شش ماہی تحقیقی مجلہ ’’تحقیق ‘‘ شعبہ اردو‘ جامعہ سندھ جام شورو کا بڑا دقیع مجلہ ہے‘ جس میں بہت قیمتی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اس کے مدیر پروفیسر شعبۂ اردو اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس (رئیس کلیہ فنون) ڈاکٹر سید جاوید اقبال ہیں۔ ان کی طرف سے تحقیق کا شمارہ نمبر 31 اور 32 ایک ساتھ ملے ہیں‘ بہت شکریہ۔ ان میں زبان بالخصوص اردو کے حوالے سے کئی تحقیقاتی مضامین شامل ہیں۔ خود ڈاکٹر سید جاویداقبال کا ایک مقالہ ’’اردو فرہنگ نگاری تشکیل و تحقیق: ایک جائزہ‘‘ شمارہ نمبر 31 میں شامل ہے۔ اس کی مجلس مشاورت میں اردو کے بڑے اور معتبر ادیب شامل ہیں مثلاً ڈاکٹر معین الدین عقیل‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ ڈاکٹر انوار احمد وغیرہ۔ مجلس مشاورت میں شامل 10 افراد میں سے ہر ایک اردو کا پروفیسر ہے یا کسی جامعہ کا صدر شعبہ اردو‘ صدر شعبہ فارسی وغیرہ۔
ان بڑے ناموں کی وجہ سے مجلہ ’’تحقیق‘‘ خود معتبر ہوگیا ہے۔ لیکن سرسری مطالعے سے املا اور زبان کی کچھ غلطیوں پر نظر پڑی چونکہ یہ ایک تحقیقی مجلہ ہے اور بڑے نامور ادیب وابستہ ہیں چنانچہ کوئی ایک غلطی بھی کھٹکتی ہے‘ املا کی ایک غلطی تو مسلسل ہورہی ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد کے تعارف میں لکھا جارہا ہے ’’وزیٹنگ پروفیسر‘ شعبہ اردو‘ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی‘ ملتان‘‘۔ بہاء الدین کو بہائو الدین لکھنے پر خود ڈاکٹر انوار کو توجہ دلانی چاہیے تھی۔ پہلے بھی انہی صفحات میں نشاندہی کی جاچکی ہے کہ بہاء الدین ہو یا علاء الدین ان میں وائو نہیں آتا کیونکہ وائو کا مطلب ہے اور۔ بہائو الدین لکھنے سے مطلب ہوجائے گا’بہا اور دین‘ بہاء اور علاء کے مطلب تو معلوم ہی ہیں۔اس غلطی کی تصحیح کرلی جائے تو اچھا ہے۔
فرید الدین اور سید جاوید اقبال کے مشترکہ مضمون ’’حکیم سعید کی سفر نامہ نگاری کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ سفر ناموں کے بارے میں بڑا معلوماتی مضمون ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ مضمون میں کئی غلطیاں ہیں۔ مثلاً جمیل الدین عالی کے سفر نامے میں ’’قو س و قزاح‘‘ (صفحہ 180 ‘شمارہ 32 ) شائع ہوا ہے۔ اگر یہ جمیل الدین عالی مرحوم کی غلطی ہے تو بھی فرید الدین اور جاوید اقبال کو اس کی تصحیح کردینی چاہیے تھی۔ ’قوس و قزاح‘ کی غلطی بہت عام ہے۔ قوس کمان کو کہتے ہیں اور قزح (ق پر پیش) رنگوں کو۔ اب ان دو الفاظ کے بیچ میں وائو ٹھونس دیا جائے تو مطلب ہوگا کمان اور رنگ۔ جبکہ یہ قوسِ قزاح ہے یعنی رنگوں کی کمان۔ اس مضمون میں اردو کے بڑے ادیب محترم رضا علی عابدی کے سفر نامے میں ایک جملہ ہے ’’عورتیں دھوپ میں بیٹھی اپنے سروں کے بال سکھارہی تھیں۔‘‘ جملے میں غلطی کوئی نہیں لیکن اس میں ’’سروں کے‘‘ اضافی ہے۔ اتنا لکھنا کافی تھا کہ بال سکھا رہی تھیں۔ رضا علی عابدی کو بی بی سی سے سن کر ہم نے اپنا تلفظ درست کیا ہے اور یوں وہ بالواسطہ ہمارے استاد ہیں۔ لیکن چست جملہ وہ ہوتا ہے جس میں بھرتی کے الفاظ نہ ہوں یا ایسے کہ جن کو نکال کر جملے پر اثر نہ پڑے بلکہ وہ زیادہ بہتر ہوجائے۔
محترم عطا الحق قاسمی بہت اچھے کالم نگار اور شاعر ہیں۔ جانے کب سے لکھے چلے جارہے ہیں‘ نصف صدی سے اوپرہی ہوگیاہوگا۔ مذکورہ مضمون میں ان کے سفر نامہ لندن سے بھی ایک اقتباس شامل ہے۔ نشہ بازوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے انہوں نے اردو کے کان کھینچ ڈالے۔ لکھتے ہیں ’’کپڑوں سے بو کے ’بھبھوکے‘ اٹھ رہے تھے۔‘‘ محترم بھبھوکے لکھتے ہوئے کسی لغت میں اس کا مطلب ہی دیکھ لیا ہوتا۔ کہیں ایسانہ ہو کہ اپنے کسی شعر میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال کر بیٹھیں۔ حضرت‘ بھبھوکا کا مطلب ہے آگ کا شعلہ‘ شرارہ بطور صفت زیادہ سرخ نہایت روشن ۔ ایک شعر:
اس دست نگاری کو کیا ہے جو بھبوکا
دل میں مرے اک آگ لگا دی ہے حنا نے
اس کا مطلب بہت سفید‘براّق اور نہایت گورا بھی ہے۔ مصحفی کا شعر ہے:
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
شعلہ سمجھا تھا اسے میں‘ یہ بھبوکا نکلا
غضب ناک اور خشمگیں کے معنوں میں بھی آتا ہے لیکن کسی بھی طرح اس میں سے بو کے بھبھوکے نہیں اٹھتے۔ حضرت نے لندن میں کوئی اور بھبوکا دیکھ لیا ہوگا‘ کسی گورے چٹے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے’’لال بھبوکا‘‘۔اسی طرح پنجاب میں عوامی جملہ ہے ‘‘رتّا لال‘‘۔ یہ زور پیدا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ورنہ رتّا کا مطلب بھی لال ہے۔
استاد عطا الحق قاسمی بھبھوکے کی جگہ شاید ’’بھبکے‘‘ استعمال کرنا چاہتے ہوں گے۔ صفحہ 181 پر بڑی دلچسپ اصطلاح استعمال کی گئی ہے’’سیاح تجسسی انسان ہوتا ہے‘‘۔ تجسّسی اردو میں نیا اضافہ ہے۔ اس کی جگہ اگر متجسس استعمال کیا جاتا تو اچھا تھا یعنی ’’سیاح متجسس ہوتاہے‘‘۔
ڈاکٹر فوزیہ اسلم کا مضمون ’’انگریزی آمیزی کا رجحان اور اردو اخبارات‘‘۔ عنوان سے لگتا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ مضمون ابھی پڑھا نہیں لیکن ’’انگریزی آمیزی‘‘ کی اصطلاح نامانوس ہے۔ انگریزی آمیز اردو کا رجحان بھی ہوسکتا تھا۔
