مولانا عبدالمالک
*حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے چار چیزیں دے دی گئیں تو اسے دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں دے دی گئیں: شکرگزار دل، ذکر کرنے والی زبان اور آزمایش پر صبر کرنے والا بدن، اور ایسی بیوی جو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے۔(بیہقی، شعب الایمان)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا شکر بہت اہم فریضہ ہے بلکہ پہلا فرض ہے جو انسان پر عائد ہوتا ہے۔ شکرگزاری کا جذبہ بیدار ہو تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی اور طاعت میں سستی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت نہیں کرتا۔ ذکر کرنے والی زبان انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں اور احکام سے جوڑے رکھتی ہے کہ یہی ذکرِ حقیقی ہے۔ جو آدمی زبان سے ذکر کرے لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے نہ بچے تو یہ ذکر اس کے منہ پر دے مارا جاتا ہے۔ پھر تیسری چیز صبر ہے۔ انسان ہرطرح کی تکالیف اور مصائب میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہے، نافرمانی سے بچے اور واویلانہ کرے۔ صبر کی تصویر بن کر وقت گزارے۔ اس معاملے میں اس کی محسنہ اس کی بیوی ہوتی ہے جو عسرویسر کی ساتھی ہو اور اس کی پیٹھ پیچھے اپنے نفس کی حفاظت کرے اور اس کے مال کی بھی حفاظت کرے اور اسے بے فکر کردے۔ جب اسے گھر کی پریشانی نہ ہوگی تو سب تکلیفیں آسان ہوجائیں گی۔
*حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: کون سا آدمی دوسروں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ صَدُوْقُ اللِّسَانِ۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! صَدُوْقُ اللِّسَانِ (سچی زبان والا) کو ہم سمجھتے ہیں مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: صاف دل جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو اور نہ ظلم و زیادتی، کینہ اور حسد کرتا ہو۔(مشکوٰۃ بحوالہ ابن ماجہ، بیہقی)
ایسا آدمی جس میں یہ صفات ہوں سب سے زیادہ فضیلت کیوں نہ رکھے جس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی حق تلفی کی ہو نہ ہی مخلوق کی، اور مخلوق کو اس سے پوری طرح امن ہو۔ مسلمان کی صفت ہی یہ ہے کہ دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہوں۔ یہ ظلم و زیادتی نہیں کرتا، کینہ نہیں رکھتا، حسد نہیں رکھتا۔ اس سے ہرمسلمان محفوظ و مامون ہے۔ اس پر اسلام کی تعریف بھی صادق آتی ہے اور ایمان کی تعریف بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تزکیہ اور اسلام اور ایمان پر پورا اُترنے کے لیے جامع اور آسان نسخہ بتلا دیا۔ انسان اگر کوشش کرے کہ وہ پاک بازوں میں شامل ہوجائے، افضل لوگوں کے اندر اس کا شمار ہو، اور اسے اللہ تعالیٰ کا قرب اور ولایت حاصل ہوجائے، تو اسے چاہیے کہ ان اخلاقی امراض سے اپنے آپ کو بچائے۔ ہمیشہ سچ بولے، گناہ سے بچے اور لوگوں کے ساتھ حسد، بُغض اور کینہ نہ رکھے۔ خصوصاً نیک لوگوں کے لیے اپنے اخلاص اور محبت میں اضافہ کرے۔ نیک لوگوں کی محبت کی بھی احادیث میں بڑی فضیلت آتی ہے۔
*حضرت عبداللہ بن معاویہ عامریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین کام ایسے ہیں جس نے کیے وہ ایمان کا مزہ چکھے گا۔ جس نے اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اس عقیدے کی بنیاد پر کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور خوش دلی سے ہرسال اپنے مال کی زکوٰۃ دی۔ یہ دو باتیں آپؐ نے ارشاد فرمائیں تو ہم نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ اپنے نفس کا تزکیہ کس طرح کرے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ عقیدہ رکھے کہ جہاں آدمی ہے وہاں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔ (مسند بزار)
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کا سب سے افضل درجہ یہ ہے کہ تو یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو۔ (طبرانی)
ایمان، عبادت خصوصاً زکوٰۃ کے ساتھ یہ سوچ کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے ساتھ ہے،انسان کو ہرقسم کے گناہ سے بچاتا اور ہرنیکی پر آمادہ کرتا ہے۔ ایک مومن جو اللہ تعالیٰ کو واحد خالق و مالک اور معبود و حاکم مانے، اور اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر بھی جانے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ کیسے بدکاری اور خباثت کرے، رشوت اور سود لے، بے گناہ کو قتل کرے اور ظالم کی مدد کرے۔ یہ بُرائیاں ایک انسان اسی وقت کرسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ سے اور آخرت سے غافل ہو۔ نفس کے تزکیے کا یہ ایسا نسخہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اسے استعمال کیا اور دنیا کے پاک باز ترین انسان قرار پائے۔ راتوں کو اللہ کی عبادت اور دن کو گھوڑوں کی پشت پر سوار ہونا ان کی امتیازی صفت ہے۔ انھوں نے اللہ کے دین کی خاطر جانیں اور مال یوں نچھاور کیے کہ گویا وہ جنت اور دوزخ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں۔ انھیں میدانِ جنگ میں جنت کی خوشبو آتی تھی۔ اس لیے جان دینا ان کے لیے آسان ترین کام تھا۔ آج ہمیں اپنی جانوں کی فکر ہے اور دنیا کی ہوس، جو اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر جاننے کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ اگر ہم اپنے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے اس نسخۂ کیمیا کو اپنا لیں تو بے شک ساری مشکلات حل ہوجائیں گی اور آخرت بھی سنور جائے گی۔
*حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ! کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ (مسلم، مشکوٰۃ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے میں انس و محبت کا دور دورہ ہوجائے۔ جب ہر کوئی دوسرے سے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے اور کسی پر فخر نہ کرے اور کسی کے ساتھ زیادتی سے بھی پیش نہ آئے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپس میں متصادم اور برسرِپیکار ہوں۔ اس کے برعکس ہر ایک دوسرے کا ہمدرد و غم گسار ہوگا اور دوسرے کی مصیبت میں اس کے کام آنے والا ہوگا جس کے نتیجے میں باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ آج معاشرے کو اس ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔
****
*حضرت شداد بن الھادؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ایمان لایا اور پیروی کا عہد کیا اور کہا کہ میں آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنا چاہتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس چاہت کو منظور فرمایا اور اسے اپنے بعض صحابہؓ کے حوالے کیا اور انھیں اس کی خیرخواہی، دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی وصیت کی۔ جب غزوۂ خیبر پیش آیا تو وہ اس غزوے میں اپنے ساتھیوں سمیت شریک ہوا۔ خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مالِ غنیمت ملا۔ آپؐ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا تو اس دیہاتی کو جو ایمان لاکر آپؐ کے پاس مدینہ طیبہ میں آگیا تھا اور پھر وہ غزوۂ خیبر میں بھی شریک ہوا تھا، غنیمت میں سے حصہ دیا۔ اس کا حصہ اس کے ساتھیوں نے جن کے ساتھ وہ رہتا تھاحاصل کیا تاکہ اس تک پہنچا دیں۔ وہ اس وقت ان کی سواریوں کو چراگاہ میں لے کر گیا ہوا تھا اور انھیں چرانے کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔
جب اسے مالِ غنیمت دیا گیا تو اس نے پوچھا: یہ کیا چیز ہے؟ ساتھیوں نے کہا: یہ مالِ غنیمت میں سے تیرا حصہ ہے۔ وہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں نے اس کی خاطر آپؐ کی اتباع نہیں کی تھی۔ میں نے تو آپؐ کی پیروی اس لیے کی ہے تاکہ میرے گلے میں تیر لگے (اپنے گلے کی طرف اشارہ کرکے کہا) اور میں شہید ہوکر جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپؐ نے اس کی یہ بات سنی تو فرمایا: اگر تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی تیرے ساتھ سچ کرے گا۔ اس کے بعد پھر جنگ کا معرکہ برپا ہوا۔ مسلمان میدانِ قتال میں نکلے تو وہ بھی چل پڑا، لڑا اور گلے میں تیر کھاکر شہید ہوگیا۔ اسے آپؐ کے پاس اُٹھا کر لایا گیا ۔ اسے دیکھ کر آپؐ نے پوچھا: یہ وہی ہے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ وہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے ساتھ سچا معاملہ فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جُبہ میں کفنایا، پھر اس کی میت کو اپنے سامنے رکھا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ نماز میں اس کے حق میں آپؐ نے جو دُعائیہ کلمات کہے ان میں سے یہ کلمات بلند آواز میں فرمائے: اَللّٰھُمَّ ھَذٰا عَبْدُکَ خَرَجَ مُجَاہِدًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَہِیْدًا وَاَنَا عَلَیْہِ شَہِیْدٌ، ’’اے اللہ!یہ تیرا بندہ ہے، تیری راہ میں جہاد کے لیے نکلا تھا، شہید ہوگیا۔ مَیں اس کی گواہی دیتا ہوں‘‘۔(بیہقی)
جسے اللہ تعالیٰ، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کے ساتھ عشق و محبت ہوجائے تو پھر یہ عشق و محبت اسے اللہ تعالیٰ کی بندگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی اور جہاد کے لیے کھڑا کردیتے ہیں۔ دیہاتی ایمان لایا اور پھر آپؐ کے ساتھ رہنے اور جہاد میں حصہ لینے کا عزم کرلیا۔ مالِ غنیمت پر اس کی نظر نہیں بلکہ جامِ شہادت نوش کرنے کا ولولہ ہے۔ اس نے اپنی مراد حاصل کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ اعزازبخشا کہ اپنے جُبہ میں کفنایا اور پھر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس کے صدق اور شہادت کی اللہ کے ہاں گواہی دی۔ صحابہ کرامؓ کے انھی جذبات نے دنیا کو اسلام کی طرف کھینچا اور اسے دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ آج بھی اسی قسم کے جذبے سے سرشار اہلِ ایمان جاں بازی اور جاں نثاری کے نمونے پیش کر رہے ہیں۔ تکالیف اور مصائب سے دوچار ہیں لیکن ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آتی۔ یہی لوگ اللہ والے ہیں اور یہی اللہ کو پیارے ہیں اور انھی جیسا بننے کی طلب اور تڑپ پیدا کرنی چاہیے۔