حادثات کی روک تھام کے لیے بالائی گزرگاہ کی ضرورت

شہر کی ایک اہم شاہراہ، شاہراہِ پاکستان تین ہٹی کے مقام سے شروع ہوکر سہراب گوٹھ کے مقام پر سپرہائی وے سے جاملتی ہے۔ ایک عرصہ قبل اس اہم گزرگاہ کو ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے مختلف مقامات پر پل بناکر سگنل فری کردیا گیا ہے۔ اگرچہ اس عمل سے گاڑی سواروں کے لیے تو سہولت فراہم کردی گئی لیکن دوسری جانب پیدل چلنے والے طبقے کے بنیادی حقوق کو قطعی نظرانداز کردیا گیا۔ اس اہم شاہراہ پر نہ تو گاڑیوں کی حدِّ رفتار پر عمل درآمد ہورہا ہے، نہ ٹریفک کی علامات ہیں، نہ کسی مقام پر زیبرا کراسنگ کی سہولت ہے، اور نہ ہی عوام الناس کی مدد کے لیے کسی ٹریفک کانسٹیبل کو تعینات کیا گیا ہے۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ اگرچہ تین ہٹی، لیاقت آباد نمبر 10، کریم آباد، عائشہ منزل، نصیر آباد، واٹر پمپ اور سہراب گوٹھ کے چوراہوں پر متعلقہ ٹریفک سیکشن کے ٹریفک اہلکار تعینات ہیں لیکن افسوس کہ وہ عوام الناس خصوصاً خواتین، معصوم بچوں اور ضعیف افراد کو محفوظ طریقے سے سڑک عبور کرانے کے بجائے خوش گپیوں اور مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروںکو ڈرا دھمکاکر پیسے بٹورنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے اس روزمرہ غیر قانونی عمل کا مشاہدہ کوئی بھی اعلیٰ افسر کسی اچانک دورے کے ذریعے بخوبی کرسکتا ہے۔ چار لین پر مشتمل اس شاہراہ پر شب و روز دو پہیوں والی موٹر سائیکلوں اور تین پہیوں والے رکشوں سے لے کر 24 پہیوں پر مشتمل اندرون ملک جانے والی تیل اور مال بردار بھاری تیز رفتار گاڑیاں دوڑتی رہتی ہیں جس کے باعث اس مقام پر سڑک عبور کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگرچہ تین ہٹی سے سہراب گوٹھ تک سڑک کے دونوں اطراف کی آبادیوں کے پیدل چلنے والے باشندگان کے سڑک عبور کرنے کے لیے متعدد آہنی بالائی گزرگاہیں تعمیر کی گئی ہیں، لیکن اس شاہراہ کے ایک اہم مقام عرشی شاپنگ مال بلاک 7 کو نظرانداز کردیا گیا ہے، جو ایک مصروف ترین بس اسٹاپ کے علاوہ ایک گنجان آبادی پر مشتمل علاقہ ہے، جہاں سڑک کے دونوں اطراف لاکھوں کی آبادی کے علاوہ کاروباری مراکز، دفاتر، تعلیمی ادارے، شفا خانے، مساجد، پارک اور پیٹرول پمپ قائم ہیں، جہاں شب و روز عوام کی ایک بڑی تعداد خصوصاً خواتین، معصوم بچوں اور ضعیف افراد کا مختلف امور کی انجام دہی کے لیے ایک جانب سے دوسری جانب آنے جانے کا لگاتار سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے اس مقام پر سڑک عبور کرتے ہوئے جان لیوا حادثات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ بعض ناتجربہ کار اور نادان پیدل چلنے والے خصوصاً درجنوں خواتین، معصوم بچے اور بوڑھے سڑک عبور کرتے ہوئے ان تیز رفتار گاڑیوں کی زد میں آکر جاں بحق اور تاحیات معذور ہوچکے ہیں۔ اسی باعث اس مقام کا نام خونیں سڑک پڑ گیا ہے۔ مراسلہ نگار بذاتِ خود اس مقام پر بعض جان لیوا حادثات کا عینی شاہد ہے، جس سے ہمیں شدید ذہنی تکلیف اور کرب محسوس ہوا۔ ایک تو کسی کا پیارا جان سے گیا یا عمر بھر کے لیے لاچار ہوگیا لیکن حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے کسی قسم کی مالی امداد سے بھی محروم ہے۔ اس مقام پر تواتر سے رونما ہونے والے سنگین ٹریفک حادثات اور اس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اور مجروحین کی بڑی تعداد کے باوجود صوبائی حکومت اور بلدیاتی حکام کی بے حسی کے باعث ابھی تک ان معصوم اور بے گناہ شہریوں کی حالتِ زار پر رحم نہیں آیا اور انہوں نے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لہٰذا علاقے کے جملہ باشندگان کی جانب سے متعلقہ حکام سے استدعا ہے کہ آئے دن کے سنگین حادثات کی فوری روک تھام کے لیے عرشی شاپنگ مال بلاک 7کے مقام پر فوری طور پر بالائی گزرگاہ تعمیر کی جائے، اور اس دوران اس مقام پر پیدل چلنے والے افراد کو سڑک عبور کرانے میں مدد و رہنمائی کے لیے کم ازکم ایک ٹریفک کانسٹیبل کو دن رات کے اوقات میں تعینات کیا جائے، تاکہ قیمتی انسانی جانوں کی سلامتی کو محفوظ بنایا جاسکے اور اہالیانِ علاقہ سکون کا سانس لے سکیں۔
اسرار ایوبی
فیڈرل بی ایریا کراچی

