٹھا ۔۔۔

میرے الفاظ کیا ہر شعر کا مضمون جلتا ہے
میں جس دم سوچنے لگتا ہوں مرادل تڑپتا ہے

ایک دلخراش واقعہ ۔۔۔ جو ۱۴ دسمبر کو لیاقت آباد کراچی کی مصروف شاہراہ ۔۔ شارع پاکستان ۔۔پر دن کی روشنی میں پیش آیا۔۔۔ دلخراش منظر دیکھ کر راہ گیروں کی چیخیں نکل گئیں۔۔ ٹیلی ویژن چینلز پر خبریں ، سوشل میڈیا پر موجود حادثے کے بعد کی وڈیو اور عینی شاہدین کے بیانات نے کئی سوالات کھڑے کردیے۔۔۔رپورٹ کے مطابق بدمست ڈمپرٹی کے ایکس ۳۲۹(جو ریتی بجری سے بھرا ہوا تھا) ڈرائیور نے پل سے اترتے ہوئے گاڑیوں کو رگیدتا چلا گیا۔۔ تین موٹرسائیکلوں، دو سوزوکی پک اپ، ایک رکشہ اور تین کاروں کو نقصان پہنچا۔۔جائے وقوع سے پتا چلتا ہے کہ ڈمپر ڈرائیور کے لیے یہ عام سی بات ہے کیونکہ اگر پل سے اترتے ہوئے وہ ڈمپر کو گرین بیلٹ سے ٹکرادیتا تو آگے جاکر جانی نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔۔ پل سے اترتے ہوئے کئی گاڑیوں کو ٹکر مارتے ہوئے ڈمپر کو بائیں جانب لایا اور پھر اپنے سامنے آنے والوں کو روندتا چلا گیا۔فردوس شاپنگ سینٹر کے سامنے ہونے والے اس حادثے میں امبرین زوجہ دلشاد رمضان موقع پر ہی دم توڑگئیں۔ جبکہ امبرین کے بھائی سمیت بارہ افراد زخمی ہوئے۔۔
اس واقعہ میں بعض میڈیا کے اداروں۔۔ پولیس اور ڈمپر مافیا کا گٹھ جوڑ بھی کھل کر سامنے آیا۔۔۔خبروں میں ہر کوئی جاں بحق اور زخمیوں کے الگ الگ نام بتاتا رہا۔۔۔ ڈمپر ڈرائیور کو زخمی دکھانے کی کوشش کی گئی تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ اسے لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ۔ بریک فیل ہونے کو حادثہ کی وجہ قرار دے دیا گیا۔۔اور میڈیا اسے بنا تصدیق یا تحقیق کے نشر کرتا رہا۔۔۔ حالانکہ واقعہ کے بعد ایدھی ایمبولنس کے ڈرائیور نے ڈمپر کو ریورس کیا تو یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ اگر ڈمپر کا بریک فیل ہوا تھا تو وہ پیچھے کے بجائے آگے کی جانب جاتا۔۔مگر کسی رپورٹر نے واقعہ کی صحیح رپورٹنگ نہیں کی ۔۔ کسی نے ایس ایچ او سے بات کی تو کسی نے ایس ایس پی سے رابطہ کیااور کسی نے ایم ایل او سے ملنے والی تفصیلات پر خبر بیان کردی۔۔۔
ہر ٹریفک حادثہ کی طرح اس حادثہ میں بھی پولیس نے اپنا کردار بحسنِ خوبی ادا کیا۔۔۔ ایف آئی آر میں ملزم کو قتلِ خطا کا فائدہ دیا۔۔ بریک فیل ہونے کو حادثہ کی وجہ قرار دیا۔۔۔اور دعویٰ کیا کہ ڈمپر ڈرائیور نعمت اللہ بھاگنے کی کوشش کررہا تھا۔۔ اس لیے پکڑ لیا ہے۔۔ حالانکہ ڈرائیور کو مقامی شہریوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔۔۔ ایس ایس پی سینٹرل عرفان علی بلوچ کہتے ہیں کہ ڈمپر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور وہ واقعہ کی مزید تحقیقات کریں گے۔۔ مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں ایف آئی آر میں ڈرائیور کو فائدہ کیوں دیا گیا؟؟؟ ایف آئی آر کمزور کیوں کاٹی گئی؟؟؟ کیا انہوں نے مقامی علاقہ کے تھانیدار راؤ شبیر سے اس بارے میں کوئی باز پُرس کی؟؟؟ڈمپر کا شہر میں دندناتے پھرنا ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن حادثے کے ذمہ دار ڈمپر کے ڈرائیور کے پاس تو روٹ پرمٹ بھی نہیں تھا، پھر یہ کیسے اور کس کی اجازت سے سڑکوں پر موت بانٹتا نظر آیا؟؟ حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور کا بیان میں نظر آتا ہے کہ اس کے چہرے پر تاسف کا شائبہ تک نہیں۔۔ کہتا ہے چوبیس سال کی عمر سے ڈمپر چلا رہا ہوں، پتا نہیں کتنے لوگوں کو مارا ہے!!!
ٹیلی ویژن پر خبروں اور سوشل میڈیا پر موجود وڈیو میں اس حادثے کے وقت جہاں قرب و جواز کے لوگوں کو فوری مدد کرتے دیکھا گیا وہیں بہت سے ایسے بھی تھے جو موج مستی کرتے نظر آئے۔بعض اہلکار بھی ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔۔ جیسے کسی مشاعرے میں آئے ہوں یا ان کے لیے یہ سب کچھ عام سی بات ہو۔۔زخمیوں اور لاش کے اسپتال پہنچنے پر افسوسناک انکشاف ہوا۔ کہ حادثے کا شکار ہونے والوں کے مال و اسباب نہ تو جائے وقوع سے ملے اور نہ ہی تھانے یا اسپتال میں کسی نے جمع کرایا۔ حد تو یہ ہوئی کہ کسی نے پہنے ہوئے زیورات بھی اتار لیے ۔۔یہ عمل حادثے سے بڑھ کر المیہ اور ایک خطرناک رویہ اور رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔۔۔حادثے پرسوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے میں کسی نے طنز کیا تو کسی نے اسے کراچی والوں کی قسمت قرار دیا۔۔ لیکن ایک صارف نے سوال اُٹھایا کہ آخر ڈمپر سے ہلاکتوں پر کوئی نوٹس کیوں نہیں لیتا ؟؟؟
ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ نوری آباد چاڑی کے مقام پر کراچی سے حیدرآباد جانے والی وین کو ڈمپر نے ٹکر مار دی ۔۔ جس سے چھ افراد جاں بحق اور چھ زخمی ہوگئے۔۔۔ جبکہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ ملیر کراچی میںبھی ڈمپر نے مدرسہ کے تین بچوں کی زندگیوں کا چراغ گل کردیا ۔ ماں کی کائنات اُجڑی تو وہ کومے میں چلی گئی اور پھر اس بے حس اور خودغرض دنیا کے لیے سوال چھوڑ کر چلی گئی!
شہری کہتے ہیں کراچی میں ہیوی ٹریفک کے اناڑی اور نشئی ڈرائیور ٹریفک قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں، شہریوں کی زندگیوں سے کھیل بھی رہے ہیں، ان کی اس تیز رفتاری اور مست ڈرائیونگ کی وجہ سے سڑکوں پر موت کا رقص جاری ہے۔۔۔لیکن ٹریفک اہلکاروں کو کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ انہیں توموٹرسائیکل اور کار سواروں کا چالان کرنے سے فرصت نہیں۔۔ ڈمپر، ٹرک، آئل و واٹرٹینکر، ٹریلر، مزدا ، کوچوں اور بسوں کے ڈرائیور ان کے سامنے ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑاتے گزرجاتے ہیں مگر اُنہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔۔شارع پاکستان پر حادثے کے ذمہ دار ڈمپر ڈرائیور نے بھی یہی کچھ کیا۔۔ضلع وسطی ،غربی اور ملیر میں دن بھر بھاری گاڑیاں سڑکوں پر دندناتی رہتی ہیں، مگر قانون یا تو سو جاتا ہے یا پھر اس کی بینائی دیکھ نہیں پاتی۔۔۔
یہ تو چند واقعات ہیں۔۔۔ ان سب کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟کیا ڈرائیورکو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔۔۔۔یا وہ ٹریفک اہلکار جس نے ہیوی ٹریفک کو شاہراہ عام پر آنے دیا۔۔۔یا پھر ان کا افسر ڈی آئی جی جس نے آج تک تدارک کے لیے کچھ نہ کیا بلکہ ایسا خاموش ہے کہ جیسا سب کچھ ٹھیک ہے۔۔۔ یاپھرمنتخب نمائندوں کی حکومت ؟؟؟ لیکن ان ڈمپروں کو کراچی کی سڑکوں پر دندنانے کی اجازت کس نے دی؟؟ سندھ ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ نے تو بڑی گاڑیوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا لیکن عدالت عظمیٰ نے ڈرائیور کی حق تلفی کو جواز بناتے ہوئے ہیوی ٹریفک شہر میں آنے کی اجازت دے دی۔ سوال یہ ہے کہ ناردرن بائی پاس بنانے کا مقصد کیا تھا!! یہی نا کہ ہیوی ٹریفک شہرِ کراچی میں داخل نہ ہو بلکہ ناردرن بائی پاس کے راستے سپرہائی وے جایا کرے۔مگر ہیوی ٹریفک کو شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت د ے دی گئی، جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات بڑھ گئے ہیں۔
جان و مال تو پہلے ہی کسی شہری کی محفوظ نہیں ہے۔ کراچی اور پورے ملک کی سڑکیں بھی غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنے پر اصرار ہے مگر اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر نہیں۔ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے، شاہراہیں، بالائی گذرگاہیں اور انڈر پاسز تعمیر کیے جارہے ہیں لیکن سڑکوں کو شہریوں کے لیے محفوظ کیسے بنایا جائے اس کی فکر نہیں ہے۔۔انسانوں کے معاشرے میں زندگی جانوروں سے بدتر بنادی گئی ہے۔۔۔ ایسا تو جنگل میں بھی نہیں ہوتا۔۔ جہاں قدرت کا نظام چلتا ہے۔۔۔ مگر انسانوں کے معاشرے میں آج زندگی کتے بلیوں سے بدتر ہوگئی ۔۔۔ بنتِ عزیزالرحمان کی جگہ اگر اربابِ اقتدار و اختیار کی بیٹیاں ہوتیں کیا تب بھی قانون اسی طرح اندھا اور گونگا رہتا؟؟؟پندرہ دسمبر کو گھاس منڈی سے جنازہ اُٹھا تو ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمزدہ تھا۔۔ چند ماہ قبل زندگی کی نئی ابتدا کرنے والی بنت عزیزالرحمان کو موچکو قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔

نہ مدعی ، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ پاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہو