مسلمانوں میں چونکہ قحط الرجال تھا، اس لیے جس شخص میں لوگ قیادت اور رہنمائی کی صلاحیت اور قوت دیکھتے اُس سے ہر قسم کی توقعات وابستہ کرلیتے تھے۔ یعنی چاہتے تھے کہ جو شخص شاعر ہو وہی لیڈر بھی ہو، وہی صوفی بھی ہو، عالم بھی ہو، سپاہی بھی ہو۔
نتیجتاً وہ اس قول کو نظرانداز کرکے کہ ’’ہر کہے را بہرکارے ساختند‘‘ اقبال سے طنزاً کہا کرتے تھے کہ تم نے ہم کو مومن بنادیا لیکن خود کافر رہے۔ جب اس قسم کا سوال مولانا محمد علی جوہر نے اٹھایا تو علامہ اقبال نے کہا:
’’سنو بھائی، تم نے دیکھا ہوگا کہ جب قوالی ہوتی ہے تو قوال بڑے مزے اور اطمینان سے گاتا ہے لیکن سننے والے ہو حق کرتے ہیں، وجد میں آتے ہیں، ناچتے ہیں، مضطرب ہوتے ہیں، بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر یہی کیفیتیں قوال پر طاری ہوں تو قوالی ختم ہوجائے۔ میں تو قوم کا قوال ہوں۔ میں گاتا ہوں، تم ناچتے ہو، کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی تمہارے ساتھ ناچنا شروع کردوں‘‘۔
علامہ اقبال نے اس طرح مزاحیہ انداز میں ایک بڑی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح فطرت میں تقسیم عمل ہے اسی طرح افراد میں بھی تقسیمِ عمل ہے۔
یہودی منصوبہ
یہودی غیر مسلم بلکہ دشمنِ اسلام ہونے کے باوجود قرآن کریم پر جتنا پختہ ایمان و یقین رکھتے ہیں، اتنا ہم مسلمان نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف طریقوں کے ذریعے مسلمانوں کو ان راہوں پر چلانے میں شب و روز محو و مصروف رہتے ہیں جس پر قرآن نے مسلمانوں کو نہ چلنے کی تاکید کی ہے۔ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو جن کاموں سے روکا ہے ان راہوںپر چلنے والوں کی دنیا و آخرت تباہ ہو گی۔ اس لیے وہ مسلمانوں کوتباہ و برباد کرنے کے لیے مختلف ذرائع و وسائل کے ذریعے ان عاداتِ بد کے شائق و فریفتہ بنا رہے ہیں اور مسلمان دنیاوی لذات، آرام و آسائش اور جلب منفعت کے لیے ’’یہودی منصوبہ‘‘ پر عمل پیرا ہیں۔
(منشی عبدالرحمان خان۔ ملتان۔ کتاب ’’کتاب زندگی‘‘ صفحہ 124)
حال کے سمندر مستقبل کے موتی
ہم میں سے اکثر لوگ آج کا کام کل کے لیے ملتوی کرتے رہتے ہیں اور وہ کل ہر دن دوسری کل میں بدل جاتا ہے، یہاں تک کہ پچھتاوا اور پریشانی قریب آجاتی ہے اس گفتگو میں ان لوگوں کا ذکر نہیں جو آج بہت سا کام کرنے کے بعد یا کافی مصروف دن گزارنے کے بعد کافی کام دوسرے دنوں میں ترتیب اور ترجیح کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ یہ ذکر ان کا ہے جو آج کی محنت اور تکلیف سے بچنے کے لیے سست ارادے کھتے ہیں کہ یہ تکلیف پھر اٹھا لیںگے۔ آنے والے دنوں میں سب کچھ کر لیں گے ان کے پاس وقت ہوتا ہے لیکن وہ میسر آنے والے آج کا آرام کھونا نہیں چاہتے یا آرام نہ کریں بھی تو بھی فوری محنت اور ذمہ داری کا بار اٹھانا نہیں چاہتے پھر ہوتا یہ ہے کہ آج کے کچھ دن ٹالنے کے بعد آنے والی کل کے بہت سے دن تکلیف میں بدل جاتے ہیں۔ عافیت اور کامیابی کا راز یہ نہیں کہ آج سستی اور کاہلی کے ہاتھوں آرام اٹھا کر مستقبل میں محنت کا منصوبہ بنا لیا جائے حقیقت یہ ہے کہ وہی عالی ہمت انسان آج کا مالک ہو سکتا ہے جو زمانہ حال کے سمندر سے مستقبل کے لیے موتی اور گوہر نکال لائے۔