ذرائع ابلاغ اور ہمارا قومی ایجنڈا

فرائیڈے ا سپیشل کے گزشتہ شمارے میں ’’ذرائع ابلاغ اور ہمارا قومی ایجنڈا‘‘پر فورم کی رپورٹ دیکھی۔ 5 ماہرین نے اہم معلومات فراہم کیں۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر یقینا ذرائع ابلاغ سے منسلک افراد کو سمت کا تعین کرنے میں آسانی ہوگی۔ مجموعی طور پر اس میں تنقیدی پہلو زیادہ تھے۔ اہم تنقیدی نکات یہ تھے۔میڈیا میں کمرشل ازم آگیا ہے، میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہے۔ میڈیا ہمارے تہذیب،علمی میراث، اور مذہبی تصورات کے مطابق نہیں چل رہے،چینل بیرونی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، ہمیں اپنی تہذیب اور رویات سے ہٹایا جارہا ہے، کئی اینکر بکائو مال ہیں، پاکستانی ڈرامے انڈین ڈرامے کی نقل پر بن رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو این جی اوز بتارہی ہیں انھیں کیا ڈرامہ پیش کرنا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اپنا ایجنڈا خود سیٹ نہیں کرتے، اس ایجنڈے کا ہمارے مذہب اور تہذیب سے تعلق نہیں۔ ذرائع ابلاغ کا ۹۹ فیصد حصہ سیاست سے متعلق ہے۔ میڈیا بہت وسیع ہوچکا ہے،اب نیا میڈیا تشکیل دینا ہوگا، جو آپ کے تصورات، نظریات کی عکاسی کرے اور ان کی تکمیل کرے۔ کالم نویسوں میں دانش مندی کا عنصر صفر ہے۔ اشتہارات و ڈراموں میں عریانی بہت ذیادہ ہوگئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل نے ان ماہرین کا موقف سامنے رکھا، میڈیا کا کام فیصلہ کرنا نہیں موقف سامنے لانا ہوتا ہے۔ فیصلہ عوام، صاحب علم،اور متعلقہ ماہرین کرتے ہیں۔ اگر ذرائع ابلاغ کے دیگر نمائندوں ،پروڈیوسرز وغیرہ کے سامنے یہ نکات وسوالات رکھے جائیں، تو ان کو بھی موقع ملتا اپنا موقف بیان کرنے کا۔یہاں یہ پہلو بھی ہے کہ ناظرین کس طرح کا ڈرامہ،پروگرام دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی دلچسپی کے مد نظر ٹی وی چینل اپنی پالیسی بدلتے رہتے ہیں، مثلاً اگر ایک مصنف بہت معلوماتی معیاری کتاب لکھے اور اسے کوئی پڑھے ہی نہیں تو مصنف کیا کرلے گا۔ اور کوئی ڈرامہ ساز بہترین معیاری ڈرامہ پیش کرے اور اسے پزیرائی نہ ملے تو وہ ڈرامہ ساز کیا کرلے گا۔ تاہم ذرائع ابلاغ پر لازم ہے کہ وہ ایک طرف قارئین یا ناظرین کی دلچسپی کو مدنظر رکھیں تو دوسری طرف قومی تہذیب و روایات اور اخلاقی ضابطے کی پابندی نہ بھولیں۔
نوید خان ۔ کراچی