احساس کمتری کی ماری تیسری دنیا کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ وہ مغربی اقوام کا ردی مال حاصل کر کے خوش ہوتی ہے۔ نقدیا ادھار ہتھیار خرید کر میدان جنگ میں کود پڑتی ہے اور پرانے کپڑے یا اترن پہن کر احساس افتخار سے مسرور ہوتی ہے۔ یہ کام وہ صرف مادی سطح پر ہی نہیں کرتی بلکہ فکر و خیال اور ادب و فن کی سطح پر بھی یہی طرز عمل اختیار کرتی ہے۔ اردو ادب میں ویسے تو یہ کام گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ہو رہا ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن نے اپنی پسپائی قبول کر کے پوری طرح ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔ مولانا الطاف حسین حالی ’’ نے حالی اب آئو پیروی مغربی کریں ‘‘ کی جب ہمیں تلقین کی اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوئے تو اس وقت ہم مغرب کے خیالات کو اپنی تہذیب اور اپنی فکر کے حوالے سے دیکھتے اور جذب کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنے ذہنی و فکری رشتے اسی تعلق سے جوڑتے تھے ۔ لیکن آج یہ عمل صرف اندھی پیروی کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ بالخصوص تنقید، فکر اور کلچر کی سطح پر ادبی رسالے دیکھیے تو ان میں آپ کو مغرب کے ادیبوں اور دانشوروں کے بارے میں الم غلم سب کچھ ملے گا۔ ادھ کچرے خیالات، انگریزی زبان میں لکھی ہوئی عبارتوں کے طویل اقتباسات یا ایک اردو جملے میں کئی کئی ایسے انگریزی الفاظ کے بے وجہ استعمال جن کے لیے الفاظ پہلے سے موجود ہیں یا آسانی سے وضع کیے جاسکتے ہیں ۔ ان مضامین اور عبارتوں کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والا ذہنی ہیضے کی مہلک بیماری میں مبتلا ہے اور ذہنی قے سے اس صفحۂ قرطاس کو گندا اور بدبودار کردیا ہے۔ ان خیالات کا ہماری تہذیب اور ہماری اقدار سے کیا رشتہ ہے؟ یہ باتیں ہمارے لیے کیا معنی رکھتی ہیں اور ہم ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں ؟ اس کا اظہار عام طور پر کسی تحریر میں نہیں ملتا۔ ہر شخص بلا تخصیص مغرب کے ہر درجے کے ادیبوں اور دانشوروں کے نام اپنی تحریروں میں ڈال کر اپنے عِلم کا عَلَم بلند کرتا ہے۔ اللہ بخشے حسن عسکری مرحوم نے بھی اسی قسم کا کام کیا تھا لیکن انہوں نے یہ کام شعور کی سطح پر، سوچ سمجھ کر اور پڑھ کر کیا تھا اور اپنے ادب و تہذیب کے حوالے سے اسے ایک نئی جہت دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کی سوچ اور انداز فکر کی جڑیں اپنی تہذیب میں گہری اور پیوست تھیں ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے آج کے لکھنے والوں تک مغرب کے یہ خیالات ، تحریکیں اور نظریات اس وقت پہنچتے ہیں جب یہ خود مغرب میں مسترد ہوچکے ہوتے ہیں ۔ دس بارہ سال پہلے ’’ اسلوبیات‘‘ کا غلغلہ بلند ہوا تھا لیکن وہ کوئلہ بھری تومڑی کی طرح پھسپھسا کر رہ گیا تھا۔ چند سال پہلے ’’ ساختیات‘‘ کا زور شور ہوا۔ نقاد لوگ قلم کان میں لگائے اس کے پیچھے دوڑ پڑے لیکن اس عرصے میں معلوم ہوا کہ اس نظریہ کی عمر تو پوری ہو چکی ہے اور آج کل ’’ پس ساختیات‘‘ کا زور زورہ ہے۔ نقادانِ ادب اس کی طرف لپکے لیکن جلد یہ بات سامنے آئی کہ یہ نظریہ بھی اب دم توڑ چکا ہے اور اب ’’ رد تعمیر ‘‘ کا عروج ہے۔ جسے Deconstructionکہا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر ادبی رسالوں کے مدیران کرام اور ان میں لکھنے والے نقاد اس طرف دوڑ پڑے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر ان تک نہیں پہنچی کہ ’’ رد تعمیر‘‘ کا زور ٹوٹے ہوئے بھی کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ سب نظریات جامعات امریکا کے شعبہ ادبی تنقید کےپیشہ ور پروفیسروں کے کاروبار تدریس کی پیشہ ورانہ ضرورت ہیں ۔ یہ نظریات امریکا کے سرمایہ دارانہ نظام پر قائم معاشرے میں نئے فیشن کی طرح مال کی مانگ بڑھاتے ہیں ۔ مختلف یونیورسٹیاں نظریہ پسند پروفیسر کی خدمات حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی تنخواہیں پیش کرتی ہیں ۔ طلبہ ان یونیورسٹیوں میں داخل کے لیے دوڑ پڑتے ہیں جہاں نظریہ ساز پروفیسر کاروبار تدریس انجام دے رہا ہے۔ عام طور پر ان پروفیسروں کو جامعات کم سے کم ڈیڑھ لاکھ تنخواہ دیتی ہیں ، پھر بھی یہ تنخواہ امریکا کے کامیاب تاجروں ، ڈاکٹروں اور وکیلوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے، لیکن یورپ کی یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کے مقابلے میں یقینا چار پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ امریکا کے ایک ایسے ہی نظریہ ساز پروفیسر جے بیلس ملر ہیں ، جنہوں نے حال ہی میں ’’ ماڈرن لینگویج ایسو سی ایشن ‘‘ کے اجلاس میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے افتخار کے ساتھ فرمایا کہ ’’ کسی نظریہ کا مخرج و منبع خواہ یورپ ہی کیوں نہ ہو، ہم اسے وہاں سے لیتے ہیںاور ایک نئی صورت دے کر ساری دنیا کو برآمد کردیتے ہیں ۔‘‘اس جملے کا لہجہ دیکھیے، یہ خالص تاجرانہ ذہن کا ترجمان ہے۔ امریکا میں ہر چیز مال تجارت ہے اور جو چیز مال تجارت نہیں ہے وہ ردی ہے، بے وقعت ہے، کوڑا ہے۔
(مضمون: تنقید کی ڈھکوسلے: ماہنامہ پرواز لندن)