حیات ابدی

زندگانی ہے صدف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے!

قطرۂ نیساں: موسم بہار کی بارش کا قطرہ۔ ہر علم وادب کی خاص روایات ہوتی ہیں۔ فارسی ادب کی روایات میں سے ایک یہ ہے کہ بہار کے موسم کی بارش کا قطرۂ سیپی میں پہنچ جائے تو وہ موتی بن جاتا ہے۔ فارسی کی پیروی میں اردو والے بھی اسی روایت سے کام لینے لگے۔ خودنگر: لفظی معنی آپ کو دیکھنے والا۔ مراد اس وجود سے ہے جو اپنے طبعی جوہروں کا صحیح اندازہ کر سکے۔ خود گر: لفظی معنی اپنے آپ کو بنانے والا۔ یعنی وہ وجود جو خدادا جوہروں سے کام لے کر اپنے آپ کو درجہ کمال پر پہنچا سکے۔ خود گیر: لفظی معنی اپنے آپ کو پکڑنے والا ہے۔ مراد ہے اس وجود سے جو اعلیٰ پیمانے پر اپنی حفاظت کر سکے۔
1۔ اگر زندگی کو سیپی فرض کر لیں تو خودی اس سیپی کے لیے موسم بہار کی بارش کا قطرۂ ہے۔ جو سیپی قطرے کو اپنی آغوش میں تربیت دے کر موتی نہ بنا سکے وہ کس کام کی؟
مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد خودی کی تربیت کے سوا کچھ نہیں۔ جو انسان یہ کام انجام نہ دے سکے، سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے زندگی اسی طرح ضائع کر دی، جس طرح سیپی قطرے کو موتی نہ بنا سکنے کی حالت میں اپنی حیثیت ضائع کر دیتی ہے۔
2۔ اگر خودی خودنگر، خود گر اور خودگیر ہو۔ یعنی اپنے جوہروں کو پہچانے، ان سے کام لے کر اپنے آپ کو درجہ کمال پر پہنچائے پھر اس درجے کی حفاظت میں سرگرم رہے تو یہ ناممکن نہیں کہ موت بھی انسان کو مار نہ سکے۔
مطلب یہ نہیں کہ خود نگر، خود گر اور خود گیر پر موت وارد نہ ہو گی۔ مراد یہ ہے کہ موت ایسی خودی کی عظمت اور برتری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ تاریخ کی شہرۂ آفاق ہستیاں خصوصاً انبیائے کرام کی سرگزشتیں اس دعوی کے روشن شہادتیں پیش کر رہی ہیں۔