تحقیق پر تفصیل سے تحقیق بعد میں ہوگی۔ فی الوقت لغت کے حوالے سے ایک دلچسپ بات۔ ابتر یا ابتری کا استعمال اردو میں عام ہے۔ لیکن یہ لفظ عربی کا ہے اور عربی میں اس کا مطلب ہے ’’دم کٹا‘‘۔ ہے ناں مزے کی بات۔ اہل فارس نے اسے پراگندہ اور ضائع کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اردو میں بھی انہی معنوں میں آتا ہے مزید یہ کہ پریشان‘ تتر بتر‘ منتشر وغیرہ۔ ان معنوں میں آتش کا شعر ہے:
برہم نہ ہو مزاج کسی وقت آپ کا
ابتر ہوئی ہے زلف نہایت سنواریے
ابتر کو بدچلن اور آوارہ کے معنوں میں بھی استعمال کیاگیا ہے۔ مرزا سودا کا شعر ہے:
یارو مجھ سے تو لاولد بہتر
میرا بیٹا اور اس قدر ابتر
قرآن کریم میں سورہ کوثر میں ’ابتر‘ جڑ کٹا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ فرمان خدا وندی ہے ’’انّ شانِئَک ھوالابتر‘‘ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔ یہاں مطلب ہے کہ دشمن ہی بے نام و نشان ہوجائے گا۔ اردومیں ابتر خراب‘ ردی وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ جیسے ’’مریض کی حالت روزبروز ابتر ہورہی ہے‘‘۔ برسبیل تذکرہ‘ دن بہ دن کے بجائے روزبروز لکھنا بہتر ہے اور اگر دن میں استعمال کرنا ہو تو ’دن پردن‘ لکھا او رکہا جائے۔ یہ بات صحیح ہے کہ بات سمجھ میں آنی چاہیے لیکن بہتر طریقے سے سمجھانے میں کیا حرج ہے۔
گزشتہ کالم میں ہم نے دارالخلافہ کے حوالے سے لکھا تھا جس پر دبئی سے عزیزم عبدالمتین منیری کا ردعمل آیا ہے کہ ’’تازہ کالم مقدس اور مقدس کے آخر میں آپ کے قلم سے یہ عبارت نظر آئی ’’اب حکمران خلیفہ تو رہا نہیں البتہ نائیوں کو کہا جانے لگا ہے۔ اس لحاظ سے حمام کو دارالخلافہ کہا جاسکتا ہے۔
ہماری رائے میں نائی کے لیے خلیفہ کا لقب ایک مخصوص فرقہ واری ذہنیت کی دین ہے۔ اس فرقہ کے یہاں خلافت کا تصور نہیں ہے۔غالباً اودھ کے نوابی دور میں خلیفہ لقب کی توہین کے لیے خلیفہ نائیوں کو کہا جانے لگا۔ حمام کو دارالخلافہ تو اس دور میں بھی نہیں کہا گیا۔ یہ آپ کے قلم کی اپچ نظر آتی ہے۔ چونکہ اس کا تعلق مذہبی عقیدے سے ہے لہٰذا اس قسم کا مزاح مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ شکریہ‘‘
منیری صاحب معذرت کے ساتھ‘ آپ کے خط سے بھی فرقہ واری جھلک رہی ہے۔ ہمارے لکھے کا کوئی تعلق مذہبی عقیدے سے نہیں بنتا۔ آپ تو بہت دور چلے گئے۔ ہم نے‘ بقول طارق غازی تفنن طبع کامظاہرہ کیا تھا۔ ہمارے خیال میں نائی کو خلیفہ کہنا انگریزوں یا ان کے پٹھوئوں کی کارستانی ہے۔ نائی کا پیشہ برا نہیں ہے۔ برعظیم پاک و ہند کے مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ مرحوم پیشے کے لحاظ سے گیسو تراش تھے۔ بات صرف اتنی نہیں کہ نائی کو خلیفہ کہا جانے لگا بلکہ فوجی عہدے جمعدار کو بھنگی سے منسوب کردیا۔ مہتر سردار کو کہتے ہیں اور ہم نے اسے بھی بھنگی بنادیا۔